مسلمانوں کی معاشی حالتِ زار اور عیدالفطر کی بہار

    ملک ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہا ہے- ہر روز نئی افتاد، نیا حملہ، نیا شوشہ، نیا ظلم۔ ستم کی ایک آندھی تھمتی نہیں کہ دوسری چلنے لگتی ہے۔ کبھی مساجد پر یورش، کبھی مدارس پر یلغار۔ کبھی خانقاہیں نشانہ پر تو کبھی درگاہیں۔ غرض کوئی پہلو ایسا نہیں کہ فرقہ پرست مشرکین؛ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا جانے دیں! کیفیت یہ ہے کہ:

[۱] ماب لنچنگ کے ذریعے مسلمانوں کو مسلسل شہید کیا جا رہا ہے۔ ہجومی تشدد مشرکین کی عادت کا حصہ بن چکا ہے۔

[۲] مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔ قانونی حقوق عملاً چھینے جا رہے ہیں۔

[۳] مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ غریب پھل فروش اور ٹھیلے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بے دست و پا کیا جا رہا ہے۔

[٤] مسلم بچیوں کو زَد پر لیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مشرکین کے سادھو سنت کھلا بیان دے رہے ہیں اور مسلم بچیوں کی عصمتوں سے کھلواڑ کا اعلان کر رہے ہیں۔

[۵] دَھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل کی بات کی جاتی ہے۔ تشدد بھڑکایا جاتا ہے۔ متشدد چہرے قانونی کارروائی سے مستثنیٰ سمجھے جاتے ہیں-

[٦] تشدد کے بھگوا ہجوم مسجدوں پر دھاوا بولتے ہیں، پھر مسلمانوں پر پتھراؤ زَنی کا الزام عائد کیا جاتا ہے- مسلمانوں کی املاک، مکان و دوکان کو بلڈوزروں سے زمیں دوز کر دیا جاتا ہے- ایم پی و دہلی میں اقتدار نے یہی ظلم کیا-

  یہ حالات، یہ وارداتیں، یہ صورت حال یوں ہی درپیش نہیں ہوئے، ہمارے ہی اعمال کے نتائج ہیں، قرآن مقدس میں ارشاد الٰہی ہے:
  ’’بے شک اللہ کسی قوم کو گردش میں نہیں ڈالتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدل ڈالیں-‘‘ (القرآن الکریم؛ سورۃ الرعد:۱۱) 

  "تدابیر فلاح و نجات" اور اصلاح احوال کے سلسلے میں مسلم معاشی استحکام، اقتصادی ترقی کے لیے ایک صدی قبل ١٩١٢ء میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ(م١٩٢١ء/١٣٤٠ھ) نے جو تجاویز پیش کیں، ان کی اِک جھلک یہاں دیکھتے ہیں:

     اولاً: باستثنا ان معدود باتوں کے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے یہ کروروں روپے جو اسٹامپ و وکالت میں گھسے جاتے ہیں گھر کے گھر تباہ ہو گئے اور ہوئے جاتے ہیں محفوظ رہتے۔

    ثانیاً: اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا۔ اپنی حرفت و تجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہ رہتے...... 

    ثالثاً: بمبئی، کلکتہ، رنگون، مدراس، حیدر آباد وغیرہ کے تواں گر مسلمان اپنے بھائی مسلمانوں کے لیے بنک کھولتے، سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے، مگر اور سو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں جن کا بیان کتبِ فقہ میں مفصل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ کتاب "کفل الفقیہ الفاہم" میں چھپ چکا ہے، ان جائز طریقوں پر نفع بھی لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اور ان کے بھائیوں کی بھی حاجت بر آتی- (تدبیر فلاح و نجات واصلاح، طبع مالیگاؤں، ص۱۲)

حالتِ زار: عموماً مسلمانوں میں آپسی رنجش میں بات مقدمات تک پہنچ جاتی، کورٹ کچہری کے چکر میں بڑا سرمایہ نذر ہو جاتا- اغیار اس کا خوب فائدہ اُٹھاتے- اعلیٰ حضرت نے یہ فکر دی کہ اپنے مسائل باہمی طریقے سے اور مطابق بہ شرع حل کریں؛ اس طرح مال بھی ضائع نہ ہو گا اور اغیار کو مداخلت کا موقع بھی نہ ملے گا- موجودہ وقت میں شرعی مسائل میں مداخلت کی کوششیں بڑھ چکی ہیں-

  تجارتی بزم میں زیادہ تر مقامات پر مشرکین فائز ہیں- پھر ہماری اقتصادی پالیسی نہ ہونے کے باعث اغیار کے ہاتھوں استحصال کے شکار ہوتے رہتے ہیں- خود مالیگاؤں میں کپڑا صنعت ہے جس میں خام مال بھی مشرکین سے لیتے ہیں اور تیار مال بھی انھیں ہی فروخت کرتے ہیں، مشرکین جب چاہتے ہیں خام مال کے دام زیادہ اور تیار مال کے دام کم کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں- جس سے اکثر کاروبار مندی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے- جب کہ خام مال و تیار مال کے بیوپاری مسلمان ہوتے تو کچھ حد تک بحران پر قابو پایا جا سکتا تھا-

  پروفیسر رفیع اللہ صدیقی(کوئنز یونی ورسٹی، کینیڈا) مسلم معیشت کے استحکام کے ضمن میں لکھتے ہیں:
  "صاحبِ حیثیت مسلمانوں کو میں نے غیروں کی دوکانوں سے خرید و فروخت کرتے دیکھا۔ مسلمانوں میں اس وقت بھی ماہرینِ اقتصادیات موجود تھے لیکن بد قسمتی سے ان کی نگاہیں مغربی مفکرین کی جانب لگی ہوئی تھیں۔ وہ اس بات سے قطعاً بے خبر تھے کہ خود ان کا ایک عالم اقتصادیات کے بارے میں کیسے کیسے موتی ان کے سامنے بکھیر گیا ہے۔ وہ اپنے خزانے سے بے خبر رہے۔ اگر اس وقت کوئی بھی مسلم ماہرِ اقتصادیات اس نکتے کے دور رَس اثرات کی وضاحت کر دیتا اور مسلمان صرف مسلمانوں ہی سے خرید و فروخت کرنے لگتے تو مسلمان ہندُستان میں معاشی اعتبار سے دوسری قوموں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہوتے! خوش حال ہوتے- 

  مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے لیے جب جدوجہد تیز ہوتی جا رہی تھی اس موقع پر کسی نے بھی مسلمانوں کی اقتصادی بد حالی اور اس سے نمٹنے کے لیے کوئی پالیسی وضع نہ کی، اس موقع پر امام احمد رضا نے اپنے معاشی نکات پیش کیے جن پر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے کوئی غور و فکر نہیں کیا۔ (نفس مصدر، ص۷)

  مشرکین سے اتحاد و وداد نے مسلمانوں کو کہیں کا نہ رکھا- معاشی انحطاط، بزنس وغیرہ سے لاپروائی نے مزید کمزور کر دیا- دوسری جانب مشرکین اکثر وسائلِ روزگار پر قابض ہوتے چلے گئے- ایک صدی ہمیں بننے بنانے میں گزارنی تھی لیکن ہم نے بے توجہی برتی اور آج سخت نتائج جھیل رہے ہیں- پروفیسر رفیع اللہ لکھتے ہیں:

  "مسلمان صنعت کار جب اشیا کی پیدا وار میں اضافہ کرتے تو یقیناً وہ بے روزگار مسلمان جو تلاشِ روزگار میں سرگرداں تھے ملازمتیں حاصل کر لیتے اور جب ان افراد کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا تو ان کی مؤثر طلب بڑھ جاتی اور معاشیات کا وہ چکر شروع ہو جاتا جو کسی بھی معیشت کو خوش حال کر دیتا ہے۔"(نفس مصدر، ص۸)

  روزے کی جدوجہد، ارکان اسلامی کے احکام اور اسلامی معاشی نظام ہمیں سعی پیہم کا پیغام دیتے ہیں- کوشش کی جائے- تگ و دو سے کام لیا جائے- ان شاء اللہ وادی بھی ہماری ہوگی اور گلشن بھی ہمارا- تب عید کی مسرتیں حقیقی مسرت کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی- دین پر استقامت اختیار کر کے اپنے تمام معاملات شریعت کے مطابق کر لیے جائیں تو بڑی تبدیلی واقع ہوگی- فی الحال حالات بھی ایسے ہیں کہ خود کفالت کے رجحان کو عملی جامہ پہنانا وقت کا تقاضا ہے- عید الفطر پر اپنے معاشرے کے غریبوں کی کفالت کا فریضہ انجام دے کر معاشی نظام کی تقویت کا سامان کیا جا سکتا ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں عید کو کردار و عمل سے عید بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور وعید بنانے سے بچائے- آمین-
****
٣٠ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter