جشن عید میلاد النبی ﷺ کیسے منائیں...
ماہ ربیع الاول کو سال کے تمام مہینوں میں نمایاں حیثیت حاصل ہے،اس ماہ مبارک کی بارہ تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنے محبوب حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ کفر و شرک اور جہالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دور فرما کر دنیا کو نو ر ایمان سے منور فرما دیا ،آپ دنیا میں تشریف لائے اور ہر قسم کے ظلم و ستم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ فرما دیا، بیٹیوں ،عورتوں اور یتیم بچوں کے لیے رحمت ثابت ہوئے اور پوری دنیا کو صلہ رحمی ،باہم محبت و مودت اور اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہنے کا درس عطا فرمایا۔
تو اس نبی کی ولادت کے دن کو اوراس مہینے کو بابرکت سمجھنا اور اسے خوشی کے طور پر منانا،یہ ہم میں سے ہر ایک کا اخلاقی فریضہ ہے،لہٰذا ہمیں اس مبارک دن کو اعلی پیمانے پر منانا چاہیے اور حضور ﷺ کی پیدائش کے موقع پر پوری دنیا اکو امن و آشتی ، محبت و مودت اور بھا ئی چارگی کا پیغام دینا چاہیے ۔
لیکن یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ہم اس عظیم دن کو کیسے منائیں ؟
ہمارے مسلم معاشرےمیں یوم ولادت کے موقع پر جلوس تو بڑی دھوم دھام سے نکالے جاتے ہیں،جو کہ محبت کے اظہار کا ایک نمایاں طریقہ ہے ،لیکن ان جلوسوں میں ہمارے نوجوان لڑکوں کی غیر شرعی حرکتوں کو دیکھ کرایسا بالکل بھی نہیں لگتا کہ وہ جلوس محمدی میں شرکت کی سعادتیں حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کی اچھل کود اور نازیبہ حرکتوں سے قوم مسلم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
اپنی عبادتوں میں اضافہ کریں : یوم ولادت کی اپنی الگ برکتیں ہیں ،اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم روزانہ کی عبادتوں کے مقابلے اس مہینے اورخاص اس دن عبادت میں کافی اضافہ کرلیں،حدیثوں سےاس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ حضور ﷺ کے معمول میں سے تھا کہ وہ ہفتےمیں ہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے ،جب صحابہ کرام نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا :اسی دن میری پیدا ئش ہوئی اور اسی دن سے میرے اوپر وحی نازل ہوئی(صحیح مسلم ،کتاب الصیام ،1/368)
اس حدیث پاک سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ،پہلی یہ کہ حضورﷺ نے اپنی پیدائش کو یادگار کے طور پر منایا اور اس یادگار کو باقی رکھنے کے لیے پیر کے دن آپ خود روزہ رکھتے تھے ،اس سے ہمیں آپ کی پیدائش کے دن خوشی منانے کا ثبوت ملتا ہے کہ پیر کا دن ہفتے میں ایک بار آتا ہے توجب ہم آپ کی پیدائش کی خوشی ہر ہفتے روزہ رکھ کرمنا سکتے ہیں، تو سال میں ایک بار تو بدرجہ اولیٰ منا سکتے ہیں۔دوسری چیزیہ کہ پیر کا دن تو سال میں کم از کم۵۲؍ بار آتا ہےجبکہ ۱۲؍ربیع الاول شریف کی تاریخ توسال میں ایک ہی بار تشریف لاتی ہے اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشی میں میلاد پڑھنے اور پڑھانے والے اور بارھویں شریف منانے والوں کو چاہیے کہ وہ ان سب کے ساتھ ساتھ حضور کی پیدائش کے دن روزوں کا بھی اہتمام کریں اور صرف سال میں ایک بار کی کیا تخصیص،محبت کا تقاضا تو یہ ہےکہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں ہر ہفتے پیر کے دن روزے رکھیں جائیں ، اور صحابہ کرام بھی ایسا کیا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ بارہویں شریف کے دن ہمیں کثرت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک کا اہتمام کرنا چاہیے۔
محفل میلاد منعقد کریں: بارہویں شریف کے دن ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں محفل میلاد منعقد کریں ،اور اس میں اپنے گھر والوں،بچوں، بڑوں ،اور عورتوں کو لے کر بیٹھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو پڑھ کر اپنے بچوں کو بھی سنائیں تاکہ ہمارے بچے نبی پاک ﷺ کی سیرت مبارکہ کو جانیں،اس سے بچوں کے دلوں میں نبی پاک ﷺ کی محبت بیٹھیے گی اور یہ محبت ان کے بہتر اور کامیاب مستقبل کا سبب بنے گی ۔معاشرے میں ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے کہ وہ نبی پاک ﷺ کی سیرت کے بنیادی اور اہم پہلووں سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں۔بعض کو تو نبی پاک ﷺ کے والدین کے ناموں تک کا علم نہیں ہوتا۔ہجرت اور غزوات کا معنی ، صحابی کس کو کہتے ہیں،اور ان میں خصوصاً خلفائے راشدین کے نام تک نہیں جانتے ہیں،ایسے ہی نوجوان جلوس اور جلسوں میں خوب آگے آگے رہتے ہیں اور سیکھتے کچھ نہیں۔یہ بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ نوجوان طبقہ نبی پاک کی سیرت کے اہم ، بنیادی پہلووں سے ناواقف ہے ۔ساتھ ہی دوسرے اسلامی احکامات سے بھی دور ہوتا جا رہا ہے ،جس سے وہ طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہورہا ہے ،لہٰذانئی نسل کو دین سے قریب کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کے دلوں میں حضور ﷺ کی محبت پیدا کرنی ہوگی ،اور اس کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ انھیں بچپن ہی سے میلاد کی محفلوں اور دیگر اسلامی تقریبات میں لے جایا جائے اور ایسی محفلیں منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی جائے۔اس کی طرف ہمیں بہت توجہ دینی چاہیے۔
اپنے ظاہر و باطن کو سجائیں: انسان کو جب کوئی خوشی ملتی ہے یاکوئی خوشی کا موقع آتا ہے تو انسان عام طور سے اپنے گھروں کو سجاتا ہے ۔ صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتا ہے۔اس خوشی کے دن کو کسی الگ انداز میں منانے کی کوشش کرتا ہے۔ایک مرد مومن کے لیے بارہویں شریف سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس میں محسن انسانیت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔اس لیے ہمیں بھی اس عظیم خوشی کا اظہار اپنے گھروں کی سجاوٹ سے کرنا چاہیے ،اپنی گلیوں اور محلوں کو حضور کی آمد کی خوشی میں سجانا چاہیے اور اپنے گھروں کی چھتوں پر جشن عید میلاد النبی کا جھنڈ ا لگانا چاہیے ۔ اور اس سجاوٹ سے ذرا آگے بڑھ کر ہمیں اپنے اخلاق وکردار کو بھی نبی پاک ﷺ کی سیرت کی پیاری پیاری تعلیمات سے سجانا چاہیے تاکہ ہمارا گھر بھی روشن ہو اور ہمارے اخلاق وکردار بھی روشن ہوں۔کیوں کہ مذہب اسلام ظاہر سے باطن کی سجاوٹ اور باطن کو پاک و صاف کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔جب باطن صاف اور روشن ہوگا تواس روشنی سے آخرت کی راہیں روشن ہوں گی۔اس دنیا کے بعد کی زندگی روشن ہوگی۔
جلو س محمدی ﷺ نکالیں :حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی پیدائش کے موقع پر جلوس نکالنا ، درودوسلام اور نعت پاک پڑھتے ہوئے گلیوں اور سڑکوں پر گھومنا ، محبت اور خوشی کے اظہار کا طریقہ ہے،اس میں شریعت کی طر ف سے کوئی قباحت نہیں ،جب تک کوئی خلاف شرع کام انجام نہ دیا جائے ۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے اپنے محلوں میں جلوس محمدی ﷺنکالیں ،اور اس میں آپ پر درود وسلام اور نعت پاک وغیرہ پڑھتے ہوئے ،گلیوں میں گشت کریں، لیکن یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر خوشی منانا اور اس خوشی کا اظہار کرنا ہر اس طریقے سے جائز ہے، جو شریعت اور اسلامی تہذیب کے مطابق ہو، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں جلوس وغیرہ میں غیر اسلامی چیزیں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں، ڈول باجے ،اور ڈی جے وغیرہ کے استعمال میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور جس طریقے سے جلوسوں میں آج اچھل کود ،مستی مذاق کیا جاتا ہے ، اسے دیکھ کر ایسا بالکل بھی نہیں لگتا کہ یہ جلوس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں نکالا گیا ہے ،لہٰذا ہمیں اپنے جلوسوں کو اور مہذب بنانا ہوگا ،اپنے جلوسوں میں ہراس قسم کی تمام حرکتوں پر کنٹرول کرنا ہوگا ،بلکہ جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام تو یہ ہے کہ ہمارے جلوس میں حاضر ہونے والا ہر ایک فرد باوضو ہوکر آئے کہ اس کے دل میں حضور کی محبت انگڑائیاں لے رہی ہوں اور اس کی زبان پر درود و سلام کے نذرانے اور نعت پاک کے نغمات ہوں ،اس وقت کہیں ہمارے جلوس کامیاب ہوتے نظر آئیں گے ۔
جلوس میں کھانے کی بے حرمتی نہ کریں: آج کل کے جلوسوں میں کھانے پینے کی چیزیں لٹائی جاتی ہیں، کچھ ہاتھوں میں آتی ہیں ،کچھ زمین پر گر جاتی ہیں ،حتی کہ بعض پیروں کے نیچے اور کچھ نالیوں میں گر کر ضائع ہو جاتی ہیں ،بارہویں شریف کے موقع پر مٹھائی اور دوسری چیزوں کا لنگر چلانا یقینا باعث اجروثواب ہے لیکن اسے اس طرح لٹانا ،یہ اللہ کی نعمت کی بے حرمتی ہے ،اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں دنیا کی ہر چیز کا حساب دینا ہے ،لہذا ہمیں اس طرح چیزوں کو ضائع کرنے سے بچنا چاہیے ، بلکہ کھانے کی چیزیں لوگوں کے ہاتھوں میں دیں ،یہ طریقہ درست ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔
بعض جگہوں پر جلوس نکلتے وقت گاؤں ،محلوں کی بچیاں اور عورتیں بے پردہ سڑکوں پر آجاتی ہیں ، جوکہ بعض دفعہ فتنوں کا سبب بن جاتا ہے ،لہٰذا ہماری خواتین کو اس سے بچنا چاہیے کہ پردہ اسلام کا بہت بڑا شعارہے اور اسلام نے ہر حال میں پردے کے اہتمام کا حکم دیا ہے، بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں اور اگر نکلنا ضروری ہے تو با پردہ نکلیں، اسلام کسی بھی صورت میں بے پردگی کی اجازت نہیں دیتا۔
کتابیں تقسیم کرنا: نبی پاک ﷺ کی ولادت منانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نبی پاک ﷺ کی سیرت پر کتابیں لوگوں میں تقسیم کریں۔اسلامی تعلیمات پر مشتمل پتلے پتلے رسائل لوگوں میں تقسیم کیے جائیں تاکہ ہر کوئی اسے با آسانی پڑھ سکے اور اس سے زیادہ زیادہ اسلامی تعلیمات کا فروغ ہو ۔اگر غور کیا جائے تو نبی پاک کی ولادت کی خوشی منانے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔یہ زیادہ موثراور دیرپا ہے۔لنگر،کھانے وغیرہ کا فائدہ تووقتی ہوتا ہے ،اس سے خوشی حاصل ہوتی ہے لیکن اگر کتابوں اور پمفلٹ کے ذریعے اسلامی تعلیمات عام کیےجائیں تو اس کا زیادہ اثر ہوگا اور جتنے پیسے جلسے ،جلوس اور دیگر کاموں میں خرچ کیےجاتے ہیں اگر ان میں سے تھوڑا بھی بچا کر دینی اسلامی لٹریچر کی طرف خرچ کیا جائے تو بڑا فائدہ ہوسکتا ہے۔ نام ونمود اور نمائش والے کاموں میں لوگ بڑی بڑی رقمیں لگا دیتے ہیں۔لیکن اس جیسے اہم کاموں میں بہت کم لوگ خرچ کر پاتے ہیں یا اس طرف ان کی رہنمائی نہیں ہوتی،اگر ایسے نیک اور مفید کاموں کی طرف ان کی توجہ دلائی جائے تو وہ ضرور ایسے کاموں میں حصہ لے کر صدقہ جاریہ کا ثواب حاصل کریں گے ۔بس ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔اگر ہم نے ان طریقوں پر نبی پاک ﷺ کی ولادت کی خوشی منائی تو ہم دونوں جہان میں فائدے میں رہیں گے۔اللہ پاک ہمیں حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔
از: محمد احمد حسن سعدی امجدی
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ،علی گڑھ