ریاست کیرلا کے مشاہیر فقہائے کرام ( قسط نمبر 3)
خلیفۂ اعلی حضرت شیخ الاسلام حضرت علامہ شیخ شہاب الدین کویاشالیاتی علیہ الرحمۃ
آپ چودہویں صدی ہجری میں سرزمین ملیبار کے سب سے بڑے فقيہ شمار کیے جاتے ہیں ،آپ کے عقل کی پختگی اور حسن توجیہات کی دور دور تک کوئی نظیر نہیں ملتی ،آپ نے اپنی ساری زندگی منہج اہل سنت وجماعت کی ترویج واشاعت اور لوگوں کو اسلام کے صحیح راستے کی دعوت دینے میں صرف فرما دی ،آپ نےسرزمین ملیبار میں وہابیوں ،دیوبندیوں اور تمام گمراہ فرقوں کو بے نقاب کرکے ان کا سیاہ چہرہ لوگوں کو دکھایا ،ان کے باطل عقائد سے لوگوں کو باخبر کیا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کا رد بھی فرمایا ۔
آپ اس دور میں کیرالہ کے واحد شخص تھے جو شمالے ہند میں واقع مرکز علم وفن بریلی شریف جاکر مجدد دین و ملت سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے تبحر علمی میں غوطہ زن ہوئے اور اہل کیرالا کو سیدنا سرکار اعلی حضرت کی تعلیمات سے روشناس فرمایا ،جس طرح آپ شافعی مذہب میں ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے ویسے ہی اور تینوں مذاہب میں بھی آپ کو عبور حاصل تھا ،اس لئے آپ کو مفتی فی المذاہب الاربعۃ جیسے لقب سے جانا جاتا ہے ۔
آپ کی حیات با برکت کا اجمالی خاکہ سپرد قرطاس ہے .
اسم مبارک اور القاب:
آپ کا نام محمد شہاب الدین احمد کویا ہے ،علمائے ملیبار فرماتے ہیں کہ اس کلمے کی اصل اخوی ہے یہاں کے لوگ اکثر عربوں کو اخوی بولتے ہوئے سنتے تھے پھر بعد میں لوگوں نے اسے اخوی سے کویا میں تبدیل کر لیا ،شا ليات یہ ایک جگہ کا نام ہے اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کے نام کے آگے شالياتي لگایا جاتا ہے اور آپ شیخ الاسلام احمد کویا شالیاتی احمد کویا مسلياراور ناصر السنۃ جیسے نا موں سے مشہور ہیں۔
تاریخ پیدائش اور آپکی نشوونما: علامہ شالیاتی علیہ الرحمۃجمادی الآخرۃ کی 20 تاریخ 1302ھ مطابق 1884ء کو کالی کٹ کے طرف میں واقع شدہ شالیم نامی گاؤں میں جمعرات کے دن پیدا ہوئے، آپ کے والد بزرگوار شیخ کونج علی مسلیار رحمۃ الله تعالى ہیں ،آپ کا شمار بھی علم وفضل والوں میں ہوتا ہے ۔
آپ نے اپنے وقت کے علم و حکمت کے کوہ فشاں محققین ومشائخ سے اکتساب علم فرمایا ،ان میں آپ کے والد بزرگوار اور آپ کے جد امجد اور دیگر بڑی شخصیات شامل ہیں ،جن میں خصوصیت کے ساتھ :
1۔علامہ امام شیخ احمد کتی مسلیار ملیباری رحمتہ اللہ تعالی علیہ۔
2۔جامع معقول و منقول ماہر فلکیات الفاضل شیخ کونج احمد رحمتہ اللہ تعالی علیہ۔
3۔شیخ شاہ قادری ناگوری رحمتہ اللہ تعالی علیہ ۔
4۔مجدد دین و ملت سرکار اعلی حضرت شیخ امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمتہ اللہ تعالی علیہ۔
اور دیگر علم و فن کے تاجدار شامل ہیں۔
آپ کی علمی خدمات:
علامہ کویاشالیاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ عقیدہ اہل سنت وجماعت پر مستحکم طریقے سے خود بھی کاربند تھے اور لوگوں کو اس کی نصیحت بھی فرماتے تھے ،آپ کی سرگرمیاں ہر دعوت و تبلیغ کے تمام میدانوںمیں نمایاں نظر آتی ہیں ،جن میں سب سے بڑا کام آپ نے کیرلا کی عوام کو وہابی دیوبندی اور غیرمقلد جیسے تمام باطل فرقوں سے واقف کرایا ،اس وقت کیرلا کے عوام الناس ان کے باطل عقیدوں سے مکمل طور پر نا آشنا تھے، جس کی وجہ سے ان سے سلام وکلام اورشادی وغیرہ جیسے دوسرے رسم و رواج کو جائز سمجھتے تھے، حضرت نے سرکار اعلی حضرت کی کتابوں کی روشنی میں مکمل وضاحت فرمائی اور معتبر علماء کرام کے اتفاق سے ان سے تمام طرح سے قطع تعلق فرمایا ،نیز آپ دینی امور میں بھی نہایت ہی سخت تھے اور کفار و مشرکین سے بات چیت جیسے تمام معاملوں میں سختی کرتے تھے اور مسلمانوں کے مابین حددرجہ شفقت کرنے والے تھے گویا کہ آپ آیت کریمہ اشداء علی الکفار و رحماء بینہم کے مصداق اتم تھے۔
معروف مورخ علامہ محمد علی مسلیار فرماتے ہیں کہ علامہ شالیاتی اپنے دور کے واحد عالم تھے، جنہیں ان کی دور اندیشی اور مختلف علوم و فنون میں مہارت تامہ کے پیش نظر حیدرآباد کے راجہ نظام الملک نے 1345ھ میں ان کے رسمی مفتی ہونے کا اعلان کیااور آپ کے فتاوی مذاہب اربعہ کے مسائل میں شائع ہوتے تھے ،پھر آپ کو راجہ نظام الملک کی طرف سے کلیہ نظامیہ کا مدرس منتخب کر لیا گیا اور آپ کیرالا کی مشہور کمیٹی سمستھا کیرالا جمیعۃ العلماء کے لیڈر بھی رہ چکے ہیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات:
کیرلا اور دیگر ریاستوں میں آپ اپنی کتابوں کی وجہ سے بھی متعارف تھے، آپ کی کتابیں متعدد علوم وفنون خاص کر علم فقہ میں قبولیت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں ،جن کی تعداد تقریبا پچاس سے بھی زائد ہے۔
مشہور کتابوں کے اسماء درج ذیل ہیں:
1۔خیر الأدلة في هدى إستقبال القبلة
2۔القصيدة الأصغرية في حكم الطلاق بكلمات المليبارية
3۔حاشية على فتح المعين
4۔العرف الشذى لإزالة نتن البذى
5۔الفتاوى الدينية بتنكب الحفلة الإيكية في رد المبتدعة الوهابية
6۔الفتاوی الازہریۃ فی الاحکام الشرعیۃ.
آپ کی عائلی زندگی:
پہلی بیوی کے انتقال کے بعد علامہ شالیاتی نے اپنے چچا کی لڑکی فاضلہ فاطمہ بنت شیخ مولوی عبداللہ کتی مسلیار سے شادی کی، جن سے دو لڑکے محمود اور عبدالقادر پیدا ہوئے، کچھ دنوں کے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا ،پھر آپ نے مشہور عالم دین کنج احمد مسلیار کی عزیز بیٹی محترمہ مریم سے نکاح فرمایا جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
سفر آخرت:
علمی خدمات سے لبریز زندگی گزارنے کے بعد اہل سنت وجماعت کے اس بے نظیر اور یکتائے روزگار شخصیت نے پوری دنیا کو اپنی زیارت سے محروم کرتے ہوئے محرم الحرام کی 17 تاریخ 471 1ہجری مطابق 1954ء کو اس دار فانی کو الوداع کہا ،انا للہ وانا الیہ رجعون ،آپ کی مزار پر انوار چالیم میں آپ کے دولت خانے کے قریب واقع ہے۔