حدیث قسطنطنیہ اور یزید
حدیث قسطنطنیہ اور یزید
اس دور پرفتن میں ایمان جیسے بیش قیمتی خزانے کو لوٹنے اور عقائد اہل سنت کو اپنی سازشوں اور قبیح و شنیع تدبیروں سے داغدار کرنے کی فتنہ پردازوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی، جیسے جیسے معاشرے میں قرآن و سنت سے لاعلمی و لاتعلقی عام ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے نئے نئے فتنے جنم لیتے جا رہے ہیں، ایک جانب اہل تشیع اپنے مذموم عزائم و مقاصد میں کامیاب ہونے کی چالیں چل رہے ہیں وہیں دوسری جانب فتنۂ خارجیت و ناصبیت بھی شباب پر ہے، ان فتنہ گروں نے اپنے گُرو گھنٹال یعنی یزید پلید کو جنتی بنانے اور اس کی خصائل رذیلہ، عادات ذمیمہ اور اعمال قبیحہ پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور حدیثِ ”ام الحرام“ کا مصداق ٹھہرا کر اُس کو مغفور و مبرور گردان رہے ہیں۔
ذرا اندازہ لگائیں کہ وہ شخص جنت نعیم کا حقدار کیسے ہو سکتا ہے جس کا دامن اہل بیت پاک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون سے تربتر ہو، جس نے اصاغر و اکابر، ضعیف و نحیف مردوں اور بنات و خواتین کی پرواہ کیے بغیر سب کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا ہو، جو کہ نہایت ہی شقی و بدبخت، فاسق و فاجر، فتنہ گر و بدعتی، سنن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سر عام دھجیاں اڑانے والا، صحابہ و تابعین کا قتل کرنے والا، حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے والا ہو، جس کے سر بلاد عرب کی دوشیزاؤں کی عصمت دری کا سنگین جرم شامل ہو ایسا ملعون شخص بھلا مغفور اور جنتی کیسے ہو سکتا ہے ؟
یزید کے ظلم و ستم اور سرکشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اہل مدینہ حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے بیعت کرنے پر متفق ہو گئے اور اپنے جملہ معاملات کو آپ کے سپرد کر دیا، اور آپ نے اُن سے تادم زیست یزید سے مقابلہ کرنے کی بیعت لی اور ارشاد فرمایا: ”اے میری قوم! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کا کوئی شریک نہیں، اللہ کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جب ہمیں یہ خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم پر آسمان سے پتھتروں کی بارش نہ ہونے لگے، وہ ایسا شخص ہے جو ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح جائز قرار دیتا ہے، شراب نوشی کرتا ہے، نماز چھوڑتا ہے۔ (طبقات کبریٰ) اب ذرا اندازہ لگاؤ کہ شریعت اسلامیہ سے کھلواڑ کرنے والا شخص جس کا ظلم اتنا بڑھ گیا کہ صحابہ کو یہ خوف ہونے لگا کہ ہم پر عذاب الٰہی کا نزول نہ ہو جائے، وہ شخص بھلا سعادت ابدی کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے ؟
حدیث قسطنطنیہ اور اقوال آئمہ و محدثین_________
اب آئیے اس حدیث کا صحیح مفہوم سمجھتے ہیں جس کے ذریعہ یزید کے حواریوں نے اسے بخشش و مغفرت کا تمغہ دے دیا۔
حدیث:- قال عمير، فحدثتنا أم حرام: أنها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: ”أول جيش من أمتي يغزون البحر قد أوجبوا، قالت أم حرام: قلت: يا رسول الله أنا فيهم ؟ قال: أنت فيهم، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: أول جيش من أمتي يغزون مدينة قيصر مغفور لهم، فقلت: أنا فيهم يا رسول الله؟ قال: لا۔
ترجمہ: عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا، اس نے (اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت) واجب کر لی ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: ”یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ (صحیح البخاری)
مذکورہ حدیث پر علماء و محدثین نے نہایت طویل بحث فرمائی ہے اور بہت سے محدثین نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ جنگ قسطنطنیہ میں یزید شامل ہی نہیں تھا، لہٰذا جب شمولیت ہی ثابت نہیں تو ”مغفور لھم“ کا مصداق کیسے ٹھہرا ؟ اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیں کہ شامل تھا پھر بھی اس حدیث کے ذریعہ اس کی مغفرت ثابت نہیں ہوتی
جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی الشافعی رحمة اللّٰه علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب فتح الباری شرح بخاری کی جلد نمبر 6 میں اور امام امام بدر الدین عینی الحنفی رحمة الله علیہ عمدۃ القاری شرح بخاری میں جلد نمبر 14 پر اور امام شہاب الدین قسطلانی رحمة الله علیہ ارشاد الساری شرح بخاری میں جلد 6 یزیدیوں کے اس بے بنیاد استدلال کا رد فرماتے ہوئے لکھتے ہیں (تینوں آئمہ کا قول لگ بھگ ایک ہی ہے اس بنا پر طوالت سے بچتے ہوئے صرف ایک ہی کے قول پر اکتفاء کیا گیا ہے) : ”لا یلزم من دخوله فی ذلك العموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذ لا یختلف اھل العلم ان قوله صلی اللّٰه علیه وسلم "مغفور لھم” مشروط بان یکونوا من اھل المغفرۃ حتی لو ارتد واحد ممن غزاھا بعد ذلك لم یدخل فی ذلك العموم“.
اس عبارت کا مفہومی ترجمہ دیکھتے چلیں کہ اگر ہم یزید کی اس جنگ میں شمولیت تسلیم کر بھی لیں تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بخشش کا پروانہ دیا ہے وہ اِس جنگ سے پہلے کے گناہوں کی بخشش ہے یعنی یزید پلید کے جو اِس جنگ سے پہلے کے گناہ تھے وہ اس جنگ کے سبب بخشے گئے مگر یزید پلید نے جو ظلم اس جنگ کے بعد ڈھائے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، لہٰذا وہ اس عموم کے تحت شامل نہیں۔
مذکورہ حدیث کی دوسری توجیہ________
بعض محدثین نے اس حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ اس حدیث شریف میں مدینۂ قیصر سے مراد قسطنطنیہ نہیں ہے بلکہ حمص ہے جو کہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں روم کا دار الحکومت تھا، جیسا کہ فتح الباری میں مذکور ہے کہ بعض شارحین نے کہا ہے کہ مدینۂ قیصر سے مراد وہ شہر ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں قیصر کا شہر تھا اور وہ حمص ہے، اور اس وقت وہی اس کا دار الحکومت تھا۔
حدیث پاک کی یہ توجیہ قابل غور ہے کہ اس حدیث اور اس کی متعلق دیگر روایات میں ”مدينة قيصر“ کے الفاظ وارد ہیں، حدیث شریف کے کلمات کے مطابق وہ شہر حمص ہی ہے جو کہ خلافت فاروقی میں ۱۵ ہجری میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں فتح ہوا، اس معرکہ میں حضرت خالد بن ولید، حضرت بلال، حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہم سمیت دیگر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے، اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا، چہ جائیکہ اس معرکہ میں شرکت کرنا، کیوں کہ یزید کی پیدائش 26 ہجری میں ہوئی تھی۔
حدیث قسطنطنیہ کی تیسری توجیہ_________
بعض محدثین و شارحین نے فرمایا کہ احادیث میں موجود ”مدينة قيصر“ کے الفاظ سے مراد قسطنطنیہ ہی ہے، لیکن پھر بھی یزید اس بشارت کا مستحق نہیں ٹھہرتا اس لیے کہ قسطنطنیہ پر اہل اسلام نے متعدد مرتبہ حملے کیے، اور حدیث میں وارد بشارت عظمیٰ صرف پہلی بار حملہ کرنے والوں کے لیے ہے۔
آئیے معلوم کرتے ہیں کہ کس کس سن میں قسطنطنیہ پر حملے کیے گئے البدایہ والنہایہ کی جلد 07 میں ہے: 32 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روم پر حملہ کیا، معرکے سر کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ کی تنگ نائے تک پہنچ گئے۔ اسی طرح التاریخ الکامل کی جلد نمبر 3 میں بھی مذکور ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ قسطنطنیہ پر پہلی مرتبہ حملہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے 32 ہجری میں کیا، اور اس اعتبار سے یزید کا اس جنگ میں شامل ہونا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ 32 ہجری میں یزید کی عمر صرف 6 سال تھی۔ اور دوسری مرتبہ حملہ سن 43 ہجری میں حضرت بسر ابن ارطاۃ رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ہوا جو کہ البدایہ والنہایہ کی جلد نمبر 8 میں موجود ہے۔ اور تیسرا حملہ 44 ہجری یا 46 ہجری میں ہوا جیسا کہ التاریخ الکامل میں دونوں روایتوں کے واقعات کا ذکر موجود ہے۔
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے تیسرے لشکر کے امیر حضرت عبد الرحمٰن بن خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہما تھے، اس حملے کا ذکر کتب تاریخ کے علاوہ صحاح ستہ کی معتبر کتاب سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔ لہٰذا مذکورہ حوالہ جات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلی مرتبہ حملہ کرنے والا لشکر حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ہے جو کہ بُخاری شریف میں موجود بشارت عظمیٰ کا مستحق ہے۔
قسطنطنیہ پر تینوں حملوں میں سے کسی بھی حملے میں یزید کی شرکت ثابت نہیں ہوتی، پھر سوال ہوتا ہے کہ یزید قسطنطنیہ کی کس جنگ میں شامل تھا، تو اس کے متعلق چار اقوال ملتے ہیں:
(01) سن 49 ہجری میں روم کے معرکہ میں شریک رہا جس کا ثبوت البدایہ والنہایہ سے ملتا ہے کہ سن 49 ہجری میں یزید بن معاویہ نے مملکت روم پر حملہ کیا یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔
(02) یزید 50 ہجری کے معرکہ میں شریک رہا جس کی توضیح عمدۃ القاری کی جلد 5 میں موجود ہے کہ 50 ہجری کو مسلمان اس لشکر میں قسطنطنیہ تک پہنچے اور اس کا محاصرہ کیا جب کہ یزید بن معاویہ اپنے والد کی جانب سے اس لشکر کا سپہ سالار تھا۔
(03) 52ہجری کے حملے میں یزید شریک تھا اور اس قول کو حضرت علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے ترجیح دی ہے جو کہ عمدۃ القاری میں مذکور ہے۔
(04) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے 55 ہجری میں قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لیے یزید کو روانہ کیا جیسا کہ ”الاصابة في معرفة الصحابة“ میں موجود ہے۔ (ماخوذ: حقانیت امام حسین اور حدیث قسطنطنیہ)
لہذا ان چاروں اقوال میں سے کسی ایک قول کو بھی مان لیا جائے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یزید ”مغفور لھم“ جیسی عظیم بشارت میں شامل ہے، کیوں کہ ان چار حملوں سے پہلے بھی معتدد مرتبہ قسطنطنیہ پر حملے ہو چکے تھے۔ لہٰذا بغیر کسی تحقیق و تفتیش اور ثبوت کے یزید کو اس بشارت کا مصداق ٹھہرانا سراسر کذب ہے۔
ربِّ کریم ہمیں فتنہ گروں کے فتنے سے محفوظ رکھے اور عالم اسلام کے جملہ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین، بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔
✍ محمد تحسین رضا نوری، شیرپور کلاں، پورن پور، پیلی بھیت