عیدمیلادالنبی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم قرآن وحدیث اور اقوال علما کی روشنی میں
ماہ ربیع الاول وہ بابرکت اور نورانی مہینہ ہے جس کی آغوش میں نور مبین کے جلوے تا قیامت چمکتے رہیں گے- الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
"وذكرهم بايام الله ،،
ہمیں اس دن کی یاد تازہ کرنی ہے جو یومِ ولادتِ مصطفیٰ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ہے، یہ وہ مبارک و مسعود مہینہ ہے جس میں الله رب العزت کے سب سے پہلے اور آخری نبی جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے- اس لیے اس میں حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا جشن منانا، اظہارِ فرحت وسرور کرنا، واقعاتِ میلاد کا تذکرہ کرنا، نہ صرف جائز و مستحسن ہے بلکہ باعث خیر و برکت بھی ہے-
تذکرہ ولادتِ پاک تو سنت الٰہیہ بھی ہے اور سنت رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم وسنت صحابہ، وتابعین وطریق جملہ مسلمین بھی، یہی وجہ ہے کہ صدہا سال سے پوری دنیا کے عامتہ مسلمین وعلمائے راسخین وعارفین ولادتِ باسعادت کے موقع پر ذکر ولادت کرتے اور خوشی مناتے رہے ہیں- اور مسلمانانِ عالم میں یہ رائج عمل مولود مقبول ہے-
اللّٰہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
" يا ايها الناس قد جاءتكم موعظة من ربكم وشفاء لما فى الصدور وهدى ورحمة للمؤمنين. قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا هو خير مما يجمعون ،،
اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور رحمت ایمان والوں کے لیے، اے محبوب آپ فرما دیجیے الله ہی کے فضل اور اسی کی رحمت سے تو اس پر چاہیے کہ وہ خوشی کرے وہ بہتر ہے اس سے وہ جو جمع کرتے ہیں-
ظاہر ہے کہ نصیحت وشفا ورحمت حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اور تشریف آوری پر موقوف ہے، اور الله رب العزت کی سب سے بڑی نعمت ذات رسولِ اقدس ہے، کیونکہ اس سے بڑھ کر نہ کوئی نعمت خلق خدا کو ملی اور نہ اس سے بڑا فضل و رحمت الله رب العزت نے انسانوں، جنوں، فرشتوں و دیگر مخلوقات کو عطا فرمایا-
"واما بنعمت ربك فحدث،،
اور اپنے رب کی نعمتوں کا خوب خوب چرچا کرو-
حضرتِ سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما نے آیت کریمہ:
"الذين بدلوا نعمة الله كفرا،،
کے تحت فرمایا: کہ جنہوں نے الله کی نعمت کی ناشکری کی، اور کفر کیا وہ کفار قریش ہیں- اور نعمت الله سے مراد محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ہیں- ( بخاری شریف جلد 2/غزوہ بدر)
قرآنِ مجید میں حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف آوری سے پہلے میلاد النبی کا تذکرہ موجود ہے سورہ آل عمران میں ہے:
،،ثم جاءكم رسول مصدق لما معاكم لتومنن به ولتنصرنه،،.
حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا:
" انى رسول اللّه اليكم مصدقالما بين يدى من التوراة ومبشرا برسول ياتى من بعدى اسمه احمد،،
لہذا حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کے ظہور پر جتنی بھی خوشی منائی جائے، اور آپ کی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے-
سرکارِ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
اے رضا خود صاحب قرآں ہے مداح حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول الله کی
معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر مقدس، اور بیان مبارک ازروئے قرآن مطلوب ومحبوب ہے- اسے ناجائز قرار دینا انہیں لوگوں کا کام ہے جو ظہورِ ذات محمدی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے خوش نہیں ہیں- خود رسولِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا میلاد شریف منایا ہے-
حضرت ابو قتادہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"سؤل رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلّم عن صوم الاثنين فقال فيه ولدت وفيه انزل على،،
رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: اسی دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی-
مذکورہ بالا آیات وحدیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا تذکرہ کرنا جائز ومستحسن ہے- اور یہ کہ یہ قرآن کریم واحادیث مبارکہ کی اتباع وپیروی ہے- نفس میلاد، تذکرہ و واقعاتِ میلاد تو ہر دور میں رہا ہے، عہد رسالت، وعہد صحابہ، وتابعین میں بھی اپنی مخصوص شکل میں موجود تھا، اس لیے اس کا اصل جواز تو منصوص رہا البتہ قرونِ ثلاثہ کے بعد اس کی ہیئت میں اضافہ ہوا اور میلاد النبی صلی الله وسلم کے دن کو عید وخوشی اور گونا گوں نیکی ومسرت اور جشنِ ولادت کے طور پر منایا جانے لگا، یہ اگرچہ بعد کی ایجاد ہے جسے اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں، مگر یہ بدعتِ حسنہ ہے، نہ کہ بدعت سئیہ، جس کی اصل یہ حدیث پاک ہے:
" ماراه المسلمون حسنا فهوا عند الله حسن،،
اقوال علما:
* خاتم الحفاظ حضرتِ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع، تلاوتِ قرآنِ مجید اور حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے مختلف واقعات اور ولادت کے موقع پر ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ کرنا ان بدعاتِ حسنہ میں سے ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے، کیونکہ اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی آمد کا اظہار کرنا ہے (الحاوی للفتاوی جلد نمبر ١ /صفحہ:١٨٩)
* شارح بخاری حضرتِ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمتہ الله تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک مروجہ طریقے سے میلاد کرنے کی اصل اس حدیثِ پاک سے ثابت ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ: جب رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ وہ دسویں محرم کو روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اسی دن الله رب العزت نے فرعون کو ڈبویا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، اس لیے ہم لوگ شکرانے کے طور پر آج کے دن کا روزہ رکھتے ہیں- حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تمہاری بنسبت حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں، آپ نے خود روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا-
اس حدیثِ پاک سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس دن الله رب العزت کسی عظیم نعمت کا فیضان فرمائے، یا کسی بڑی مصیبت سے نجات دلاکر احسان فرمائے، تو خاص اس انعام الٰہی کے دن میں شکرانے کے طور پر کوئی کام کرنا اور پھر اس عمل کو آنے والے ہر سال میں اسی دن میں کرتے رہنا جائز و مستحسن ہے- اور نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں- لہٰذا مناسب ہے کہ اہل اسلام خاص ولادتِ باسعادت کے دن اس کا اہتمام کریں تاکہ یہ عاشورہ کے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقع کے مطابق ہو جائے-
* امام قسطلانی مواہب اللدنیہ میں فرماتے ہیں: حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محفلیں منعقد کرتے چلے آئے ہیں، اور خوشی کے ساتھ کھانا پکاتے رہے ہیں، اور دعوت طعام کرتے رہے ہیں، اور اس رات میں سرور ظاہر کرتے چلے آئے ہیں اور نیک کاموں میں ہمیشہ زیادتی کرتے رہے ہیں، اور حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مولود کریم کی قرآت کا اہتمامِ خاص کرتے رہے ہیں، جس کی برکتوں سے ان پر الله رب العزت کا فضل ظاہر ہوتا رہا ہے، اور اس کے خواص سے یہ امر مجرب ہے کہ انعقادِ محفلِ میلاد اس سال میں موجب امن وامان ہوتا ہے، اور ہر مقصود و مراد پانے کے لیے جلدی آنے والی خوش خبری ہوتی ہے، تو الله رب العزت اس شخص پر بہت رحمتیں فرمائے جس نے ماہ مبارک کی ہر رات کو عید بنا لیا ہے ، اور حضرتِ علامہ ابنِ الحاظ نے مدخل میں طویل کلام کیا ہے ان چیزوں پر انکار کرنے میں جو لوگوں نے بدعتیں نفسانی خواہشیں پیدا کردی ہیں اور آلاتِ محرمہ کے ساتھ عمل مولود شریف میں غنا کو شامل کردیا ہے تو الله تعالیٰ ان کو اور ان کے قصد جمیل پر ثواب دے اور ہمیں سنت کی راہ پر چلائے بیشک وہ ہمیں کافی ہے اور بہت اچھا وکیل ہے (مواہب اللدنیہ)
علامہ قسطلانی کی اس عبارت سے حسب ذیل امور ثابت ہوئے-
* ماہ ربیع الاول شریف میں انعقادِ محفلِ میلاد اہل اسلام کا طریقہ کار رہا ہے-
* کھانے پکانے کا اہتمام، انواع واقسام خیرات وصدقات میلاد کی راتوں میں اہل اسلام ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں-
* ماہ ربیع الاول شریف میں خوشی ومسرت وسرور کا اظہار شعار مسلمین ہے -
* ماہ ربیع الاول شریف میں میلاد شریف پڑھنا اور قرآت میلاد پاک کا اہتمامِ خاص کرنا مسلمانوں کا محبوب طرزِ عمل رہا ہے-
* ماہ میلاد کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنا مسلمانوں کا پسندیدہ طریقہ چلا آرہا ہے-
* میلاد کی برکتوں سے میلاد کرنے والوں پر الله تعالیٰ کا فضلِ عمیم ہمیشہ سے ظاہر ہوتا چلا آرہا ہے-
* محفلِ میلاد کے خواص سے یہ مجرب خاصہ ہے کہ جس سال میں محافلِ میلاد منعقد کی جائیں وہ تمام سال امن وامان سے گزرتا ہے-
* میلاد مبارک کی راتوں کو عید منانے والے مسلمان الله تعالیٰ کی رحمتوں کے اہل ہیں-
* انعقادِ محفلِ میلاد مقصود ومطلوب پانے کے لیے بشری عاجلہ ہے-
* حضرتِ علامہ شیخ حقی اسماعیل رحمۃ الله علیہ تفسیر روح البیان میں فرماتے ہیں:
،، وقال الامام السيوطى قدس سره يستحب لنا اظهار الشكر لمولده عليه السلام،،
امام جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے فرمایا کہ ولادتِ باسعادت پر شکر ظاہر کرنا ہمارے لیے مستحب ہے-
میلاد النبی صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی پر اجر ونفع کا ذکر صحیح بخاری شریف میں موجود ہے:
حضرت عروہ فرماتے ہیں: کہ ثوبیہ ابولہب کی باندی تھی جس نے اسے (حضور کی ولادت کی خوشی میں) آزاد کردیا تھا اس نےحضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو دودھ پلایا ابو لہب کے مرنے کے بعد اس کے بعض اہل نے اسے بہت بری حالت میں خواب میں دیکھا، تو پوچھا تجھے موت کے بعد کیا پیش آیا؟ ابولہب نے کہا تمہارے بعد مجھے کچھ نرمی یا راحت نہیں ملی صرف ایک بات ہے کہ میں تھوڑا سیراب کردیا جاتا ہوں اس لیے کہ ثوبیہ کو میں نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کردیا تھا ( بخاری،کتاب النکاح)
* حضرتِ حافظ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں- سہیلی نے ذکر کیا کہ حضرتِ سیدنا عباس رضی الله عنہ نے فرمایا: کہ ابولہب جب مرگیا تو میں نے ایک سال بعد اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بہت برے حال میں ہے اور کہ رہا ہے کہ تمہارے بعد مجھے کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ پیر کے دن مجھ سے عذاب کی تخفیف کی جاتی ہے-
* حضرتِ سیدنا عباس رضی الله عنہ نے فرمایا یہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پیر کے دن پیدا ہوئے، اور ثوبیہ نے ابولہب کو حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تو ابولہب نے اسے آزاد کردیا تھا-
* حضرتِ حافظ شمس الدین جزری اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جب یہ کافر ابولہب جس کی مذمّت میں قرآن اترا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اس کے عذاب میں تخفیف کردی گئی، تو نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے امتی مومن وموحد کا کیا حال ہوگا، جو حضور صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں بقدرِ استطاعت خرچ کرتا ہے، قسم ہے میری عمر کی اس کی جزا یہی ہے کہ الله تعالیٰ اسے اپنے فضلِ عمیم سے جنات نعیم میں داخل فرمائے- (کتاب الحاوی للفتاوی، جلد اول/ صفحہ 196)
* حضرتِ حافظ ابو الخیر سخاوی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: میلاد النبی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا مروجہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں کسی سلف سے منقول نہیں، اس کی بنیاد قرونِ ثلاثہ کے بعد پڑی، پھر پوری دنیا کے تمام شہروں اور خطوں کے مسلمان جب بھی ربیع الاول شریف کا مہینہ آتا ہے اس میں جشن مناتے ہیں، پر تکلف کھانوں سے دستر خوان سجاتے ہیں، اسی مہینے کی رات میں صدقات بانٹے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں، نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اور میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے واقعات وحالات پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کے ثمرات وبرکات بھی ان پر خوب ظاہر ہوتے ہیں (سبل الہدیٰ الرشاد، جلد/ اول)
* حضرتِ علامہ صدر الدین جزری فرماتے ہیں: یہ محافلِ میلاد بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں بدعت وہی مذموم ہے جو سنت کے مزاحم ومخالف ہو اور اگر سنت کے مخالف نہ ہو تو مذموم نہیں، اس لیے مولد النبی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے موقع پر انسان فرحت وسرور کا اظہار کرے تو اس پر ثواب بھی پائے گا-
* حضرتِ علامہ نصیر الدین ابنِ طباخ فرماتے ہیں: شب ولادت آمد رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشی میں لوگوں کو کھانا کھلانا، اور محفلیں سجانا، یہ سب چیزیں جائز ہیں اور کرنے والے کو ثواب بھی ملے گا، اس لیے کہ اس نے بہترین کام کا قصد کیا ہے-
* امام بیہقی رحمۃ الله علیہ اپنی اسناد کے ساتھ مناقب شافعی میں فرماتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ الله علیہ نے فرمایا کہ امور محدثہ کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو کتاب الله، سنت رسول الله اور اثر واجماع کے مخالف ہو، یہ بدعت ضلالت ہے- اور دوسری وہ جو ان میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو بدعت غیر مذمومہ ہے-
* حضرتِ عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے قیام شہر رمضان کے حق میں فرمایا ،،نعم البدعة هذه،، یعنی یہ بہت اچھی بدعت ہے- اس عبارت سے معلوم ہوا کہ محفل مولود شریف ایسی بدعت میں سے نہیں ہے جو قرآن وسنت سنت و اثر و اجماع کے مخالف ہو، تو یہ بدعت غیر مذمومہ ہوئی-
*کریم گنج، پورن پور، ضلع پیلی بھیت، مغربی اترپردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com