غزوہِ بدر اشاعت اسلام کا پیش خیمہ

  مکہ مکرمہ سے مسلمانوں کی ہجرت کے بعد بھی کفار مکہ مسلمانوں کے خاتمہ کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے تھے اور موقع کے متلاشی تھے۔ان کے لیے مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی سوہان روح بنی ہوئی تھی۔مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کی پر سکون زندگی ان کی آنکھوں میں کاٹنے کی طرح کھٹکتی تھی۔اسی دوران 622ء میں ،،نخلہ،، کا واقعہ پیش آیا۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے عبد الله بن جحش کی قیادت میں بارہ افراد کا ایک چھوٹا سا قافلہ نخلہ کی جانب دشمنوں کی حرکات وسکنات کی خبریں لانے کے لیے روانہ کیا اور ان کو ایک بند خط روانہ کیا جس میں لکھا تھا ،،نخلہ میں قیام کرو اور قریش کے حالات کا پتہ لگاؤ اور اطلاع کرو،، اتفاق سے کفار مکہ کا ایک چھوٹا سا قافلہ مل گیا۔ عبد الله بن جحش نے اس پر حملہ کیا۔عروہ بن حضری مارا گیا اور دو قیدی بنا لیے گیے۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ آپ نے لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔کفار مکہ جو پہلے ہی بہانے بنا رہے تھے اُنہوں نے اس واقعہ سے فایدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ایک منظم سازش تیار کی گئی۔اس وقت قریش مکہ کی آمدنی کا واحد ذریعہ تجارت تھی انہوں نے تہہ کر لیا کہ اس بار تجارتی مال سے جو آمدنی ہوگی وہ سب کی سب سامانِ جنگ پر خرچ کی جائے۔کفارِ مکہ کے تجارتی قافلے شام کو جاتے تھے اور شام کا راستہ مدینہ منورہ ہو کر گزرتا تھا کفارِ مکہ کا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو ابو سفیان کو شبہہ ہوا کہ مسلمان اس قافلے کو روکیں گے۔اس خدشہ کے پیشِ نظر اس نے ایک سوار کو مکہ مکرمہ ابوجہل کے پاس بھیجا اور امداد طلب کی۔ابوجہل نے اس موقع پر اہل مکہ کو جمع کیا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی۔اسی درمیان ابو سفیان راستہ بدل کر مکہ مکرمہ پہنچ گیے۔اب جنگ کی ضرورت نہ تھی مگر ابوجہل اس سنہرے موقع سے فایدہ اٹھانا چاہتا تھا۔اس نے مسلمانوں کے خاتمے کا تہیہ کر لیا اور کیل کانٹے سے لیس لشکر جس میں چھ سو زرہ پوش سپاہی اور سات سو اونٹ شامل تھے لے کر مدینہ منورہ کی جانب مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے روانہ ہوا۔

    اُدھر حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو کفارِ مکہ کی جنگ کی تیاریوں کا علم ہوا تو بے سرو سامانی کی حالت میں 313 مجاہدین کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلنے جن میں معاذ اور معوذ بھی شامل تھے جو نو عمر تھے۔وادئی دفران میں پہونچ کر کفارِ مکہ سے مقابلے کے لیے مشاورتی اجلاس بلایا انصار میں سے حضرت سعد بن معاذ نے فرمایا:یارسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ ہم میں سے جن کا چاہیں تعلق منقطع کر دیں اور جن کا چاہیں جوڑ دیں،آپ ہمارے اموال سے جتنا چاہیں لے لیں اور جتنا چاہیں ہمیں دے دیں،یارسول الله!صلی الله علیہ وسلم آپ جو حکم کریں گے ہماری رائے اسی کے مطابق ہوگی،یارسول الله!صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم آپ ارشاد فرمائیں تو اس سمندر میں ہم داخل ہونے کو تیار ہیں۔حضرت مقداد بن اسود نے کہا!یارسول الله!صلی الله علیہ وسلم ہم بنی اسرائیل نہیں ہیں جنہوں نے اپنے نبی حضرتِ موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھاجا!تو اور تیرا رب قتال کر ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے،ہم آپ کے غلام ہیں اور آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف نثار ہونے کو تیار ہیں،دوسری طرف حکم ربی ہوا اب مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ ان پر بے حد ظلم ہو چکا ہے اور الله رب العزت ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ اُنہوں نے خدا کو اپنا رب مان لیا جس کی وجہ سے اُنہیں وطن سے نکالا گیا اب الله رب العزت کی طرف سے جہاد کی واضح اجازت ان الفاظ میں آچکی تھی:،،خدا کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں،، حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے تیاری کا حکم دے دیا۔بے سرو سامانی کا یہ عالم تھا کہ کسی کے پاس زرہ ہے تو خود نہیں،کسی کے پاس تلوار ہے تو ڈھال نہیں،کل دو گھوڑے اور ستر اونٹ ہیں مگر مسلمانوں کا جذبہ جہاد کا یہ عالم ہے کہ ہر ایک چھوٹا بڑا کفار سے ٹکرانے کے لیے تیار ہے،ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ اسلام کا نام زندہ رہے چاہے اپنی ہستی مٹ جائے اور مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ فتح مندی سامانِ جنگ کی قلت وکثرت پر منحصر نہیں بلکہ قوت ایمانی پر ہے۔راستے کے مصائب برداشت کرتا ہوا کاروانِ عشق بدر کے میدان میں خیمہ زن ہوا۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ایک خیمے میں سر نیاز بارگاہِ الٰہی میں جھکائے فرما رہے تھے۔،،مولی!مسلمانوں کی یہ مختصر سی جماعت صرف تیری رضا کی خاطر میدان میں آئی ہے۔ان کی عزت وآبرو تیرے ہاتھ میں ہے،دنیا میں یہی چند مسلمان تیرے نام لیوا ہیں اگر یہ آج ختم ہو گیے تو روئے زمین پر کوئی تیرا نام لیوا باقی نہ رہے گا۔الله رب العزت نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا:جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری بات قبول کی اور ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے تمہاری مدد کی۔

    17رمضان المبارک 02ھ کو چشمِ فلک نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ ایک طرف تین گنا بڑا لشکر سامانِ جنگ سے مصلح ہے اور دوسری طرف مسلمان 16 دن سے روزے سے ہیں،تعداد کی کمی کے ساتھ ساتھ سامان جنگ نہ ہونے کے برابر ہے مگر حوصلہ بلند ہے،دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کی خون کی پیاسی تلواریں میانوں سے نکلیں،تو خود ایک دوسرے کے جگر گوشے آمنے سامنے کھڑے تھے،ایک طرف حق کے پرستار تھے تو دوسری طرف کفر کے پیروکار تھے،ایک طرف حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم تھے تو دوسری طرف ان کے حقیقی چچا حضرت عباس اور چچا زاد بھائی حضرت عقیل اور داماد حضرت ابو العاص بن ربیعہ حضرت عمر رضی الله عنہ،ایک طرف تو ان کے حقیقی ماموں دوسری طرف حضرت ابو حذیفہ رضی الله عنہ،ایک طرف ان کے والدِ ماجد حضرت عقبہ بن ربیعہ دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ،ایک طرف ان کے والد ماجد جراح دوسری طرف حضرت حکیم بن سعید ایک طرف ان کے بھائی عبیدہ بن سعید دوسری طرف حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ ایک طرف ان کے حقیقی فرزند ایک طرف بالفاظِ دیگر امت اور ملت ایک طرف تھی دوسری طرف قوم،ایک طرف روح تھی تو دوسری طرف خون تھا یعنی آج کے روز باپ اور بیٹے چچا اور بھتیجے اور بھائی بھائی سسر اور داماد خونی رشتوں کو فراموش کرکے ایک دوسرے کے مد مقابل آگیے تھے اور آج کے روز قرابت کو روحانی قربت پر قربان کردیا گیا تھا۔جنگ کی ابتداء ہی میں الله رب العزت کی نصرت وتائید سے مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا۔دو نوں خیز انصاری ابوجہل پر پل پڑے اور اسے قتل کر دیا،قریشِ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں کے سر تن سے جدا خون میں تڑپ رہے تھے۔قریشِ مکہ کی کمر ٹوٹ چکی تھی 70 کے قریب کفار واصل جہنم ہوئے اور اتنے ہی قریب قیدی بنائے گئے۔مسلمانوں کی جانب سے چودہ صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا۔جن میں آٹھ انصار اور چھ مہاجرین تھے 17 رمضان المبارک کو حق وباطل کا فیصلہ ہو گیا۔الله رب العزت نے اُسے یومِ فرقان یعنی حق وباطل میں فرق پیدا کر دینے والا دن قرار دیا۔غزوہ بدر کو نہ صرف تاریخ اسلام میں بلکہ ادیان عالم کی تاریخ انقلاب میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔اس معرکہ نے قریشِ مکہ کی سپاہی اور فوجی قوت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور مسلمانوں کے لیے تبلیغ اسلام کی نئی راہیں کھول دیں۔بدر کا انقلاب کوئی علاقائی یا محدود قومی انقلاب نہیں تھا اس کے اثرات پوری کائنات انسانی پر مرتب ہوئے،بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ صفحہ ہستی پر اگر غزوہ بدر پیش نہ آتا اور مشرکینِ مکہ کی قوت کا شیرازہ بکھر نہ جاتا تو نہ صرف حجاز وعرب بلکہ پوری کائناتِ انسانی کا ہر گوشہ باطل قوتوں کا مسکن اور ظلم وبربریت کا نشان بن جاتا۔الله رب العزت کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے بدر میں مسلمانوں کی اس حالت میں مدد فرمائی کہ وہ موت وحیات کے دوراہے پر کھڑے تھے۔اگر اس نازک موقع پر انہیں تائید ونصرت الٰہی نصیب نہ ہوتی تو حق پرستوں کا یہ چھوٹا سا گروہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔الله رب العزت کا یہ احسان عظیم صرف اہل بدر پر ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں ہر تھا اور ہے۔غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح اشاعت اسلام کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی،اس فتح کو حق کی حمایت میں فیصلہ ربانی کا درجہ حاصل ہے۔فتح بدر نے اسلام کو بصیرت وفوقیت دی اور باطل کو محو کر کے دنیا بھر میں پیغامِ حق کی اشاعت کے دروازے کھول دیے۔(تاریخِ اسلام)

 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter