لیلۃ الجائزہ کو شاپنگ میں ضائع نہ کریں
رمضان المبارک آتے وقت جس طرح انوار وبرکات کو اپنے دامن میں سمیٹ لاتا ہے اسی طرح رخصتی کے وقت بھی انعامات ونوازشات کی بارش برساتے ہوئے ہمیں الوداع کہہ جاتا ہے۔ عید الفطر کا چاند جیسے ہی نظر آتا ہے تو چاروں طرف خوشیوں وشادمانیوں کا سماں چھا جاتاہے۔ مسلمان باہم بغل گیر ہوکر خوشیاں بانٹتے ہیں اور آپس میں مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں۔ چلیے یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ مگر ہم میں کچھ بد نصیب افراد چاند نظر آتے ہی بازاروں میں نظر آتے ہیں۔ پھر شاپنگ پر شاپنگ، چاروں طرف خرید و فروخت کی گہما گہمی اور افرا تفری کا ماحول گرم رہتا ہے۔ بازاروں اور کپڑوں کے دکانوں میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں رہتی۔ چاروں طرف شور شرابہ اور اودھم مچا رہتا ہے۔گویا ہر سو شورِ دار و گیر کا بازار گرم ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس مقدس رات میں مسلم عورتوں میں بے پردگی اور بے حیائی اتنی کثرت سے ہوتی ہے کہ پوچھیے مت!! شاپنگ کے نام پر اجنبی مرد و عورت میں اتنا اختلاط کہ شیطان بھی شرما جائے!! رمضان کے پورے مہینے میں بھوک وپیاس برداشت کرکے مولی کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی۔ نفس کو شرعی حدود میں رکھ کر صحیح تربیت دی گئی۔ دل کو شہوت رانی سے پاک کیا گیا۔ خواہشات نفس پر قابو پاکر قرب الہی حاصل کی گئی۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ایک لمحہ میں ایک مہینے کی پوری محنت پر پانی پھیر دیا گیا۔ اور ایسے ایسے غیر شرعی کاز کئے جاتے ہیں کہ پوچھیے مت۔ چاند رات میں کچھ علاقوں میں عید ملن پروگرام کیا جاتا ہے جس میں مرد و عورت بے حیائی کے ساتھ نغمہ سرائی کرتے ہیں۔ گانا باجہ اور پتہ نہیں کیا کیا کیا جاتا ہے۔اس پر طُرّہ یہ کہ ان تقریبات میں شراب وکباب، رقص و سرود، لَہْو و لَعْب میں پڑنے کے ساتھ تسکینِ نفس کے لیے حیاسوز کام کرنا، یہ سب اللہ تعالٰی کے غضب کو دعوت دینا نہیں تواور کیا ہے؟؟ در حقیقت چاند رات جیسے سرکار دو جہاں ﷺ نے "لیلۃ الجائزہ" کہا یعنی انعام کی رات، محاسبہ نفس کی رات ہے۔ تو آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہوگا کس چیز کا محاسبہ کیا جائے جواب ملت ہے "نفس کا محاسبہ" کیا جائے کہ رمضان المبارک میں جہاں اللہ تعالٰی کی چھماچھم برستی رحمتوں اور برکتوں سے کتنا کچھ پانے کی ہم کوشش کی؟؟ کیا ہماری مغفرت وبخشش ہوئی؟؟ ہمارے گناہ اور خطا معاف کیے گئے؟؟ کیا ہم نے روزوں کی روح کو حاصل کیا؟ کیا ہم نے اپنے دل کو تقوی کے زیور آراستہ کیا؟ کیا ہم نے اعتکاف کے ذریعے اپنی نفس کی تربیت کی؟ کیا ہم نے پابندی کے ساتھ تراویح پڑھی؟ کیا ہم نے اس ماہِ مبارک میں قرآن سے اپنا رشتہ استوار کیا؟ کیا ہم نے ایسے کام کیے کہ جن کے سبب اپنی مغفرت کی امید باندھیں؟ تو چاہیے کہ اس رات کو خاص طور پر استغفار اور دعاؤں میں گزاریں اور ماہِ رمضان کو غفلت میں گزارنے پر ندامت کے آنسو بہائیں، اور ان جیسے اعمال کے ذریعے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائیں۔ تو یہ چاند رات ہماری زندگی کے لیے نعمت وآسائش کے حصول یابی کا اہم ذریعہ وسبب ہوگا۔
اب ذرا اس بابرکت رات کی عظمت کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرکار دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں۔ 1) ان کے (روزے دار کے) منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ 2) ان کے (روزے دار کے) لیے مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ 3) جنت ہر روز ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے، پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر میری طرف آئیں۔ 4)اس میں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔ 5)رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا ’’کیا یہ شب مغفرت ’’شب قدر‘‘ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ (اللہ کا) دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد) مزید آقائے دوجہاں امام الانبیاء ﷺ فرماتے ہیں کہ جو عیدین کی راتوں میں جاگ کر عبادت کا اہتمام کرے گا، اس کا دل اس وقت بھی زندہ رہے گا، جس وقت سب کے دل مردہ ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ،طبرانی اوسط) آخر نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد پاک بھی سن لیجیے آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ : ’’جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کے لیے) جاگا۔ اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی (وہ پانچ راتیں یہ ہیں) (1) لیلۃ الترویہ (8 ذی الحجہ کی رات) (2) لیلۃ العرفہ (عرفہ 9 ذی الحجہ کی رات) (3) لیلۃ النحر (10 ذی الحج، عیدالاضحیٰ کی رات) (4) لیلۃ الجائزہ (عیدالفطر کی رات) (5) شب برأت (پندرہویں شعبان کی رات) (ترغیب و ترہیب)-
ان تمام مذکورہ بالا احادیث نبویہ سے اس رات کی عظمت ظاہر ہوگئی کہ یہ شب شبِ غفران ہے۔ یہ شب شبِ بخشش ومغفرت ہے۔ یہ شب شب نعمت وفرحت ہے۔ یہ شب شب وصال مولی ہے۔ یہ شب شب حیات قلب ہے۔ یہ شب شب وجوب جنت وبہشت ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اس رات کو بے کار کاموں میں رائگاں نہ کریں۔ شاپنگ وغیرہ پہلے ہی کر لیں۔ تمام کاموں سے فارغ ہوکر دلجمعی کے ساتھ عبادت وریاضت اور صدقہ وخیرات میں صرف کریں۔ اگر ممکن ہوتو غریبوں کو تلاش کرکے صدقۂ فطر رات ہی میں ادا کردیں تو غریب آپ کے صدقے کا بھر پور فائدہ اٹھا لے گا۔ رب قدیر سے دعا ہے کہ ہمیں چاند رات مولی کی مرضی کے مطابق گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ اور لیلۃ الجائزہ کے تمام انوار وبرکات سے مالا مال فرمائے۔ بالخصوص ہماری بخشش فرمائے۔ گناہوں سے پاک فرمائے۔ زندگی میں بار بار رمضان عطا فرمائے! آمین! بجاہ السید الامین ﷺ-