خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ہر دور میں ظالم اپنے ظلم کو مظلومین پر اس طرح تھوپنے کی کوشش کرتا ہے کہ مظلومین اس ظلم کی بنیاد پر کراہ بھی نہ سکیں اور اگر کراہنے کی کوشش کریں تو اسی کراہ کو ان کا جرم قرار دے دیا جائے, نرسنگھا نند کی ہفوات پر کراہنے والے امانت اللہ خان, اس کی واضح مثال ہیں.
یہ بات درست ہے کہ ایک مسلم کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی, آج جب نرسنگھا نند نے پریس کانفرنس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ ناز میں گستاخی کی تو اس کے گستاخانہ جملوں سے مسلمانوں کے دل چھلنی ہوگیے, نتیجہ میں اپنی بساط کے مطابق عموما علماے کرام اور بعض خانقاہی سجادگان نے اس کے خلاف سیکڑوں میمورنڈم اور ایف آئی آر درج کرائے, جو ان کی اس جرأت مندانہ اقدام پر بین ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے, مگر ان کی اس کوشش و محنت سے اہل حکومت کے کانوں تلے جوں تک نہیں رینگا اور آج تک اس کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور شاید ہوگی بھی نہیں, کیوں نہیں ہوگی یہ قوم مسلم پر دوپہر کے سورج کی طرح بالکل واضح ہے.
اس لیے بروقت اپنی بساط کے مطابق کوشش کے ساتھ ساتھ اگر ہم نرسنگھا نند جیسے بد اخلاق و بد کردار لوگوں کا منھ بند کرنا چاہتے ہیں, کم از کم جمہوریت کے دائرہ میں رہ کر ایسی گھٹیا سوچ رکھنے والوں کو سزا دینا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی آئندہ اس طرح کی بکواس کرنے کے لیے سو نہیں بلکہ ہزار بار سوچے, تو قوم مسلم کو ایمان و عمل اور تعلیمی تقویت کے ساتھ, حکومتی و سیاسی سطح پر مضبوط ہونا پڑے گا, تاکہ قوم مسلم جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں حصہ دار بن سکے اور پھر اسی سے ان جیسے بدزبان لوگوں کا صحیح علاج کیا جاسکے, اگر قوم مسلم نے ایسا نہیں کیا تو ان کی آواز صداے باز گشت ہوکر رہ جائے گی, جیسے آج ہوکر رہ گئی ہے, ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری قوم کی آواز کا کچھ اثر نہیں ہوا, یقینا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا مگر اسلام میں جس جرم کی سزا گردن زدنی ہے, اگر جمہوری ملک میں کم از کم ایسے شخص کی سزا جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ ہو, تو ہماری آواز صداے باز گشت سے کم نہیں, اس لیے اب بھی وقت ہے, قوم مسلم بالخصوص ہر جگہ بعض علما کو بیدار ہوکر سیاست میں بھی قدم جمانا چاہیے ورنہ حکومت ہمیں جدھر چاہے گی ہانک دے گی اور ہماری قوم ایک دوسرے کا منھ تکتی رہ جائے گی.
سیاست کے لیے بھی سب سے بہتر, ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا عالم یا ایک مخلص مسلم ہی ہے, آج اس میدان کو علما کے لیے شجر ممنوعہ غیر تو غیر, اپنے بھی سمجھتے ہیں, مگر ہمارے علما کو اپنے عوام کی یہ سوچ و فکر اپنے بہترین عملی اقدام سے بدلنی ہوگی, سب نہیں مگر کچھ منتخب علما کو ہر جگہ اس میدان میں قدم جمانا ہوگا اور اس کے لیے پولٹکس کی بھی تعلیم حاصل کرنے ہوگی, ہمارے علما سے یہ میدان تقریبا خالی ہے, علما کو یہ خالی میدان اپنے بہترین کردار سے پر کرنا ہوگا, ان شاء اللہ نتیجہ بہتر ہوگا, ہاں یہ یاد رہے کہ دین و ایمان کا سودا کبھی نہیں کرنا ہے اور اگرچہ قربانیان دینی پڑیں پھر بھی ظلم کے خلاف لڑتے ہی رہنا ہے, کیوں کہ:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
قوم مسلم کو اپنی ذاتی رنجش بھول کر کچھ اس طرح کا ماحول بنانا چاہیے:
(١) جہاں مسلم فیصلہ کن ووٹرز کی حیثیت سے ہیں, وہاں کچھ ایسا ماحول بنایا جائے کہ قوم کی فکر رکھنے والا ایک ہی عالم یا سوجھ بوجھ رکھنے والا ایک ہی مسلم تمام مسلمانوں کی بہترین نمائندگی کرے اور تمام مسلمان اسی کو اپنا لیڈر تسلیم کریں اور اسی کو ایک ساتھ ووٹ کریں. یہ کام آسان تو نہیں مگر اتنا مشکل بھی نہیں کہ اسے دسترس سے باہر سمجھا جائے.
(۲) جس جگہ مسلم فیصلہ کن ووٹرز کی حیثیت سے تو نہیں مگر پھر بھی ان کی بڑی تعداد ہے, وہاں پر بھی ایک دور رس عالم یا سوجھ بوجھ رکھنے والا مسلم ہی ان کی لیڈنگ کرے اور تمام مسلمان اس کی آواز پر لبیک کہیں اور ایسا ماحول بنائیں کہ جسے وہ ووٹ دینے کے لیے کہے, اسے ہی سارے لوگ ووٹ دیں, اگر یہ صورت حال رہی تو وہاں کا جو کنڈی ڈیٹ ہوگا, اس سے قوم مسلم کے لیے کام کرانا ایک حد تک آسان ہوسکتا ہے.
(٣) سیکولر اور پس ماندہ غیر مسلموں کو حکمت عملی سے ساتھ لے کر چلنے کی پوری کوشش کی جائے اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ ایک قوم کا درد رکھنے والا عالم یا ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا مسلم آپ کو جو عزت و وقار اور ترقی دلاسکتا ہے, وہ کوئی دوسری قوم آپ کو نہیں دلاسکتی. مگر جب موقع ملے تو اس کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ حکمت عملی سے اس کا واضح مظاہرہ بھی کیا جائے.
لیکن یہ بات ذہن نشیں رہے کہ تقریبا مسلم سماج میں ہر جگہ ایسے کچھ ضمیر فروش موجود ہوتے ہیں, جو اپنی ذاتی رنجش یا اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہمیشہ غیروں کے ہاتھوں بکنے کے لیے اور پوری قوم مسلم کی پیٹھ میں چھرا پیوست کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور یہ وہ ہیں جو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی کا بھی تلوہ چاٹ سکتے ہیں, اس حد تک کہ شاید ایک مخلص عالم یا ایک صالح فکر رکھنے والا مسلم, اس کا اندازہ نہ لگاسکے, لیکن دور رس ہوگا تو ان شاء اللہ ضرور اندازہ لگا لے گا اور پھر اسی کے مطابق اقدام کرے گا. اسی طرح علماے سوء بھی عام طور سے ہر جگہ پائے جاتے ہیں, یہ آپ کے سامنے کچھ کہیں گے اور پھر پیٹھ پیچھے آپ ہی کو زیر کرنے کی پوری قوت لگادیں گے یا آپ کو آگے کردیں گے اور پیچھے سے کھسک لیں گے یا خود سامنے نہیں آئیں گے مگر آپ کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلانے کی پوری کوشش کریں گے, یعنی ذو الوجھین ان کا طرہ امتیاز ہوتا ہے اور یہ جان لیں کہ جس عالم کا بھی یہ کردار ہے, وہ کبھی بھی قوم کے لیے بھلا ثابت نہیں ہوسکتا. قوم مسلم اور مسلم لیڈران کو ایسے علماے سوء سے بھی بچ کر رہنے کی ضرورت ہے کہ یہ خود تو ڈوبیں گے اور پوری قوم کو بھی لے ڈوبیں گے. بہر حال ان سے اور اس طرح کی دیگر چیزوں سے بچ کر یا ان کا مقابلہ کرکے بعض صالح علماے کرام اور قوم مسلم کو سیاست کرنا ہی ہوگا, کیوں کہ:
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ایک اور نیک ہوجاؤ, اپنے ذاتی معاملات کو پس پشت ڈال دو, اپنے تحفظات کے ساتھ تمام مسلمان بنام مسلمان اکٹھا ہوجاؤ اور فرد کے بجاے جماعتی مفاد کو فوقیت دو, ان شاء اللہ تمہیں کامیاب رہوگے, و گرنہ:
نہ سدھروگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
از قلم: ابو عاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری غفرلہ
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ, اوجھاگنج, بستی, یو پی.
٦/ رمضان المبارک ١٤٤٢ھ مطابق ١٦/ اپریل ۲۰۲١ء