کرناٹک سے کھل گیا کانگریس کی جیت کا پھاٹک
کانگریس پارٹی جس کے ستارے گردش میں تھے اور جوایک عرصے سے اپنے وجود و بقا کی لڑائی لڑ رہی تھی کی امیدوں کی قندیل اچانک روشن ہو گئی ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے حالیہ نتائج نے ملک کی سب سے قدیم پارٹی کی رگوں میں یقینا روح پھونکنے کا کام کیا ہے اور اس کی اعلی کمان سے لے کر ادنی کارکنان تک خود میں نئی تازگی و توانائی محسوس کر رہے ہیں۔ اس خوش گوار موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کانگریس جہاں اپنے بکھرے ہوئے پرزوں کو ایک بار پھر سے سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں آگے کے انتخابات کے لیے لائحہئ عمل کی تیاری میں مصروف ہو گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور ایک بار پھر ملکی سیاست کی دوڑ میں خود کو سب سے آگے محسوس کر سکتی ہے۔
کرناٹک کی طرح ملک کی کم سے کم چار اور اہم ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اگلے کچھ ہی مہینوں بعد ہونے والے ہیں اور کانگریس ان چاروں ریاستوں یعنی مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں بمقابل دیگر ریاستوں کے اچھی پوزیشن رکھتی ہے۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں براہ راست کانگریس کی سرکار ہے اور مدھیہ پردیس میں معلنہ طور پر کانگریس کے ہاتھوں سے چھینی گئی بھاجپا سرکار چل رہی ہے جس کی حالت اتنی پتلی ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ رہی تلنگانہ کی بات تو کانگریس اگرچہ وہاں اچھی پکڑ نہیں رکھتی مگر حریف بی جے پی بھی اس سر زمین کی حکومت سے کافی دور نظر آتی ہے۔ ایسے میں کانگریس بی جے پی کو ان چاروں ریاستوں میں زبردست ٹکر دیتی دکھائی دے رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق کانگریس کی فتح و کامیابی کا دروازہ اگرچہ ہماچل کی جیت کے ساتھ ہی کھل چکا تھا مگر اس نظریے کو اس لیے تقویت نہیں مل پا رہی تھی کہ ہماچل پردیش فقط ۸۶ اسمبلی نشستوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کی شکست وفتح ملک کی سیاست میں کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہو تی۔ مگر ۳۱۲ سیٹوں والی کرناٹک کی عظیم جیت اور نمایاں کامیابی نے واقعی تاریخ رقم کر دی اور لوگ اسے کانگریس کی نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کرنے لگے۔ کرناٹک میں کانگریس کی جیت کو جہاں پارٹی کا احیا سمجھا جا رہا ہے وہیں فرقہ پرست اور پر تشدد ہندوتوا کے حامل بی جے پی کی شرمناک شکست کو اس کے زوال کا پیش خیمہ بتایا جا رہا ہے کیوں کہ بھاجپا کے چوٹی کے لیڈران حتی کہ خود وزیر اعظم مودی بھی ملک کے دیگر کام کاج کو نظر انداز کر کے مکمل ایک ہفتے تک کرناٹک میں خیمہ زن ہونے کے باوجود پارٹی کو ممکنہ کامیابی دلانے سے قاصر رہے۔
کرناٹک کی جیت میں کانگریس کی جانب سے اٹھائے گئے ان تمام مسائل اور مدّوں کا اہم رول رہا جو وہاں کی عوام کے ساتھ براہ راست جڑے ہوئے تھے۔ خاص طور سے بھاجپا کی چالیس فیصد رشوت والی سرکار کے چرچے نے ریاست کی عوام پر بڑی گہری چوٹ کی جس کے نتیجے میں بھاجپا کے حق میں جانے والے ووٹ کا خاصہ حصہ پھسل کر کانگریس کے حصے میں آ گیا اور فاشست پارٹی کو بری طرح منہ کی کھانی پڑی۔ بی جے پی کو اس چناؤ میں اس لیے بھی منہ کی کھانی پڑی کہ وہ اپنے چناوی بھاشن اور انتخابی ریلیوں میں ریاست کے ضروری مسائل سے صرف نظر فقط ہندو مسلم کا کھیل کھیلتی رہی اور عوام کو آپس میں بانٹنے کا کام کیا جسے کرناٹک کی عوام نے سرے سے نکارا اور نہایت خاموشی سے ووٹ کی چوٹ کرتے ہوئے اس فتنہ پرور جماعت کو ریاست کی حکومت سے بے دخل کر دیا۔ بھاجپا کی طرف سے ایک کمی یہ بھی رہ گئی کہ اس نے اپنی سبھاؤں میں پردھان منتری، مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلی اور دیگر مرکزی رہنماؤں کو آگے کیا اور علاقائی قائدین کو سرے سے نظر انداز کر دیا جبکہ کانگریس نے علاقائی قائدین کو آگے کرتے ہوئے انہیں اپنی ریاست کے لوگوں سے مخاطب ہونے کا بھرپور موقع فراہم کیا جس کے نتیجے میں وہاں کی عوام اپنے رہنماؤں سے بلا واسطہ روبرو ہو سکی اور ان سے قدرے انس حاصل کیا۔
کرناٹک کے نتیجوں کو دیکھنے کے بعد بی جے پی کو جہاں یہ احساس ہو چکا ہے کہ اب عوام کو آپس میں لڑنے لڑانے کے حربے اور وزیر اعظم مودی کے فقط ایک چہرے کے ساتھ کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی وہیں کانگریس نے بی جے پی کے انتخابی پینترے کو بھانپتے ہوئے اس کا کاٹ ڈھونڈ نکالا ہے اور اب وہ ہر میدان میں اسے کڑی ٹکّردینے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے۔ کانگریس یہ جان چکی ہے کہ انتخابات میں لوگ اب قومی مسائل (جن پر بی جے پی شروع سے زور دیتی آئی ہے) پر علاقائی اور بنیادی مسائل کو ترجیح دیتے ہیں اور جس پارٹی میں انہیں ان کا حل ملتا دکھائی دیتا ہے اس کے ساتھ ہو لیتے ہیں۔ اور بلا شبہ اسی عنصر کی بنا پر اسے پہلے ہماچل اور اب کرناٹک میں کامیابی ملی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی آج کے بنیادی مسائل ہیں جنہیں کانگریس ہر جگہ بڑی مضبوطی اور بے باکی سے اٹھاتی رہتی ہے جبکہ بھاجپا ہمیشہ ہندوستان، ہندوتو اور ہندو راشٹر پر بات کرتی ہے جس سے اب عوام ایک حد تک بیزار ہو چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق کانگریس کی حالیہ کامیابیوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں اس کی تاریخ ساز ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا بھی خاصا عمل دخل رہا ہے۔ جس انداز سے یہ یاترا کرناٹک میں داخل ہوئی تھی اور وہاں کی عوام نے جس گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا اسی سے اندازہ ہو چکا تھا کہ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں یہ پارٹی جس کے نو منتخب صدر اسی سر زمین سے آتے ہیں کچھ خاص کرنے جا رہی ہے، اور اب نتائج نے اس اندازے کو صد فیصد درست ثابت بھی کر دیا۔حقیقی بات ہے کہ بھارت جوڑو یاترا نے نہ صرف کرناٹک بلکہ ملک بھر کی عوام کے قلوب میں اپنا گھر بنایا اور ان کے اذہان میں اپنی عظمت و معنویت کے جھنڈے گاڑے۔ اس بات کی بھاری توقع ہے کہ آئندہ انتخابات میں اپنی نوعیت کے اس انوکھے یاترا کے مزید مثبت اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
بھارت جوڑو یاترا سے نہ صرف یہ کہ تمام کانگریسی متحد ہوئے اور ان کا کاڈر ایک بار پھر مضبوط ہوا بلکہ ان کے سب سے بڑے لیڈر راہل گاندھی کا قد بھی نہایت اونچا ہوا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بالغ نظر، سنجیدہ مزاج اور مضبوط دل و سخت جان رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ مطلب کبھی پپو اور غیر سنجیدہ کہے جانے والے گاندھی اب ایک نہایت سنجیدہ اور سلجھے ہوئے سیاست دان سمجھے جانے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا بھروسہ ان میں پہلے کے مقابل کئی گنا زیادہ بڑھا ہے اور لوگ ان کے بھرپور تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ بی جے پی کے پاس چناؤ جیتنے کا سب سے بڑا منتر مودی کا چہرہ ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کے پاس مودی جیسا کوئی بڑا اور جادوئی چہرہ نہیں، مگر بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی کا چہرہ بھی بلا شبہ ایک بڑا اور پرکشش چہرہ ہے جو اب مودی کو ہر محاذ میں کڑی ٹکر دینے کو تیار ہے اور اس کی تازہ مثال کرناٹک کے انتخابی نتائج کی صورت میں ملک دیکھ چکا ہے۔
مودی اور امیت شاہ کی طرح راہل اور پرینکا گاندھی کی جوڑی کرناٹک میں بہت کامیاب رہی اور گمان کیا جا رہا ہے کہ اب بھائی بہن کی یہ جوڑی ہمیشہ مودی اور شاہ کی راہ میں مشکلات کھڑی کرتی رہے گی۔ در اصل حالیہ دنوں کے ہندوستانی سیاست میں ایسے کئی واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں جو بی جے پی کے آگے کے سفر میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور کانگریس کے لیے راہیں ہموار کرتے نظر آ رہے ہیں جیسے کانگریس کے صدر کے طور پہ ایک غیر گاندھی کا انتخاب، بھارت جوڑو یاترا کا اثر، ہماچل اور کرناٹک کی تازہ ترین فتح، لیڈران و کارکنان کے اندر نیا جوش و خروش، راہل گاندھی کا ایک نہایت منجھے اور سلجھے ہوئے لیڈر کے طور پر ابھرنا، پارٹی کے ہر فرد کا یکجا اور متحد ہونا اور چند مہینوں کے اندر جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ان میں کانگریس کا اچھی پوزیشن میں ہونا وغیرہ۔ اس کے علاوہ مہنگائی، بے روزگاری، مسجد مندر والی نیتی سے عوام کی بیزاری، نو سالوں کی حکومت مخالف لہر، بھاجپا کا گھٹتا ووٹ پرسنٹیج، مودی کا دھندلاتا چہرہ، ای ڈی اور سی بی آئی جیسی تحقیقاتی ایجنسیوں کا غلط اور بے جا استعمال اورتمام اپوزیشن کا گجرات لابی کے خلاف متحد ہونا بھی چند ایسے امور ہیں جو بلا شبہ کانگریس کے حق میں جاتے ہیں اور بی جے پی کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے اب اس بات کا اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ کرناٹک سے کانگریس کی فتح کا دروازہ کھل چکا ہے اور اب یہ ممکنہ طور پر ایک لمبے عرصے تک کھلا ہی رہے گا۔