اللہ کے رسول  ﷺ  کی دعائیں(قسط سوم)

ام المومنین سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ کی خالہ تھیں۔یہی وجہ تھی کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کبھی کبھی ان کے یہاں سوجایا کرتے تھے۔آپ نے وہاں اللہ کے رسولﷺکی عبادت کا طریقہ ملاحظہ فرمایا اور اسے دوسروں تک پہنچایا۔ایسی ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: میں ایک رات اپنی خالہ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تھا۔میں جاگ رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺرات میں بیدار ہوئے اپنی حاجت سے فارغ ہوئے اور ہاتھ منہ دھوکر دوبارہ سوگئے۔تھوڑی دیر بعد آپ بیدار ہوئے اور وضو بناکر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔میں نے بھی وضو کیا اور آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔آپ نے میرا کان پکڑا اور مجھے اپنی دائیں طرف کردیا۔اس وقت آپ نے تیرہ رکعت پڑھی اور سوگئے۔نیند میں اللہ کے رسول ﷺکی سانس بلند ہوجاتی تھی اور اسی سے ہم جان جاتے تھے کہ آپ سورہے ہیں۔پھر تھوڑا وقت گزرجانے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کے لیے آواز دی۔آپ اٹھے اور بغیر وضو کیے نماز کے لیے چلے گئے۔اتنا بیان کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺکی دعاؤں میں اکثر یہ دعاشامل ہوتی تھی۔’اللھم اجعل فی قلبی نورا و فی بصری نوراوفی سمعی نوراوعن یمینی نورا وعن یساری نورا وفوقی نوراوتحتی نوراوأمامی نوراوخلفی نوراواجعل لی نورا‘۔ترجمہ:’اے اللہ میرے قلب،بصارت اور سماعت میں نور عطافرما۔میری دائیں طرف، بائیں طرف، اوپر، نیچے، آگے اور پیچھے نور عطافرما اور میرے لیے ایک مکمل نور عطافرما۔ایک دوسری روایت میں رگ، گوشت، خون، بال اور جلد کے ساتھ دو خصلتوں میں نور عطافرمانے کا ذکر ہے۔ان دو خصلتوں سے مراد یا تو ہڈی اور قبر ہے یا زبان اور نفس۔دیگر روایتوں میں ’واجعل لی یوم القیامۃ نورا‘(قیامت میں مجھے نور عطافرما)، ’واجعل لی فی نفسی نورا وأعظم لی نورا‘(میرے دل میں نور دے اور اس نور کو بڑا کر)،’اللھم عظم لی نوراوأعطنی نوراواجعلنی نورا‘(اے اللہ میرے نور کو بڑا کر مجھے نور دے اور خود مجھے نور بنا دے)کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
 اللہ کے رسول ﷺ کی دعاؤں کے ذکر میں پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ کی دعاؤں کا اکثر حصہ ایسی چیزوں پر مشتمل ہوتا تھا جو معنوی یا اخروی ہوتی تھیں۔اس دعا میں بھی جس شئے کا سوال کیا گیا ہے وہ معنوی ہے مادی نہیں۔ان دعاؤں میں نور سے کیا مراد ہے اس میں علماء نے الگ الگ رائے دی ہے۔محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح جو امام قرطبی کے نام سے معروف ہیں ایک عظیم مفسر،محدث اور فقیہ تھے۔امام ابن حجر العسقلانی فتح الباری میں آپ کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’یہاں نور کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ایک تو ظاہری معنی مراد ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ واقعی نور یعنی روشنی کا سوال کررہے ہیں کہ قیامت کے اندھیرے میں واقعی ان کے بدن کے یہ حصے روشن ہوں تاکہ وہ خود اور آپ کے امتی اس نور سے فائدہ اٹھاسکیں۔نور کا ایک معنی علم اور ہدایت بھی ہوسکتا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن میں نور کو کئی جگہ اسی معنی میں استعمال کیا ہے مثلا: ’فھو علی نور من ربہ‘ اور ’وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس‘۔ان دونوں آیتوں میں نور سے مراد علم اور ہدایت ہے۔ایک تیسرااور زیادہ بہتر معنی یہ ہوسکتا ہے کہ ہر عضو کی صلاحیت اور اس کی قابلیت کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں نور عطافرمانے سے مراد یہ ہے کہ وہ اعضاء اپنی فطری صلاحیت اور قابلیت پر ہمیشہ قائم رہیں یا یہ کہ ان اعضاء سے کبھی معصیت نہ ظاہر ہو بلکہ ہمہ وقت عبادت یا نیک کاموں میں مصروف رہیں۔ 
 حسین بن محمد عبداللہ الطیبی فرماتے ہیں کہ تمام اعضاء کے لیے فردا فردا نور کا سوال اس لیے کیا گیا ہے تا کہ پوری ذات نور کے احاطے میں آجائے اور یہاں نور سے مراد معرفت اور اطاعت گزاری ہے۔شیاطین انسان کو ہر طرف سے گھیرے رہتے ہیں اور طرح طرح کے وسوسے پیداکرتے ہیں تاکہ انسان برے کاموں میں مشغول ہو۔یہ دعا اسی لیے کی گئی ہے کہ شیاطین کے ہر وسوسے سے انسان پوری طرح بچا رہے۔انسان ان وسوسوں سے اسی وقت بچ سکتا ہے جب اسے اللہ کی صحیح معرفت ہو اور وہ ہدایت اور سیدھے راستے پر قائم ہو، تو اس دعا میں نور کا سوال کرنا انہیں تمام معانی کو محیط ہے‘۔حدیث کے ضمن میں یہ ساری بحث امام ابن حجر العسقلانی کی فتح الباری سے ماخوذ ہے۔اب یہاں اس کی مزید وضاحت پیش کی جاتی ہے۔
 نور کا اصل معنی روشنی ہے مگر یہ لفظ علم، ہدایت، معرفت، آگہی، سیدھا راستہ، عقل سلیم وغیرہ معانی کے لیے آتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺنے یہاں قلب یعنی دل اور بصریعنی آنکھ اور سمع یعنی کان کے لیے نور کی دعا مانگی ہے۔قلب جسم انسانی کا سب سے اہم حصہ ہے۔حدیث میں ہے کہ جس کا قلب اپنی صحیح حالت پر ہو یعنی فطری حالت پر جس میں خدا کی معصیت وغیرہ کا کوئی ظہور نہ ہو تو اس کے باقی اعضاء بھی اسی طرح ہوتے ہیں اور اگر قلب ہی اپنی فطرت سے ہٹ جائے اور معصیت میں مبتلا ہو تو باقی اعضاء بھی اسی راستے پر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔قلب کے لیے نور کا سوال اس معنی میں اہم ہے کہ جب قلب آگہی اور شعور اور خدا کی معرفت اور اس کی اطاعت سے متصف ہوگا تو دیگر اعضاء بھی اس کی پیروی کریں گے۔قلب انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی وہ قوت ہے جو ہر طرح کا کام کرسکتی ہے۔اچھے اور نیک کام ہوں یا برے اور بد،سب کا تعلق قلب سے ہے۔اسی وجہ سے اس دعا میں سب سے پہلے قلب کا ذکر ہے کہ اگر اسے نور عطا ہوگیا تو باقی اعضاء کے لیے الگ سے نور کے دعا کی ضرورت نہیں ہے۔یہاں ایک بات اور ذہن میں رہنی چاہیے کہ قلب ایک تو انسانی بدن کا حصہ ہے جسے ہم دل کہتے ہیں اور جس کا کام خون کی صفائی وغیرہ ہے اور دوسرا وہ طاقت یا قوت ہے جو انسان کو متحرک رکھتی ہے اور اس سے ہر طرح کے کام کرواتی ہے اور ایسا کرنے میں دماغ اس کی مدد کرتا ہے۔
 قلب کے علاوہ جن دو قوتوں کا خصوصی ذکر ہے وہ ہیں بصارت اور سماعت۔بصارت اورسماعت کا ذکر اس لیے کیا گیا کیوں کہ یہ دونوں قوتیں انسان بہت زیادہ استعمال کرتا ہے۔بصارت اور آنکھ کو بھی قرآن میں سیدھے راستے کی سمجھ بوجھ اور ہدایت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔کافروں کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی آنکھوں پر اللہ نے پٹی چڑھادی ہے جس کی وجہ سے انہیں سیدھا راستہ نظر نہیں آتا۔تو یہاں بصارت سے حق وباطل اور خیر و شر میں امتیاز کرنے کی قوت مراد ہے کہ انسان کو حق اور باطل کی پہچان حاصل ہو اور وہ اسی کے مطابق عمل کرے۔اسی طرح سماعت کا بھی ذکر ہے۔قرآن میں بارہا کافروں کو کہاگیا کہ انہیں سنائی نہیں دیتا جس کا مطلب یہ ہے کہ حق کی بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی اور اللہ کے رسول انہیں جتنی بار بھی راہ حق کی طرف بلاتے ہیں وہ پھر بھی اس سے دور رہتے ہیں اور ان کی باتوں کو ٹال جاتے ہیں۔تو یہاں بصارت اور سماعت سے یہی معنی مراد لینا زیادہ بہتر ہے کہ اس سے ہر چیز کے صحیح اور غلط ہونے کا علم ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس صحیح پر عمل کرنے اور اس غلط سے بچنے کی مکمل کوشش ہو۔قلب اور اسی طرح بصارت اور سماعت کے ذکر سے باقی اعضاء بھی اس کے ضمن میں آجاتے ہیں کیوں کہ انسانی قوتوں کا دارومدار زیادہ تر انہیں قوتوں پر ہے۔اس لیے اس دعا میں گو کہ بدن کے باقی اعضاء کا ذکر نہیں ہے پھر بھی وہ سب ضمنا شامل ہیں۔نیز اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ان قوتوں کے علاوہ حدیث میں خون، گوشت، جلد،رگ، بال، زبان اور ہڈی کا بھی ذکر ہے جنہیں ہم ان تین قوتوں کی تفصیل یا اس کی تاکید کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ایک جگہ نفس کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قلب ہی کا ہم معنی لفظ ہے۔
 انسانی اعضاء کے علاوہ اللہ کے رسولﷺ نے چھ جہات کا بھی ذکر فرمایا جس میں داہنی طرف،بائیں طرف، اوپر، نیچے،آگے اور پیچھے شامل ہیں۔سورہ اعراف میں اللہ تعالی نے ابلیس کا تفصیلی مکالمہ بیان کیا ہے جو بارہویں آیت سے اٹھارہویں آیت تک پھیلا ہوا ہے۔سولہویں اور سترہویں آیت میں ابلیس اللہ سے اس طرح مخاطب ہوتاہے مجھے اس کی قسم کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر لوگوں کی تاک میں بیٹھوں گا۔ پھر ضرور میں ان کے آگے اور ان کے پیچھے اور ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔اس آیت سے پتہ چلا کہ شیطان ہر طرف سے انسان پر حملے کرتا ہے۔یہاں جہات سے مراد شیطان کے وہ طریقے ہیں جن سے وہ انسان کے دل میں طرح طرح کے خیالات پیداکرتا ہے۔امام طبری نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا کہ اس آیت میں آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے بالترتیب آخرت کے بارے میں شک پیدا کرنا،دنیا کی رغبت دلانا،  دین میں شبہہ پیدا کرنا اور گناہوں کی رغبت پیدا کرنا مراد ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دعا میں اوپر اور نیچے کا بھی ذکر فرمایا جس میں آپ نے تمام جہات کا احاطہ فرمالیا اور شیطان کے ہر وسوسے اور ہر طرح کے شر سے محفوظ ہونے کی دعا مانگی۔یہ دعا انسان کو دنیا میں بھی فائدہ پہنچائے گی اور آخرت میں بھی۔دنیا میں اس طرح کہ اس کی تمام قوتیں حق پر قائم رہیں گی اور اللہ کی اطاعت پر اس کی مدد کریں گی نیز وہ شیطان کے تمام وسوسوں سے محفوظ رہے گا۔اس کا اثر آخر ت میں بھی دیکھنے کو ملے گا کہ بندہ جب دنیا میں شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا تو آخرت میں اس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہوجائے گا۔اللہ کے رسولﷺ کی یہ دعا دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیابی کی ضامن ہے۔اللہ کے رسولﷺ کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں کا حصہ بنانا یقینا ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس سے ہم انسان کاملﷺسے اور زیادہ قریب ہوں گے اور اس دعا کا حصہ بنیں گے جو آپ قربت میں لمحات میں اپنے لیے اپنے رب سے مانگا کرتے تھے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter