عوامی جگہوں پر نماز پر پابندی کیوں ؟

  1994 میں سپریم کورٹ کے ایک آرڈر کے مطابق عوامی جگہوں پر نماز پڑھنا بالکل درست ہے سپریم کورٹ نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ نماز کے لئے مسجد ہوناضروری نہیں ہے بلکہ نماز ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے سپریم کورٹ کے اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی دوسرا حکم اب تک نہیں آیا مگر اس کے باوجود ملک کی بعض ریاستوں میں عوامی جگہوں پر نماز پڑھنے پر قانونی کاروائی کی جارہی ہے اور نمازیوں کو گرفتار کیاجارہاہے 

  لکھنئو کے لوءلوء مال میں کچھ لوگوں نے جاکر نماز ادا کی اس کے بعدسے یہ مسئلہ گرم ہوگیااور تخریب کارعناصرنے اسے لے کر ماحول کو خراب کرنے کی کوششیں  شروع کردیں کہاجاتاہے کہ لولو مال میں جن لوگوں نے نماز پڑھی ان کا مقصد نماز کی ادائیگی نہیں تھابلکہ ماحول کوخراب کرناتھا اس لئے کہ انھوں نے چند سیکنڈوں میں نماز پوری کرلی اگر واقعی ایسا کیاگیاہے تو یہ شرارت ہے اور ایسی حرکت کرنے والوں کو سزا ضرور ملنی چاہیے مگر شدت پسند ہندوؤں کی جانب سے یہ کوئی پہلا اعتراض نہیں ہے بلکہ دلی کے گروگرام علاقے میں مسلمان صرف جمعہ کی نمازکھلے میدان میں  پڑھتے تھے اس پر بھی بہت اعتراض کیا گیا اور یہ سلسلہ بند کرانے کے لئے خوب شرارت کی گئی لوگوں کو جمع کرکے ہندو مسلم تصادم کی صورت پیدا کی گئی کئی مرتبہ تو پولیس نے مداخلت کی ورنہ فساد ہوہی جاتا

   یااللہ تیری زمین پر تیرے سجدوں سے روکاجارہاہے۔۔۔ تو کیسا صبور ہے۔۔ ۔سفر میں ہم ائیرپورٹ پر ریلوے اسٹیشن پر پٹرول پمپ پر جہاں وقت ہوجاتا نماز پڑھ لیتے تھے بلکہ  ایسا بھی ہواہےکہ برادران وطن  نےاحترام کے ساتھ  نماز کے لئے جگہ دی چادر دی مگر اب ملک میں بی جے پی نے نفرت کاایسا زہر گھول دیاہے کہ ساری فضاء مسموم نظرآرہی ہے جولوگ پہلے نماز کے لئے جگہ دیاکرتے تھے چادر پیش کیاکرتھے وہی اب نماز کی ادائیگی پر ہنگامہ آرائی کے لئے آمادہ نظر آرہے ہیں یہ نفرت یہ دوریاں دیدہ ودانستہ پیداکی جارہی ہیں تاکہ اقتدار کی کرسی کو سالوں تک محفوظ رکھاجاسکے کچھ لوگ ملک میں ایسے ہی ہیں جن کاکام نفرتوں سے ہی چل رہاہے مگر وہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو اجنبی بناکر ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتا

   برادران وطن کو ہم صاف لفظوں میں بتانا چاہیں گے کہ نماز کسی کو چڑھانے کے لئے یاتکلیف دینے کے لئے نہیں پڑھی جاتی بلکہ یہ ایک ایسآ فریضہ ہےجو ہرمسلمان کو پانچ وقت ہر حال میں اداکرناہے اس کی ادائیگی کے بغیر خدا کو راضی رکھناناممکن ہے چوبیس گھنٹے میں تین مرتبہ دسترخوان بچھابچھاکرجس طرح اس کی نعمتیں بندہ کھاتاہے اسی طرح چوبیس گھنٹے میں پانچ مرتبہ مصلی بچھاکر نماز اداکرنااور اس کاشکراداکرنابندے پر ضروری ہے کیاسفر کیاحضر کیا ائیرپورٹ کیاریلوے اسٹیشن ایک مسلمان بحروبرمیں جہاں ہو نمازکاوقت ہونے پر اسے نماز ضرور اداکرنی ہے حتی کہ میدان جنگ میں بھی اس فریضے کو معاف نہیں کیاگیاہے اور نماز کی ادائیگی میں وقت ہی کتنالگتاہے چند منٹ۔۔برادران وطن ہماری نماز کےلئے چند منٹ کی قربانی دیں ہم ان کے مشکور ہوں گے اس کے بعد اگر آپ کو اپنی پوجاپاٹ کرناہوتو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر ہمارا وقت مخصوص ہے اس کا آپ لحاظ رکھیں 

  کہاجاتاہےکہ انگریزوں کے زمانے میں ایک مسجد اور مندر  کاتنازع ہوگیا جیسے ہی مسجد میں اذان دی جاتی اسی وقت مندر میں گھنٹہ بجاناشروع کردیاجاتا اس پر شدید اختلاف ہوگیااور بات کورٹ تک پہنچ گئی انگریز جج بہت زیرک تھا اس نے کہا کل میں مسجد مندر کے سروے کےلئے آوں گا دوسرے روز صبح میں جج صاحب سروے کےلئے پہنچ گئے اور مسجد میں جاکر موذن سے کہاکہ اذان دو تو موذن نے انکار کردیاکہ میں ابھی اذان نہیں دےسکتا ابھی اذان کاوقت نہیں ہے اذان تو وقت مقررہ پر ہی دی جاسکتی ہے جج نے کہاتھیک ہے پھر مندرمیں گیااور پجاری سے کہاکہ گھنٹہ بجاو تو پجاری نے جج کے کہنے پر فورا گھنٹہ بجاناشروع کردیا جج نے کہا تھیک ہے کل کورٹ میں آجانا فیصلہ کردیاجائےگا دوسرے دن جب ہندو مسلم سب کورٹ میں پہنچے تو جج نے حکم سناتے ہوئے کہاکہ کل کے سروے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب مسجد میں اذان دی جائےگی اس وقت مندر میں گھنٹہ نہیں بجایاجائے گا اس لئے کہ مسجد میں اذان کاوقت مقررومتعین ہے مگر مندر میں گھنٹہ بجانے کاکوئی وقت مقرر نہیں ہے اس لئے جب اذان ہورہی ہوتو اس وقت گھنٹہ بجانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی اذان کے بعد آپ لوگ جتناچاہیں گھنٹہ بجائیں۔۔کیسا دانش مندانہ فیصلہ کیاگیا اگر آج بھی برادران وطن مسلمانوں کے  نظام عبادت کی نزاکتوں کو سمجھ لیں تو تمام تنازعے ختم ہوسکتے ہیں 

   بہرحال مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اس مسئلے میں بھی سپریم کورٹ سے رجوع کریں اور اس مسئلے کے قانونی حل کی حتی المقدور کو شش کریں  اللہ مسلمانوں کے حال زار پررحم وکرم فرمائے

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter