حجاب تنازع کے بعد حلال گوشت کا نمبر 

پتہ نہیں بی جے پی لیڈران کے ذہن میں کیا خناس بھرا ہوا ہے۔ ارباب حکومت ریاستی سطح پر ایوان میں ریاست کی ترقی کی بات چیت کم اور فرقہ وارنہ تنازعات کو ہوا دینے میں لگے رہتے ہیں۔ریاست کرناٹکا کے شہر بلگاوی سورنا ودھان سودھا میں یہی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ریاست ہی کی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی مسلمانوں پرآئے دن حملے کئے جاتے ہیں۔ مرکز میں بی جے پی لیڈران کبھی تو یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں تو ریاست میں وزیر اعلی اور انکے حواری جواری فرقہ وارنہ مدے کو اٹھا کر باشندگان کرناٹک کو فرقہ پرستی کی بھٹی میں نذر آتش کرنا چاہتے ہیں اسی خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے آج کل نیا مسئلہ چھیڑدیا گیا ہے۔ وہ اور کچھ نہیں بلکہ حلال گوشت پر پابندی لگادی جائیں۔ ملک میں کوئی بھی معاملہ ہو گھوم پھر کر ان کی ہر تان اسلام یا مسلمان پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ مسلمان حکومت ہند کیلئے بڑے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ایسے تنازعات کو اٹھانے کا مقصد ہی مسلمانوں کو ہر طرح سیاسی, سماجی, معاشی, اقتصادی, تعلیمی, صنعتی اور تجارتی طور پر کمزور ولاغر کردیا جائیں تاکہ وہ ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانہ سکیں اور صنم لا ینطق بنے بیٹھے رہے۔

اخباروں کی سرخیوں پر ہمیشہ کچھ نہ کچھ تنازع شہ سرخی بن کر ابھرتی ہے کبھی رام مند ر تو کبھی لوجہاد, کبھی گؤئ رکچھا تو کبھی یونیفارم سیول کوڈ, کبھی وندے ماترم تو کبھی انسداد تبدیلیء مذہب۔ پتہ نہیں ملک میں کیا چل رہاہے۔اخبارالٹتے ہی کچھ نہ کچھ تنازعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ان فرقہ وارانہ تنازعات کی وجہ سے اخبار پڑھنے کا شوق ہی دھیرے دھیرے مدھم ہوتا جارہاہے۔حجاب تنازع کے بعد اب ارباب حکومت اور بی جے پی لیڈران حلال گوشت بل منظور کرانے کی چکر میں ہیں۔حلال گوشت کا تنازع درحقیقت حکومت کا مدعا نہیں بلکہ ہندو دہشت گرد عناصر جیسے ہندوجاگرتی سمیتی, شری رام سینا, بجرنگ دل اور آر یس یس کی خفیہ سازش ہے اسی سازش کو بروئے کار لانے کیلئے حکومت کوشاں ہے۔پچھلے مارچ کو اگادی تہوار کے وقت کچھ شرپسند ہندو عناصر نے اس حلال گوشت کے مدے کو لیکر سڑکوں پر اتر آئے تھے۔اور ان کا مطالبہ یہی تھا کہ حکومت حلال گوشت پر فوری طور پر پابندی لگائیں۔اس وقت اس معاملہ کو عوام کے نظروں سے چھپادیا گیا تاکہ ریاستی سطح پر کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہو۔۔

کئی ماہ گزرگئے پھر اس مردہ مدے کو جلا بخشتے ہوئے ایوان میں بل پاس کرانے کی تیاریاں روز وشور پر ہیں۔ بی جے پی لیڈر روی کمار نے FSSAI (Food Safety and Standards Authority of India)) سے مطالبہ کیا کہ حلال گوشت پر پابندی لگا دیں اور ملک کے دیگر غیر مجازی اداروں پر بھی سختی سے قانونی کاروائی کی جائیں۔روی کمار نے مزید بکواس کرتے ہوئی کہا کہ ملک میں بہت سارے جگہوں پر غیر مجازی ادارے حلال سرٹیفیکٹ دینے کا کام کررہے ہیں جو قانونا ناقابل معافی جرم ہے۔اور آئین ہند کے سخت خلاف ہے۔ یہی روی کمار چند دن قبل حلال گوشت بل کو نجی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ وہ گورنر تھاور چند گہلوت کو خفیہ طور پر خط لکھا تھا اس میں یہی مطالبات درج تھے۔آج وہ خوشی سے پھل کر جشن مناتے ہونگے اس لئے کہ جو انکا ذاتی معاملہ تھا اب وہ ریاستی اور حکومتی مسئلہ بن گیا۔

یہ تو روی کمار کی بکواس اور ہذیان گوئی تھی اب آئیے بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی کہتے ہیں کہ حلال گوشت بیجنا جہاد کا حصہ ہے اور مسلمان گوشت خدا کے لئے حلال کرتا ہے۔اور ہندو باشندوں کی اس طرح کے گوشت کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پہلے تو ہم لو جہاد (Love Jihad) سنتے آئے ہیں اب گوشت جہاد (Meat Jihad) بھی سننا نصیب ہوگیا یہ سب ہماری بدنصیبی ہے یا خوش نصیبی ہے پتہ نہیں؟؟؟ جیسا بھی ہو بی جے پی لیڈران کاشکر گزار ہیں کہ وہ سوچ سوچ کر کچھ نہ کچھ نیا مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ یہ فرقہ واریت باقی رہے اور ووٹ بینک بھی محفوظ رہے۔ہم اس سنگین حالات میں اپوزیشن پارٹی کا تہ دل سے سپاس گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی ہمت وحوصلے سے اس بے ہودہ بل کی سخت مخالفت کیلئے کوشاں ہیں اور امید ہے کہ جس طرح انہوں نے انسداد تبدیلی مذہب بل کی مخالفت کی تھی اسی طرح اس بل کو بھی منظور ہونے نہ دینگے۔ ہری پرساد نے ایوان میں ڈٹ کر کہا کہ ان سب کا مقصد صرف اور صرف اقلیت کو ہراساں کرنا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔کانگریس پارٹی کے ڈپٹی لیڈر عالی جناب یوٹی قادر صاحب نے بھی کہا کہ ہم اچھی طرح بی جے پی کی حکمت عملی سمجھتے ہیں وہ اپنی ناکامی, بدعنوانی, رشوت خور ی, ووٹر ڈیٹا سرقہ بازی جیسے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کا کام کررہی ہے۔اور اس مجوزہ بل منظور کرانے کا خفیہ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ عوام کو فرقہ وارانہ خطوط میں تقسیم کردیا جائیں۔اپوزیشن کا ہر لیڈر اس ناعاقبت اندیش بل کے سخت مخالف ہے۔

اس وقت مجھے کیرالا کے وزیر اعلی پنارائی وجین کی بات یاد آرہی ہے جب مرکز میں بیف پر پابندی کی بات چیت چل رہی تھی تو انہوں نے پریس کانفریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ عوام کیا کھائیں؟؟ اور کیا نہ کھائیں؟؟ یہ سب عوام خود بخود فیصلہ کرلے گی۔ اس سے بھی بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ کیرالا میں اس بل کے خلاف کافی احتجاج ہوئے اور احتجاج کا طریقہ بھی کافی انوکھا اور قابل تقلید تھا کہ احتجاج کے درمیان میں عوام الناس نے بیف اور پراٹھا کھا کر اپنے غم,غصے کا اظہار کیا تھا۔ آخر ہم حکومت اور شریمان وزیر اعلی بسواراج بومئی سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ان تمام بے ہودہ باتوں کو نظر انداز کرکے عوام کی ترقی کے بارے سوچیں اور جتنے سرکاری اسکیموں کا اعلان کیا گیا ہے اس سب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش وکاوش میں لگے رہے۔ تب یہ وزارت عظمی کی کرسی بھی سلامت رہے گی اور عوام بھی آپ سے خوش وخرم رہے گی۔عوام کا دل جیتنا ہی ایک ریاست کے وزیر اعلی کی کامیابی وسرخروئی کی بڑی دلیل ہے۔

از قلم: مفتی رفیق احمد کولاری ہدوی قادری 
(ریاستی صدر یس کے یس یس یف کرناٹکا)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter