اللہ کے رسولﷺکی دعائیں (11)

قرآن میں جس چیز پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اس میں سے ایک عقیدۂ آخرت ہے۔آخرت یعنی موت کے بعد کا زمانہ۔قرآن کہتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو اپنے تمام کاموں کا حساب دینا ہوگا۔ حساب کے بعد طے کیا جائے گا کہ وہ جنت میں جاکر ابدی چین پائے گا یا جہنم میں جاکر ہمیشہ کے لیے عذاب میں گرفتار رہے گا۔آخرت میں کامیاب ہونے کا جو فارمولہ قرآن نے بتایا ہے اس میں دوچیزیں بہت واضح ہیں ایک ایمان اور دوسرا عمل صالح۔گویا آخرت کی اصلاح انہیں دو اساسی امور پر رکھی گئی ہے۔

قرآن میں آخرت پر جس طرح زور دیا گیا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کو ہی اصل کامیابی قرار دیا گیا ہے اسی طرح بار بار دنیا کی مذمت بیان کی گئی ہے۔دنیا دراصل ہر وہ شے ہے جس سے انسان اپنی زندگی میں کام لیتا ہے۔کھانا ،پینا ،ذریعۂ معاش ،کھیل کود وغیرہ سب دنیا کی مثالیں ہیں۔دنیاوی امور میں اعتدال بہت ضروری ہے۔نہ اتنا زیادہ ہو کہ انسان خدا کا باغی ہوجائے اور نہ اتنا کم کہ خدا سے مایوس ہوجائے۔یہی اعتدال اللہ کے رسول ﷺکی زندگی میں بھی نمایاں ہے۔آپ نے دنیا سے اتنا ہی لیا جتنی کہ ضرورت تھی۔دنیا کے مقابلے دین کا تصور ہے جو انسان کے اخلاقی اور روحانی گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔دین ہی یہ طے کرتا ہے کہ انسان آخرت میں کامیاب ہوگا یا ناکام۔لہذا دین کے تمام امور کی پاسداری ضروری ہے۔

 آج جو دعا موضوع بحث ہے اس میں اللہ کے رسول ﷺنے انسان کی ان تینوں حالتوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں ترتیب کا خاص لحاظ رکھا ہے یعنی پہلے دین کا ذکر ہے پھر دنیا کا اور پھرآخرت کا۔دین کا ذکر پہلے اس لیے کہ یہی بنیاد ہے اور آخرت کا آخر میں کہ وہی انجام کار ہے اور دنیا کا ذکر درمیان میں کہ انسان آغاز اور انجام پر نگاہ رکھے اور بیچ میں پڑنے والے پڑاؤ میں ہی نہ کھوجائے کہ اس کی وجہ سے دین پر بھی اثر پڑے اور آخرت بھی متاثر ہو۔دعا کے آخر میں اسی مناسبت سے زندگی اورموت دونوں کا ذکر کرکے دعا ختم کردی ہے۔زندگی میں کارخیر کی دعا مانگی ہے جو کہ دین اور آخرت دونوں کے لیے ضروری ہے اور موت کے وقت راحت اور سکون طلب کیا گیا ہے۔

 اب وہ دعا مع ترجمہ پیش کی جاتی ہے۔اس دعا کا بھی وہی خاصہ ہے کہ الفاظ مختصر مگر زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔الفاظ سلیس اور رواں دواں، معنی میں کوئی ابہام نہیں اور ترکیب ایسی کہ سنتے ہی دل میں اتر جاتی ہے۔اللھم أصلح لی دیني الذی ھو عصمۃ أمري و أصلح لی دنیاي التی فیھا معاشي وأصلح لی آخرتي التی فیھا معادي واجعل الحیاۃ زیادۃ لی فی کل خیر واجعل الموت راحۃ لی من کل شر۔اے اللہ میرا دین بہتر بنا جس پر میری عزت کا دارومدار ہے میری دنیا بھی بہتر بنا جو میرا ذریعۂ معاش ہے اور میری آخرت کو بھی بہتر بنا جہاں مجھے ہمیشہ کے لیے لوٹ کر جانا ہے۔اور میری زندگی میں خیر ہی خیر ہو اور موت کے وقت ہر مصیبت سے راحت دے۔

اگلی دعا بہت مختصر اور جامع ہے۔اللھم اني أسئلك الھدی والتقی والعفاف والغنی۔اے اللہ میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور غنا کا سوال کرتا ہوں۔ہدایت سیدھے راستے پر چلنے کو کہتے ہیں۔کافر کے لیے ہدایت یہ ہے کہ وہ ایمان لے آئے اورمسلمان کے لیے ہدایت یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہے اور نیک عمل کرتار ہے۔تقوی وہ کیفیت ہے جو انسان کے اندرہمہ وقت یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات اللہ کے مشاہدہ میں ہیں۔ لہذا وہ نیک کاموں کو ہی انجام دیتا ہے اور برے کاموں سے بچتا رہتا ہے۔عفاف یا عفت کا مطلب ہے خود کو ہر اس چیز سے بچانا جو شریعت میں ممنوع ہے اور غنا کا مطلب ہے بے نیازی یا دل سے لالچ اور حرص کا ختم ہوجانا۔مال کی کثرت مراد نہیں ہے۔بسا اوقات مال کی کثرت بھی دل کو لالچ اور حرص سے نہیں بچا پاتی۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے آپ کو جو کچھ دیا ہے آپ اس پر راضی رہیں۔دوسروں کے مال و دولت کو دیکھ کر اپنے بارے میں طرح طرح کے خیالات لانا کہ اللہ نے مجھے کیوں نہیں دیا غنا کے خلاف ہے۔رزق حلال کے لیے تگ و دو کرنا ضروری ہے۔غنا کا یہ مطلب نہیں کہ انسان رزق حلال کے لیے بھی کوشش نہ کرے۔حلال رزق کے لیے کوشش کرنا اور اس میں اپنے اوقات کو صرف کرنا بھی عبادت ہے۔

حضرت زید بن ارقم نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں تمہیں وہی الفاظ سکھاتا ہوں جو اللہ کے رسول ﷺکہا کرتے تھے۔پھر آپ نے یہ دعا بتائی: اللھم انی أعوذ بك من العجز والکسل والجبن والبخل والھرم وعذاب القبر۔اللھم آت نفسي تقواھا وزکھا أنت خیر من زکاھا۔أنت ولیھا و مولاھا۔اللھم انی أعوذ بك من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب لھا۔اے اللہ میں ناتوانی، سستی، بزدلی، کنجوسی، بڑھاپا اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقوی(اللہ کا ڈر)عطا کر اور اسے پاک صاف کر کیوں کہ نفس کو سب سے بہتر صاف اور پاک کرنے والا تو ہی ہے۔تو ہی نفس کا آقا اور اس کا مالک ہے۔اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو نفع نہیں دیتا اور ایسے قلب سے جس میں فرماں برداری نہیں اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہیں ہوتا اور ایسی دعا سے جو قبول نہیں ہوتی۔

عجز کا اصل معنی ہے کوئی کام نہ کرپانا۔انسان داخلی یا خارجی اسباب کی بنا پر کئی بار اپنے منصوبوں کو پورا نہیں کرپاتا۔ مثلاً بیماری کی وجہ سے یا کسی ایسے سبب کی وجہ سے جس کے بارے میں اس نے پہلے نہیں سوچا تھا اور اچانک اس کے پیش آنے کی وجہ سے اسے اپنا کام ملتوی کرنا پڑ گیا۔کسل یعنی سستی اور آج کا کام کل پر ٹالنے کی حالت کو کہتے ہیں۔جبن بزدلی اور بخل کنجوسی ہے۔ھرم سے مراد بڑھاپا ہے جس کی وجہ سے انسان چاہے بھی تو نیک یا برے اعمال نہیں کرپاتا اور یہ کئی بیماریوں کا بھی سبب ہے۔قبر کا عذاب حق ہے اس لیے اس سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔دعا کے اس حصے پر پہلے گفتگو ہوچکی ہے۔

دعا کے اگلے حصے میں تقوی اور تزکیہ کا ذکر ہے۔تقوی کے بارے میں گفتگو ہوچکی ہے۔تزکیہ کہتے ہیں پاک صاف کرنے کواسی سے لفظ زکات بنا ہے جس سے مال کی پاکی مراد ہے۔نفس کو تقوی عطا کرنے کا مطلب تو ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ دل میں ہمیشہ اللہ کا ڈر بیٹھا رہے۔تزکیہ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔اللہ کے رسولﷺکی ذمہ داریوں میں سے ایک تزکیہ بھی ہے۔دل کو بری عادتوں اور برے خیالوں سے پاک کرکے اس میں نیک اور اچھے خیالات پیدا کرنے کو تزکیہ کہتے ہیں۔قرآن میں سورۂشمس میں نفس، تقوی اور تزکیہ تینوں کا بیان آیا ہے۔اللہ انسان کے نفس کی قسم یاد کرتا ہے اور کہتا ہے انسان کے نفس کی قسم اور اس کی قسم جس نے اسے بالکل ٹھیک بنایاپھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری(تقوی)نفس میں ڈالی بے شک مراد کو پہنچا(کامیاب ہوا)جس نے اسے(نفس کو)ستھرا کیا(تزکیہ مراد ہے)اور نامراد ہوا(ناکام ہوا)جس نے اسے معصیت (نافرمانی)میں چھپایا۔یہاں تقوی اور تزکیہ دونوں کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ خدا ہی کی ذات ہے جو نفس کو تقوی اور تزکیہ عطا کرتی ہے۔اسی لیے اللہ کے رسولﷺنے یہاں خدا سے بالواسطہ اپنے نفس کے تقوے اور تزکیے کا سوال کیا ہے اور پھر اعتراف بھی کیا کہ تو ہی نفس کا نگہبان اور اس کامالک ہے، لہذا یہ دونوں چیزیں بھی تو ہی عطا کرسکتا ہے۔

 دعا کے آخری حصے میں چار چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔ایک ایسے علم سے جو نفع نہیں دیتا دوسرے ایسے قلب سے جس میں تواضع، انکساری اور فرماں برداری نہیں ہے تیسرے ایسے نفس سے جو بری عادتوں سے باز نہیں آتا اور کبھی سیر نہیں ہوتا اور چوتھے ایسی دعا سے جو رد کر دی جاتی ہے۔علم نافع وہ علم ہے جس پر انسان عمل بھی کرتا ہے۔لہذا اگر کوئی نماز کے مسائل ازبرکرلے لیکن نماز نہ پڑھے تو محض مسائل کے ازبر کرنے سے اسے کوئی نفع یا ثواب نہیں ملے گا بلکہ ایسا شخص آخرت میں سزا کا مستحق ہوگا کہ اس نے علم کے باوجود عمل نہیں کیا۔علم غیر نافع وہ بھی ہے جس سے اخلاق میں سدھار پیدا نہیں ہوتا۔علماء نے علم غیر نافع کی اور بھی مثالیں بیان کی ہیں مثلاً جادو سیکھنا وغیرہ لیکن عام طور پر اس سے وہی علم مراد ہے جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

قلب اور نفس کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں لکھا ہے کہ قلب کا اطلاق دراصل دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ایک تو گوشت کے اس ٹکڑے پر جو انسان کے سینے میں ہوتا ہے اور یہی مرکز حیات ہے۔دوسرے وہ طاقت و قوت جو اللہ نے انسان کے اندر رکھی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان انسان بنتا ہے اور ثواب یا سزا کا مستحق قرار پاتاہے اور یہی وہ قوت ہے جو شرعی احکام کی مخاطب ہے۔نفس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا ایک معنی تو اس کیفیت یا قوت کے ہیں جس میں غصہ اور شہوت ہوتی ہے اور یہی اہل تصوف کے یہاں مراد ہوتی ہےاور دوسرا معنی وہی ہے جو قلب کا بیان کیا گیا ہے کہ مراد اس سے انسان میں اللہ کی ودیعت کردہ وہی طاقت ہے جس سے انسان انسان بنتا ہے اور شرعی احکام کا مخاطب بنتا ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قلب اور نفس میں زیادہ فرق نہیں ہے اور اکثر دونوں الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

 قلب وہی بہتر ہے جو اللہ کا مطیع و فرماں بردار ہو اور نفس وہ جس میں خواہشات نہ ہوں کیوں کہ نفس کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ کبھی سیر نہیں ہوتا۔آپ اگر نفس کی خواہشات پر عمل کریں اور چاہیں کہ ایک دن اسے سکون مل جائے گاتو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔نفس کی خصوصیت یہی ہے کہ آپ جتنا زیادہ اس کی خواہشات کا لحاظ کریں گے وہ اتنا ہی سرکش ہوتا جائے گا۔لہذا اس کا علاج صرف یہی ہے کہ نفس کی خواہشات پر عمل نا کیا جائے بلکہ صوفیاء کہتے ہیں کہ نفس جس چیز کا حکم دے یا خواہش کرے ٹھیک اس کا الٹ کرو۔اس طرح اسے قابو میں رکھنا آسان ہوگا۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter