اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بر یلو ی رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول(2)

آپ کی محبت یہ گو ارا نہیں کر تی کہ خدا تعالیٰ کے ذکر سے اس کے محبوب گر امی کے ذکر کو جدا کر دیا جائے ۔خود خدا بھی یہی چا ہتا ہے ’’اذاذکرت ذکرت معی ‘‘یعنی اے محبوب !جہا ں میرا ذکر ہو گا وہا ں تیرا ذکر ہو گا اسی حد یث کو سامنے رکھ کر فر ما تے ہیں :
  ذکر خدا جو ان سے جدا چا ہو نجد یو ٭واللہ ذکر حق نہیں ،کنجی سقر کی ہے 
 اسی طر ح آپ نے حضور ﷺ کے میلا د پاک کے جواز پر زبر دست دلا ئل دیے کہ یہ ذکر محبو ب کی بہتر ین صورت ہے ،آپ کا رسالہ ’’اقامتہ القیامہ ‘‘اسی مو ضو ع پہ لکھا گیا ہے ۔انعقاد میلاد پر آپ کا عزم دیکھئے ۔


  حشر تک ڈا لیں گے ہم پیدا ئش مو لا کی دھوم ٭مثل فا رس نجدکے قعلے گر اتے جا ئیں گے 

        (مجد د الف ثانی اور امام احمد رضا بر یلوی ،ص ۱۶۳ )
 ’’بو جہ اطلاق آیا ت حضور اقدس ﷺ کی تعظیم جس طر یقہ سے کی جائے گی حسن ومحمود رہے گی ۔اور خا ص خاص طر یقوں کے لیے ثبو ت جدا گا نہ در کا ر نہ ہو گا ۔نبی ﷺکی تعظیم تمام اقسام تعظیم کے ساتھ جن میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ الو ہیت میں شر یک کر نا نہ ہو ۔ہر طر ح امر مستحسن ہے ۔ان کے نزدیک جن کی آنکھو ں کو اللہ تعالیٰ نے نور بخشا ہے ۔‘‘با رگا ہ رسالت پنا ہ ﷺکے آدب لکھتے ہیں :جب حرم محتر م مد ینہ میں دا خل ہو احسن یہ ہے کہ سواری سے اترپڑ ے ،سر جھکا ئے آنکھیں نیچی کیے چلے ،ہو سکے بر ہنہ پا ئی بہتر بلکہ :


  جا ئے سراست اینکہ تو پا می نہی ٭پا ئے  نہ  بینی  کہ  کجا  می نہی 


 ’’جب در اقدس پر حا ضر ہو،صلوٰۃ وسلام عر ض کر کے قدرے توقف کر ے گو یا سر کار ﷺ سے اذن حضوری کا طالب ہے ۔اس وقت جو ،ادب و تعظیم واجب ہے مسلمان کا قلب خودواقف ہے ۔زنہا ر زنہار اس مسجد اقدس میں کو ئی حر ف چلا کر نہ کہے ۔یقین جان کہ وہ مزار اطہر وانوار میں بحیات ظاہر ی دنیا وی حقیقی ویسے ہی زندہ ہیں جیسے پیش از وفات تھے ۔ائمہ دین فر ماتے ہیں حضور ﷺ ہما رے ایک ایک قول وفعل بلکہ دل کے خطروں پر مطلع ہیں ۔ایک جگہ فر ماتے ہیں :


  شر ک ٹھہر ے جس میں تعظیم حبیب ﷺ٭اس  بر ے  مذہب  پہ لعنت کیجیے 


 اعلیٰ حضرت بر یلوی قدس سر ہ بھی حضور جان رحمت ﷺ کے نا م نامی پہ انگو ٹھے چوم کر آنکھو ں پہ لگا تے تھے ۔
        (مجدد الف ثا نی اور امام احمد رضا بر یلوی ،ص ۱۷۳)
 آپ نے محبوب کا ئنات کے رخ زیبا کا نقشہ صر ف ایک شعر میں ایسا کھینچا کہ وہ حروف مقطعات کو جمال مصطفیٰ کا آئینہ بنا دیا ۔لکھتے ہیں :


  ک گیسو  ہ دہن ، ی ابرو آنکھیں ع ص ٭کٓھٰیٰعٓصٓ ان کا ہے چہر ہ نو رکا  


 آپ کے دل میں حضور کی محبت اس طرح رچ بس گئی ہے کہ مد ینہ طیبہ سے منسوب ہرہر چیز سے غا یت درجہ محبت فر ماتے ہیں خواہ سگان مد ینہ ہی کیو ں نہ ہو خو دہی فر ماتے ہیں ۔


  پارۂ د ل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رضا ٭ان سگان کو سے اتنی جان پیا ری واہ واہ


 رسول اللہ ﷺ کے اس جاں نثا رووفادار غلام کے خلاف معاند ین نے محاذ آرائی کی ،ان پر طرح طر ح کے نارواالزام عائد کیے ،لیکن اس مرد حق آگاہ نے ان الزام تراشیوں کے خلاف کسی قسم کی جو ابی کا رروائی سے خود کو دور رکھا ۔البتہ جب کسی نے ایسا جملہ کہا جس سے ناموس رسالت پر ہلکی سے بھی آنچ آتی ہو ئی محسوس ہو ئی تو یہ غلام صادق تلملا جا تا اور فوراًلو ح قلم کا سہارالے کر شاتمان رسول کے خلاف صف بندی کر کے ان کی بے ہو دہ گو ئی وہر زہ سرائی کا معقول ومدلل دندان شکن جواب دیتا ،وہ اپنا دفاع نہ کر تے اپنی محبت کی آبروسلامت رکھتے وہ خود رقم طراز ہیں ’’واللہ العظیم وہ بندۂ خدا بخوشی راضی ہے اگر یہ دشنا می حضرات بھی اس کے بد لے پہ راضی ہو ں کہ وہ اللہ ورسول کی جناب میں گستا خی سے با زآئیں اور یہ شر ط لگا لیں کہ روز انہ اس بندہ خدا کو پچاس ہزار مغلظہ گا لیا ں سنا ئیں اور لکھ لکھ کر شا ئع فر ما ئیں ،اگر اس قدر پہ بھی پیٹ نہ بھر ے اور محمد رسول اللہ ﷺکی گستا خی سے باز رہنا اس شرط پر مشروط ہے کہ اس بندہ خدا کے ساتھ ،اس کے باپ ،دادا، اکا بر، علما قدست اسرارہم کو گا لیاں دیں تو ایں ہم بر علم اے خو شا نصیب !اس کا کہ اس کی آبرو ،اس کے آبا ء واجدا د کی آبرو بد گو یو ں کی بد زبانی سے محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے سپر ہو جا ئے ۔یہی وہ ہے کہ بد گو حضرات اس بند ۂ خدا پر کیا کیا طوفان بہتان ،اس کے ذاتی معاملات میں اٹھا ئے ہیں ،اخبار وں ،اشتہا روں میں طر ح طرح کی گڑ ھتیوں سے کیا کیا خا کے اڑا ئے ہیں مگر وہ اصلاً قطعاً التفات نہ کر تا ،نہ جواب دیتا ،وہ سمجھا ہے کہ جو وقت مجھے اس لیے عطا ہوا کہ بعونہ تعالیٰ عزت محمد رسول اللہ ﷺ کی حما یت کر وں ،حا شا کہ اسے اپنی ذاتی حما یت میں ضا ئع ہو نے دو ں ،اچھا ہے کہ جتنی دیر مجھے بر ا کہتے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی بد گو یو ں سے غا فل رہتے ہیں ۔


  فان ابی ووالدی وعر ضی ٭لعرض محمد منکم وفا ء


 شیفتگی ووارفنگی کا جو مزاج و منہا ج ہمیں فا ضل بر یلوی کی حیا ت کے حوالے سے تا ریخ کے اوراق میں ملتا ہے اس عہد صحا بہ کی یاد تا زہ ہو جا تی ہے ۔ملک العلما ء حضرت علامہ سید ظفر الدین بہا ری ’’حیا ت اعلیٰ حضرت ‘‘میں تحریر فر ما تے ہیں :
 جب کو ئی صاحب حج بیت اللہ شر یف کر کے خدمت میں حا ضر ہو تے ،پہلا سوال یہی ہو تا کہ سر کار میں حا ضر ی دی ؟اگر اثبات میں جواب ملا تو فوراً ان کے قدم چوم لیتے اور اگر نفی میں جواب ملا پھر مطلق مخا طب نہ فر ما تے ۔ایک با رایک حا جی صاحب حا ضر ہو ئے ،چنا نچہ حسب عادت کر یمہ یہی استفسا ر ہو اکہ سر کار میں حا ضر ی ہو ئی ،وہ آبدید ہ ہو کر عرض کر تے ہیں ہا ں حضور ! مگر صرف دوروز قیام رہا ،آپ نے فوراً قدم بو سی فر ما ئی اور ارشاد فر ما یا :’’وہا ں کی سانسیں بھی بہت ہیں ،آپ نے تو بحمد للہ دودن قیام فر مایا ۔‘‘


  بے نشا نو ں کا نشا ں مٹتا نہیں ٭مٹتے مٹتے نا م ہو ہی جا ئے گا 


 امام احمد رضا نے عشق جمال مصطفیٰ علیہ التحیتہ والثنا ء کی شمع پر خود کو پر وانہ وارنثا ر کر دیا اور اس جذبۂ جا ں نثا ری میں خود کو بے نام ونشا ن بنا دیا ،لیکن جو شمع پر خود کو نثا ر کر دیتا ہے وہ خود شمع کا ایک روشن حصہ بن کر تا ریکی میںروشنی کا سامان فر اہم کر نے لگتا ہے اور پھر مٹتے مٹتے نام ہو ہی جا تا ہے ،آج ملک وبیر ون ملک میں امام احمد رضا کی زند گی کے روشن وتا بناک گو شو ں پہ عصر ی جا معات میں تحقیق کے دروازے کھل چکے ہیں ۔مخا لفین ومعا ند ین نے منصو بہ بند یو ں کے سا تھ ان کے خلاف تحر یک چلا ئی اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ،من گڑ ھت با تیں منسوب کیں ،ان کی شخصی وعلمی وجا ہت کو پروپیگنڈ وں کے زور پہ مسخ کر نے کی کو شش کی ان کی کر ادار کشی کی لیکن ۔۔
الٹی ہو گئیں سب تد بیر یں کچھ نہ دوا نے کا م کیا  (ماہ نا مہ جام نور ،دہلی ،اپریل ۲۰۰۶ ء،ص ۵۶؍۵۷مضمون:ملک الظفرسہسرامی)
 عشق رسول علیہ التحیتہ والثنا ء امام احمد رضا فا ضل بر یلوی قد س سر ہ کی زند گی کا مر کز ی نقطہ تھا ،ان کے شب وروز کا تجز یا تی مطا لعہ کر نے والو ں پر یہ گو شہ روز روشن کی طر ح عیا ں ہے کہ یہ عنوان سید ی فا ضل بر یلوی کی حیا ت کا کا رنا مہ بنا ،آپ کی اس وارفتگی شیفتگی اور عشق سحر خیزی کا اقرارواعتراف تو ان کے سخت سے سخت تر مخا لف کو بھی رہا، جبھی تو وہ یہ اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکے ،’’حقیقت میں جسے لوگ امام احمد رضا کا تشد د قرارد یتے ہیں وہ بار گا ہ رسالت میں ان کے ادب واحتیاط کی روش کا نتیجہ ہے ‘‘۔
 (مو لا نا اشرف علی تھا نو ی راوی مو لانا مفتی محمد شفیع دیو بند ی بحوالہ امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت ،کو ثر نیا زی )
 امام احمد رضا خا ں کی بخشش تو انہیں فتوئو ں کے سبب ہو جائے گی ،اللہ تعالیٰ فر ما ئے گا ’’احمد رضا !تمہیں ہما رے رسول سے اتنی محبت تھی کہ بڑ ے بڑے عالمو ں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا ‘‘(بیان مو لانا ادریس کا ند ھلوی ،راوی مولانا کوثر نیا زی )                      (ماہ نا مہ جام نور ،دہلی ،اپر یل ۲۰۰۶ ء ص۵۶،)
 اعلیٰ حضرت فاضل بر یلو ی کے عشق رسول کے حوالے سے اہل سنت وجما عت کے بے باک مقرر وخطیب اور مصنف حضرت علامہ عبد الستا ہمدا نی مد ظلہ العالی لکھتے ہیں :’’لا تر فعو ااصواتکم فوق صوت النبی ‘‘سے با رگا ہ رسالت کا ادب سیکھا اور سیکھا یا ۔لب کشائی کی جرأ ت کر نے والو ں کو ’’ان تحبط اعما لکم ‘‘کی وعید صر یح سے ڈرا یا ’’لا تقد مو ا بین یدی اللہ ورسولہ ‘‘سے حدود ادب کا خط استوا ء کھینچا ۔’’ینا دونک من وراء الحجرات ‘‘سے با رگا ہ رسالت کا ادب کا خط واحترام با ور کرایا ۔’’ولا تجھر والہ با لقول کجھر بعضکم لبعض ‘‘سے مقام رسالت کی بلندی ثابت کر کے ’’ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ ‘‘کا عالمگیر پیغام دیا ’’النبی اولیٰ با لمؤ منین من انفسھم ‘‘کا صحیح مفہوم اخذ کر کے ’’ایما ن یہ کہتا ہے میر ی جان ہیں یہ ‘‘کا ایمان افروز درس دیا وہ عاشق رسول تھا ،عشق رسول میں دیو انہ تھا ۔لیکن ایسا فرزانہ تھا کہ ’’سجد ے کو دل ہے بے قرار ‘‘کے جوش جوں پر اس نے ’’رو کیے سر کو رو کیے ‘‘سے ہوش حدود کی لگام لگا کر ہا ں یہی امتحان ہے ‘‘کہہ کر پاس شر یعت ملحوظ رکھا اور غلو سے محفوظ رہا ۔اپنی محبت کے جذبے کو اس نے جوش الفت اور ہوش شر یعت کی سر حدو ں کے ما بین محدود رکھا اور یہاں تک فر مایا کہ ’’اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ ‘‘’’کلھم یطلبون رضا ئی وانا اطلب رضا ک ‘‘کی تر جما نی ایسے انداز میں کی کہ ۔


  خدا کی رضا چا ہتے ہیں دو عالم ٭خدا چا ہتا ہے رضا ئے محمد ﷺ


 عشق رسول اس کے دل کی دھڑ کن ،اس کی حیا ت کا واحد سبب ومقصد تھا اس کے جسم کا ہر ہر رونگٹا محو عشق رسول وثنا ئے رسول تھا اس کی آنکھوں میں صر ف عشق رسول کے جلو ے سما ئے ہو ئے تھے ،وہ زندہ تھا صرف روح عشق رسول کے سبب اس کی زند گی کا مقصد پر چم عظمت رسالت کو لہرانا اور موت کی خواہش بھی دیدار رخ انور ﷺکا شرف حا صل کر نے کے لیےتھی ۔


  جا ن   دے   دو   وعدۂ   دیدار   پر ٭  نقد  اپنا  دام  ہو   ہی    جا ئے  گا  
 اور              قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور  کے ٭جلوہ فر ما ہو گی جب طلعت رسول اللہ کی 


 یہ صدا ئے دل اس کی آرزو اور تمنا کی نشا ندہی کر رہی تھی ۔دیا ر نبی کے مقا بل جنت کی فضا بھی جس کا دل بہلا نہ سکے اور وہ مضطرب ہو کر یو ں پکار اٹھے کہ ۔


   جنت کو حرم سمجھا آتے تو یہا ں آیا ٭اب تک کے ہر ایک کا منہ کہتا ہو ں کہا ں آیا 


 بلکہ مد ینہ سے بچھڑ کر جینا اور جی لینے کا تصور ہی اس کے لیے جان لیو اتھا کیو نکہ 


   طیبہ سے ہم آتے ہیں کہئے جو جنا ں والو ٭کیا دیکھ کے جیتا ہے جووہا ں سے یہا ں آیا 


 اپنے آقا کا مقد س آستانہ جس کے لیے جا ئے قرار ،جا ئے پنا ہ جا ئے سکون ،جا ئے امن وامان تھا ۔’’ولوانھم اذظلمواانفسھم فاستغفرواللہ ‘‘ہی سے اس نے ببا نگ دہنگ یہ کہا کہ ۔


   وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا ٭ہمیں بھیک ما نگنے کو تیرا آستا ں بتا یا 


 اسی درسے اس نے سب کچھ پا یا ۔پو ری کا ئنات اسی در سے تو پل رہی ہے ۔اسی در مقدس کی یا دنے اسے ہر لمحہ بے چین وبے قراربنا رکھا تھا ۔


   جان ودل ہوش وخرد ،سب تو مد ینہ پہنچے ٭تم نہیں چلتے رضا ساراتو سامان گیا 


 یہا ں اس کے لیے سب کچھ تھا ۔کا ئنا ت کی سب سے محبوب تر ین ،سب سے بلند درجہ زمین کا وہ حصہ جہا ں پر آقاومولیٰ ﷺ کی تقدس مآب آرا مگا ہ ہے ،اس مقدس حصے نے پو ری زمین کو شرف بخشا ۔


   خم ہو گئی پشت فلک اس طعن زمیں سے ٭سن ہم پہ مد ینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا


 یہاں پر وہ مچل مچل کر رویا ،یہاں سے وطن واپس جا نے کا خیا ل تک اس کے لیے نا قابل برداشت تھا ۔


   یہ رائے کیا تھی وہا ں سے پلٹنے کی اے نفس ٭ستم گر الٹی چھری سے ہمیں  حلا ل کیا 
  اور یہ کہ ۔ہو  گیا  دھک   سے   کلیجا     میرا ٭ہا ئے  رخصت  کی   سنا نے    والے 


یہیں پر اسے پڑا رہنا تھا ،چا ہے اپا ہچ بن کر پڑا رہنا پڑ ے ۔یہ نا توانی بھی محبوب ومقبول ہے ۔یہ نا توانی کا ش سبب بن جائے دا ئمی طور پر یہاں ٹھہر جا نے کا ۔اسی لیے تو کہا تھا کہ ۔


  اسی در پر تڑ پتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں ٭اٹھا جا تا نہیں کیا خوب اپنی نا توانی ہے

 
 اپنے آقا کا دیا را سے اتنا محبوب تھا کہ اس مقدس سر زمین ورفعت کو ملحوظ رکھتے ہو ئے وہ پکا ر اٹھا کہ ۔


  حر م  کی  زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ٭ارے  سر کا مو قع ہے او جا نے والے 


 اپنے آقا کے مقدس شہر کی گلیوں کا اپنے آپ گدا کہنے کے ساتھ ساتھ شا ہا ن دنیا کو بھی اس در مقدس کا منگتا قرارد یتے ہو ئے وہ گنگنا اٹھا کہ 


  اس گلی کا  گدا  ہو  میں   جس  میں ٭  ما نگتے  تا جدار  پھر  تے  ہیں 


 مد ینہ منو رہ کا ذرہ ذرہ اس کے لیے جاں افزا ،اور روح پر ور تھا ،یہا ں کی ہر شئے اس کے لیے محبوب ،محترم ،معظم ،مخد وم اور قر بان ہو نے کے لا ئق تھی ۔ارے !وہ تو اپنے آقا کے مقدس بلد کے سگان در کی خد مت میں اپنے دل کا ٹکڑ ا بطور تحفہ پیش کر نے کے لیے ہمیشہ آرز ومند رہا اور یہا ں تک کہا ۔


  پا رۂ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رضا ٭ان سگا ن کو سے اتنی جان پیا ری واہ واہ 


 بلکہ وہ دل کے ٹکڑ ے سگان در محبوب کی نذر لا ئے ہو ے یہا ں تک کہتا ہے کہ ۔


  دل کے ٹکڑ ے نذر حا ضر لا ئے ہیں ٭اے  سگان  کو چۂ  دلدار  ہم 


 اور ایک مقام پر تو یہاں تک اظہار محبت کر تے ہو ئے کہا کہ ۔


  رضا کسی سگ طیبہ کے پا ئو ں بھی چو مے ٭تم  اور  آہ  کہ اتنا دما غ لے کے چلے 


 وہ عشق کی اعلیٰ وارفع منزل پر پہنچ چکا تھا ۔اس منز ل پر پہنچنے کے بعد ہر عاشق کی یہی تمنا ہو تی ہے کہ ۔


  نصیب دوستاں گران کے در پر موت آنی ہے ٭خدا یو ں ہی کر ے پھر تو ہمیشہ زند گا نی ہے 


 یقینا یہاں پر مر نے والے کے لیے حیات جا ودانی اور دخول جنت دائمی ہے اور یہ سعادت حا صل کر نے کے لیے طیبہ میں مر جا نے کا جذبہ اور ولو لہ اس انداز سے بیان کیا کہ ۔


  طیبہ میں مر کے ٹھنڈ ے چلے جا ئو آ نکھیں بند ٭سید ھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے 


 اپنے آقا دومو لیٰ ﷺ کی شان اقدس میں عشق کے مہکتے پھو ل کھلا تے رہنا ہی اس کے قلب کا سکون تھا ۔یا د محبوب میں وہ اتنا بے چین وبے قرار تھا کہ اس کی حیا ت اسی پر منحصر تھی ۔


  جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کر ے خدا ٭جس کو ہودرد کا مزہ  نا ز دوا اٹھا ئے کیو ں 

 رضا کے نیز ے کی مار کا زخم کبھی بھرا ہے ،نہ کبھی بھر ے گا ،کیو نکہ اس نے اپنے ذاتی دشمنوں پر کبھی بھی وار نہیں کیا ،بلکہ اپنے ذاتی دشمنوں کو تو اس نے دعا ئیں دی اور ان کی ہدایت کے لیے با رگا ہ خدا وند ی میں سر بسجود ہو کر التجا ئیں کیں اور یہاں تک کہا کہ ۔


  حسد سے ان کے سینے پاک کر دے ٭عبث ان کے دل میں غل ہے یا غوث 
 اور     کر دو عدو کو تبا ہ حا سدوں  کو رو سیاہ ٭  اھل ولا کا بھلا تم پہ  کروڑوں  درود 


 البتہ !دشمن رسول کو کبھی نہیں بخشا ۔نہ اس کی کو ئی رعایت کی ’’الحب للہ والبغض للہ ‘‘کی زندہ نظیر با رگا ہ رسا لت کے گستا خوں پر وہ قہر کی بجلی کی ما نند ٹوٹ پڑا اور یہا ں تک کہا کہ ۔


  ذکر  ان کا  چھڑیے  ہر  بات  میں ٭چھیڑنا  شیطاں  کا  عا دت  کیجیے 


 حق اور با طل کی قلمی جنگ میں اس نے با طلوں کو دلیر ی سے للکارا۔


  شر ک ٹھہر ے جس میں تعظیم حبیب ٭اس بر ے مذہب پہ لعنت کیجیے

 
  با طل طا قتوں کے سامنے وہ تن تنہا مقابل تھا ۔وہ صرف ایک تھا ۔مخا لفین کی تعداد کثیر تھی ۔اعدائے دین ،حا سدین اور نفس پر ور عنا صر اس کے مقابلے متحد تھے ۔لیکن وہ یہ کہہ کر ۔


  اک  طر ف اعداے  دیں اک طر ف حاسدیں ٭بندہ ہے تنہا شہا تم پہ کروڑوں درود 


 اپنے آقا کی بارگا ہ میں استغاثہ کر تا تھا اور اپنے آقاومو لیٰ کی اعانت پر اتنا مشتاق تھا کہ زبان حال سے یہ کہتا تھا کہ ۔


    پلہ ہلکا ہی سہی بھا ری ہے بھروسہ تیرا  


 دنیا دارو ںنے اس کے خلاف ایک منظم محا ذتشکیل دیا تھا اور اس کو نیست ونا بود کر نے کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن اسے اپنے آقا و مو لیٰ کی پشت پنا ہی اور دستگیری پر کا مل یقین واعتماد تھا جس کا اظہار کر تے ہو ئے ہی اس نے کہا کہ ۔


   کیسے  آقائو ں  کا بندہ  ہو ں  رضا ٭بول  با لے  میر ی  سر کا روں  کے 


 مخا لفین کو اہل دول وثروت کا تعاون حا صل تھا ،حکومت کی پشت پنا ہی میسر تھی ۔سیا سی جما عتوں کی حما یت شا مل حا ل تھی ۔اس کے با وجود اس کا بال بیکا تک نہ ہوا ۔وہ ان اہل دول وثروت وصاحب اقتدار کے سامنے کبھی نہیں جھکا ،نہ ان کی مدح وثنا ئی کی بلکہ ،
 کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میر ی بلا ٭میں گدا ہوں اپنے کر یم کا میرا دین پا رۂ ناں نہیں 
 کہہ کر دنیا کو اعتراف کرادیا کہ ۔
  ان کا منگتا پا ئوں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاج ٭جس کی خاطر مر گئے منعم رگڑ کر ایڑیا ں 


        (امام احمد رضا :ایک مظلوم مفکر ،ص ۱۹؍۲۵)
 ایک دفعہ حضرت صدرالا فا ضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبا دی نے عر ض کیا کہ حضور کی کتا بوں میں وہا بیوں ،دیوبند یو ں اور غیر مقلد وں کے عقائد با طلہ کا رد ایسے سخت الفاظ میں ہوا کر تا ہے کہ آج کل جو تہذیب کے مد عی ہیں وہ چند سطر یں دیکھتے ہیں ،بیزار ہو جا تے ہیں ،اس طر ح وہ حضرت کے دلا ئل وبراہین کو بھی نہیںدیکھ پاتے اور ہدایت سے محروم رہ جا تے ہیں لہٰذا اگر حضور نر می اور خوش بیا نی سے وہا بیوں اور دیو بند یو ں کا رد فر ما ئیں تو نئی روشنی کے دلدادہ بھی حضور کی کتابو ں کے مطا لعہ سے مشر ف ہو ں ۔آپ یہ گفتگو سن کر آبدیدہ ہو گئے اور فر مایا :مو لانا تمنا یہ تھی کہ احمد رضا کہ ہا تھ میں تلوار ہو تی اور احمد رضا کے آقا ومو لیٰ کی شان میں گستا خی کر نے والوں کی گر دنیں ہو تیں اور اپنے ہا تھو ں سے ان کا سر قلم کر تا اور اس گستا خی وتو ہین کا سد با ب کر تا لیکن تلوار سے کا م لنیا تو اپنے اختیا ر میں نہیں ،ہا ں !اللہ نے قلم عطافر مایا ہے تو میں قلم کی سختی کے ساتھ ان بے دینو ں کا رد اس لیے کر تا ہو ں تا کہ کہ حضور ﷺ کی شان میں گستا خی وبدبیا نی کر نے والوں کو اپنے خلاف شدید رد دیکھ کر مجھ پر غصہ آئے پھر جل بھن کر مجھ کو گا لیا ں دیں اور میر ے آقا ﷺکی شان میں گا لیا ں بکنا بھول جا ئیں ،اسی طرح میر ی او رمیرے آبا واجداد کی عزت وآبروحضور ﷺ کی عظمت جلیل کے سپر ہو جا ئے ۔
(جان ہے عشق مصطفیٰ ،ص۱۷۹؍۱۸۳،نا شر :رضوی کتاب گھر دہلی ،بحوالہ :ما ہ نامہ جام نور دہلی مارچ۲۰۰۷ء ص۱۸)
   شیخ صالح کمال نے اعلیٰ حضرت کے عشق رسول کو دیکھ کر یوں فر مایا :
 حضرت مولانا شیخ صالح کمال کی اعلیٰ حضرت سے شدید محبت کا ایک مو قع پر یو ں بھی اظہار ہوا کہ اعلیٰ حضرت مکہ مکرمہ کے ایام علالت میں ایک روز مو لانا سید اسما عیل خلیل اور مو لانا شیخ صالح کمال سے فر مایا کہ روضۂ انور پر ایک نگا ہ پڑ جا ئے پھر دم نکل جا ئے ،یہ سن کر دو نوں علما ے کرام کا رنگ متغیر ہو گیا ۔اور حضرت مو لانا شیخ صالح کمال نے فر مایا :ہرگز نہیں بلکہ آپ روضۂ انور پر اب حا ضر ہو کر پھر حا ضر ہو ں ،پھر حا ضر ہو ں ،پھر مد ینہ طیبہ میں وفات نصیب ہو ۔  


     (ماہ نامہ جام نور ،دہلی مارچ ۲۰۰۷ء ص۱۸مضمون:محمد عطاءالرحمٰن قادری)
     (ما خو ذ :جان ہے عشق مصطفٰے ، ص ۱۶۰؍۱۸۳مکتبہ :رضوی کتاب گھر دہلی )

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter