معاشرے میں اخلاقی قدروں کا زوال اور اس کا حل

معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے، جہاں مختلف رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے ماننے والے ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں،کسی بھی معاشرے کی ترقی اور پستی کا انحصار اس میں رہنے والے افراد کی تعلیم و تہذیب اور اخلاقی قدروں پر ہوتا ہے، جب تک معاشرے میں اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے، اس وقت تک معاشرہ ترقی کی شاہراہوں پر گامزن رہتا ہے، معاشرے میں امن وامان اور باہم محبت و مودت برقرار رہتی ہے لیکن اخلاقی قدروں کے زوال کے بعد معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے،   معاشرے میں رشوت، سود خوری، بدعنوانی،ظلم و ستم اور ناانصافی فروغ پانے لگتی ہیں اور باہم حسد، کینہ، جھوٹ، غیبت اورچغلی سے معاشرہ آلودہ ہو جاتا ہے، ہر شخص میں خود غرضی اور مفاد پرستی کا عفریت موجیں مارنے لگتا ہے ۔ 

دور حاضر میں اگر معاشرے پر سرسری نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ ایسا کون سا گناہ ہے جو ہمارے معاشرے میں عام نہیں، ہر شخص دوسرے کے خون کا پیاسا ہے، یہاں تک کہ ایک سگا بھائی دوسرے بھائی کی ترقی کو نہیں دیکھ سکتا، اور  اس کی کامیابی کو اپنے لیے باعث شرم و عار سمجھتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے ہر طرح کی شیطانی چالیں چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ہمارے پڑوسی ہمارے بغل میں رہ کر غربت و افلاس سے نہ جانے کتنی صعوبتیں جھیلتے ہیں، لیکن  بحیثیت پڑوسی اس کی خیریت دریافت کرنے، اور اس کی مدد کرنے میں بھی ہم اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں اور اگر اسے کبھی کچھ دینا بھی ہوتا ہے تو ہم اس کی عزت نفس کو مجروح کرکے دیتے ہیں،مدد کرکے جتاتے ہیں، اس سے اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہو رہا ہے، اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی جوان لڑکیاں غربت کے باعث اپنے باپ کے گھر گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں، کیوں کہ نوجوانوں اور لڑکے والوں نے نکاح کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ کسی غریب کی بٹیا کا گھر آسانی سے نہیں بس سکتا ، لہذا نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نکاح کو آسان بنائیں، جہیز کی رسم کو ختم کریں،تاکہ غریب و مفلس بچیاں بھی اچھی اور پر سکون زندگی گزار سکیں، 

لیکن کیا ہم اس بات کا خیال کرتے ہیں، کیا ہم جہیز جیسی رسم کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ ہمیں نہ اس کا خیال ہے اور نہ ہی افسوس،بلکہ ہم اپنی بیٹیوں کی شادیوں میں لاکھوں روپے تو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں،کیا ایک مسلمان اور مالدار ہونے کے ناطے ہمارے امراء کا یہ فریضہ نہیں بنتا؟ کہ ان بے بس و لاچار بچیوں کا سہارا بنیں، در اصل ہم اپنی اخلاقی قدروں کو بلند کرنے کے بارے میں  سوچتے ہی نہیں۔ 

دوست ،احباب اور رشتے داروں کی خبرگیری کرنا ہم سے رخصت ہوتا جا رہا ہے، ہم اپنے مومن بھائی سے ملنا نہیں چاہتے اگر ملاقات کرتے بھی ہیں تو چہرے پر منافقانہ مسکراہٹ اور دل میں حسد ، کینہ ، بغض و عداوت کے ساتھ، جب کہ ہمارا اخلاق یہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر ایک سے کشادہ روئی سے ملیں، خیریت پوچھیں اور ان کی دلجوئی کریں لیکن اگر ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ ہم اخلاقی طور پر نہایت ہی پست اور کمزور ہو چکے ہیں،

معذرت کے ساتھ میں اپنی یہ بات رکھ رہا ہوں کہ اب تو ہمارا حال یہ ہے کہ کل تک جو اغیار ہمارے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ہم سے قریب ہوتے تھے، پھر رفتہ رفتہ ہماری نرم گوئی اور متانت و سنجیدگی سے ہمارے مقدس مذہب سے وابستہ ہو کر اسلام کی  پناہ میں آجایا کرتے تھے، آج وہی ہماری بد اخلاقیوں اور ہمارے معاشرے میں باہم انتشار اور تناؤ کے پیش نظر ہم سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں، 

مختصر یہ کہ معاشرے سے اعلیٰ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہوتی جارہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ  ہمارا معاشرہ اور ہماری قوم عروج و ارتقاء کے منازل سے انحطاط و پستی کی طرف تیزی سے گامزن ہے،جس نے آج ہمیں تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا  ہے۔ 

یہ صرف ہمارا خیال نہیں،بلکہ قوموں کی  تاریخ پر نظر رکھنے والا عظیم مسلم مفکر ابن خلدون بھی ہمارے اس نقطہ نظر کی تصدیق کرتا ہے ، وہ اپنی شہرہ آفاق کتاب مقدمہ ابن خلدون میں لکھتا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ 

ابن خلدون نے جو بات کہی اس کے تناظر میں آج کے حقائق بالکل درست ثابت ہو رہے ہیں ،چنانچہ ارباب علم و دانش کا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عصرِ حاضر میں وہی قومیں  عروج و ترقی سے ہم آہنگ ہیں جو اخلاقی قدروں میں مثالي رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ 

اس زاویہ نظر سے ہمارا معاشرہ جو ترقی کے دوڈ میں سب سے پیچھے ہے،  وہ  اخلاقی قدروں  کی پابندی کے معاملے میں بھی بد ترین انحطاط کا شکار ہے۔

لہٰذا ترقی کی دوڑ میں اپنے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہمیں معاشرے میں اخلاقی روایات پر مضبوطی سے قائم رہنا ہوگا، اخلاقی قدروں کو پامال ہونے سے بچانا ہوگا ، ان کی پاسداری کرنی ہوگی، اور اس کے نقصان کا مناسب اور زود اثر حل تلاش کرنا ہوگا۔ 

اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں کسی دنیاوی مفکر و مدبر کے پاس جانے کی ہرگز ضرورت نہیں بلکہ کلامِ الٰہی قرآن مجید جو قیامت تک کے لیے ہمارا مشعل راہ ہے اور قدم قدم پر دنیا و آخرت کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے الحمد للہ اس مسئلہ میں بھی ہمارا بہترین قائد اور رہنما ثابت ہوگا،بس شرط یہ ہے کہ ہمیں قرآن کو کما حقہ پڑھ کر سمجھنا ہوگا، وہ جس بھی راستے کا اشارہ کرے ہمیں مضبوط اور محتاط ہوکر اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا ، لہذا معاشرے میں اخلاقی قدروں کو اجاگر کرنے کے لیے ہمیں قرآن کو پڑھنا ہوگا اور جب ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو قرآن ہمیں ایسی ذات کی بارگاہ میں رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے ، جس کی ذات با برکات سر چشمہ اخلاق و محبت ہے، جو سراپا پیکرِ ہدایت ہیں وہ ہے اللہ کے محبوبﷺ، تو ہمیں حضورﷺ کے اخلاق و کردار کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا ، آپ کے اوصاف جمیلہ اور اخلاق حمیدہ کو اپنی زندگی میں داخل کرنا ہوگا ، حضورﷺ کا اخلاق و کردار کس قدر بلند و بالا ہے. آئیے ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے


وَ  اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ ، (سورة القلم68،أيت 4) 
اور بیشک تمہاری خُو بُو (خُلق) بڑی شان کی ہے، (کنزالایمان)

ایک دوسرے مقام پر اللہ تبارک وتعالی حضور علیہ السلام کے اخلاق کریمانہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے،

"فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ" (سورہ آل عمران 3،آیت 159) 
ترجمہ :کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے، (کنزالایمان) یعنی آپ سے دور بھاگ جاتے، 

معزز قارئین! 
              آپ جانتے ہیں کہ وہاں اشاعت اسلام اور تبلیغ دین متین کی بات تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ اسی طرح معاشرے میں بھی اگر ہم باہم محبت و مودت کا سماں پیدا کرنا چاہتے ہوں تو سب سے پہلے ہمیں حضور ﷺ کی عادات مبارکہ کو عملی زیور سے آراستہ کرنا ہوگا، ترش مزاجی اور سختی کو اپنے اندر سے ختم کرنا ہوگا، اپنے آپ کو بااخلاق کرنا ہوگا ، اور یہی در حقیقت اخلاقی اقدار ہیں جن کی ہمیں حفاظت کرنی ہے اور معاشرے کو ایک بڑے فساد سے بچانا ہے۔ 


اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں۔ 

بعثت لأتمم مكارم الأخلاق.السنن الکبری للبیہقی۔
یعنی مجھے  مکارم  اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ 

مکارم اخلاق کیا ہے؟ اخلاق کی بلندی کیا ہوتی ہے، جب ہم حضور ﷺ کی پوری حیات مبارکہ کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق کی بلندی یہ ہے کہ جو ہم سے کٹ جائیں، ہم ان کے ساتھ تعلق استوار کریں، جو قطع تعلق کریں ان سے صلہ رحمی کریں ہیں ، جو ہمارے حقوق تلف  کریں ، ہم ان کے حقوق کی ادائیگی میں لگ جائیں، جو ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کرے ہم اس کے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ کریں، اخلاق و کردار کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ مختصر سا خاکہ ہے جو معاشرے کو فسادات کے دلدل میں جانے سے روکنے میں بیحد معاون ہے،
اور ایک دوسرے مقام پر حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ 

عن عبدالله بن عمرو: قالَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ: إنَّ مِن أخْيَرِكُمْ أحْسَنَكُمْ خُلُقًا. (صحيح البخاري،حدیث نمبر 6029)
بے شک تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو تم میں عادت کے لحاظ سے بہتر ہو،

 تو پتہ چلا کہ معاشرے کو اخلاقی قدروں  کے زوال سے بچانے کے لیے ہمیں حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے ارشادات و توجیہات پر مکمل طور پر عمل کرنا ہوگا  اور بلا شبہہ  آپ علیہ السلام کے فرمودات ہی معاشرے میں جراثيم کی مانند پھیلی برائیوں کی روک تھام اور اس کے سد باب کے لیے حل کے طور پر کافی ہیں۔

اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولی ہمیں اسلامی اخلاقی اقدار پر مضبوطی سے کاربند رکھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

 آمین یارب العالمین۔ 

محمد احمد حسن  امجدی۔ 
ریسرچ اسکالر۔ البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔ 
8840061391

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter