مشرف عالم ذوقی_صاحب: حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
ارباب علم و دانش کا اس کثرت سے انتقال، انتہائی افسوس ناک ہے۔ کل مناظر عاشق ہرگانوی کی رحلت کی خبر ملی اور آج جناب مشرف عالم ذوقی صاحب ”مرگ انبوہ“ کے شکار ہوئے۔ ہر دو، اردو ادب کے ستون تھے، ان کے جانے سے اردو دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے، جن کو پاٹنا ممکن نہیں۔
مشرف عالم ذوقی صاحب سے پہلی ملاقات فیس بک ہی میں ہوئی تھی۔ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف سوشل میڈیا کی طاقت سے بے خبر نہیں تھے، انھوں نے اپنے مصروف ترین وقت میں سے ایک حصہ ”سوشل میڈیا“ کے لئے بھی خاص کر لیا تھا، سی CAA معاملے میں اہم رول بھی نبھایا، انقلاب، ممبئی، ممبئی اردو نیوز، اردو ٹائمز، ممبئی، سہارا، صحافت، منصف، قومی آواز اور ملک کے دوسرے مشہور اخبارات میں، سلگتے مسائل پر ان کی برجستہ اور بے لاگ تحریریں بے حد پسند کی جاتی تھیں۔
مشرف عالم ذوقی، بہار کے ایک قصبے میں ، 24/ نومبر 1963ء کو ، ایک متوسط مگر پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مگدھ یونیورسٹی، گیا سے ایم اے کیا۔ 1992ء میں ان کا پہلا ناول ”نیلام گھر“ شایع ہوا، پھر مسلسل لکھتے رہے۔ ناول، افسانہ، تنقید اور دوسرے اصناف میں 50 سے زائد کتابیں، سیکڑوں مضامین تحریر کی۔ 19/ اپریل ، 2021ء کو اردو ادب کا یہ مینارہ ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
”لے سانس بھی آہستہ“، ”بیان“، ”حبس نامہ“، ”شہر چپ ہے“، ”آتش رفتہ کا سراغ“، ”پروفیسر ایس کی عجیب داستان“، ”ہائی وے پہ کھڑا آدمی“، ”نالہ شب گیر“،”بھوکا ایتھوپیا“، ”مسلمان“، مرگ انبوہ “ اور ”مردہ خانے میں عورت“ ان کے نمایندہ افسانے ہیں۔
ان میں سے موخر الذکر دونوں افسانوں کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ ”مرگ انبوہ“ کو تصنیف کرنے میں پانچ سال لگے اور یہ شاہ کار افسانہ 2019ء میں شایع ہوا۔ اب تک پانچ زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ مرگ انبوہ میں بھارت کے وہ غریب مسلمان ہیں، جن کا اب تک صرف استحصال ہی ہوا ہے، کانگریس کے ذریعے دے گئے لالی پاپ، گجرات قتل عام کا درد و کرب اور کئی واقعات ”مرگ انبوہ “ کے صفحات میں، اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں؛ وہیں ”مردہ خانے میں عورت“ میں اس کے آگے شاہین باغ تک کی خوں چکاں داستان موجود ہے۔ اردو جاننے والے ہر شخص کو ، مرنے سے پہلے یہ دونوں کتابیں ایک بار ضرور پڑھنی چاہیے۔
ذوقی صاحب بہت وسیع القلب واقع ہوئے تھے۔ کچھ لکھنے لکھانے سے پہلے مشورہ ضرور کر لیتے۔ یہ دو تصانیف کے نام بھی، انھوں نے احباب سے ہی لئے تھے۔
تحریر: #انصاراحمد مصباحی،
aarmisbahi@gmail.com 9860664476