مجاہدجنگ آزادی:شیر ملبار علامہ عالی مسلیار رحمۃ اللہ علیہ
جنگ آزادی میں علماء کی بیش بہا قربانیاں اور انگریز سامراج کے مظالم کی لرزہ خیز داستان پڑھ کر ہماری وطن دوستی اور ایمانی جذبہ کو گرمی حاصل ہوتی ہے۔ اس وطن دوستی اور حب الوطنی کا ہی نتیجہ تھا کہ جبہ ودستار پوش علماء جنگ آزادی کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں قلم تھا اب ان کے ہاتھوں میں تیغ وسنان ہے۔ کل تک قال اللہ وقال الرسول ﷺ کے نغموں سے ان کی زبانیں نغمہ سنج تھیں تو آج نعرہ تکبیر اور ہندوستان چھوڑو کے نعروں سے سرشار ہیں۔ علمائے اسلام کی قربانیوں کے بغیر ہندوستان کی آزادی کی داستان ادھوری ہے۔ بڑا افسوس ہے کہ کچھ فرقہ پرست تاریخ کو بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ جنھیں جنگ آزادی سے دور کا بھی واسطہ نہیں انھیں یہ فرقہ پرست اور تعصب پرست ہیرو بنا رہے ہیں۔ جو انگریزوں کے وفاشعار غلام تھے آج انہیں ویر اور سورما بناکر پیش کیا جارہا ہے اور جن کی آبائی جائیدادیں ضبط کی گئیں، جن کی بڑی بڑی حویلیاں نیلام کی گئیں، جن کی ضخیم لائبریریاں آگ میں پھونک دی گئیں، جنھیں ملک بدر کیا گیا، جن کی آسودہ زندگیوں کو کانٹوں سے زیادہ پرخار بنادی گئیں، جنھیں جیل بھیجا گیا، جنھیں پھانسیاں دی گئیں، جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے اہل وعیال کو گولیوں سے بھون دیا گیا، جنھوں نے تن من دھن کی قربانیاں پیش کیں اُن سرفروشوں کو فراموش کرنے کی سعی ناتمام ہی نہیں بلکہ تاریخ کے روشن صفحات سے ان کا نام ونشان مٹانے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔ ان کی قربانیوں کو الگ رنگ دینے کی کوشش جارہی ہے۔ ایسے پرآشوب دور میں ہمارا دینی وملی فریضہ ہے کہ ہم تاریخ کے رخ کو موڑنے والوں کے ہاتھ موڑ دیں اور بیداری کے ساتھ اپنی تاریخ پر گہری نظر رکھیں ورنہ وہی ہوگا جو علامہ اقبال نے کہا تھا:
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے!
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
آج ہم انھیں جانبازوں میں سے ایک عظیم وبے باک قائد انقلاب، مرد حریت، ملبار کے جنگ آزادی کے محرک اول، سپہ سالار اعظم، ملبار انقلاب کے عظیم روح رواں، شیر ملبار حضرت علامہ عالی مسلیار رحمۃ اللہ علیہ کی درد بھری داستان سنانا چاہتے ہیں جن کی عظیم قربانی کو آج کل کچھ ہندوتوا وادی فرقہ پرست الگ ڈھنگ سے پیش کررہے ہیں اور یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ علامہ عالی مسلیار انگریز کے وفادار اور ہندو زمینداروں کے جانی دشمن تھے اور کٹر مذہب پرست تھے۔ ان کی جنگ انگریزوں سے نہیں بلکہ ہندو سرمایہ داروں اور زمینداروں سے تھی وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسا الزام ہے جس سے شیطان بھی شرما جائے۔ سن 1921ء اگست 30کو جب انگریزوں نے انھیں گرفتار کیا، پھر ترورنگاڑی سے کالیکٹ لاکر پوچھ تاچھ کرنے بعد انگریزوں نے انھیں پھانسی کی سزا سنا کر کیرالا سے کوئمبتور سنٹرل جیل بھیج دیا۔ پھر 1922 ء فروری 17 کو انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے جرم میں انھیں پھانسی دے دی گئی۔ انگریزوں نے پھانسی دینے کی وجہ بھی یہی لکھی کہ وہ انگریز سامراج کے دشمن اور مخالف تھے۔ ان کا قصور انگریزی سامراج کے مطابق انگریز حکمران کی مخالفت اور لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ کرنا تھا۔اور ان کے کیس فائل میں بھی یہی مسطور ہے۔ اس سے بڑی دلیل کیا چاہیے۔ علامہ عالی مسلیار 1853ء کو قصبہ نلّکت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت علامہ کنجی محی الدین مسلیار یگانہئ روزگار اور بڑے جید عالم دین تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ حضرت علامہ محمد کٹی مسلیار جو مخدوم خاندان کے چشم وچراغ اور مڈیکوڈ کے قاضی کی صاحبزادی تھیں اور جو نیک طینت خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بہادر اور دلیر بھی تھیں۔ اسی بہادری اور شیردلی کا عکس ہم پھر علامہ عالی مسلیار کی مبارک شخصیت میں دیکھتے ہیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت کنی کمّو ملا اور حضرت نور الدین مسلیار سے حاصل کی۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے آپ نے پنّانی کا رخ کیا جہاں اس وقت بحر العلوم فقیہ اعظم حضرت علامہ زین الدین مخدوم اخیر اور آپ کے شہزادے حضرت علامہ کونگنم ویٹیل ابراہیم مسلیار اپنے علم کا فیضان بانٹ رہے تھے۔ وہی صوفی باصفا محمد بن عبد القادر المعروف بہ چریّا باوا مسلیار بھی اپنی روحانیت سے آنے والے تشنگانِ علوم نبویہ کی پیاس بجھا رہے تھے۔ ان مذکورہ بالا تینوں بزرگانِ دین سے آپ نے خوب علمی استفادہ کیا۔ تقریباً دس سال کے بعد سن 1297ھ کو آپ حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے۔ حج سے فارغ ہوکر آپ نے اپنے استاذ محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آٹھ سال تک مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر ہوکر اجلہ علماء کرام سے اکتسابِ علم کیا۔آپ کے اساتذہ وشیوخ میں مفتی مکہ حضرت علامہ سید احمد زینی دحلان مکی، فاضل جلیل شیخ العلماء سید حزب اللہ سلیمان المکی اور پیر طریقت رہبر راہ شریعت علامہ سید حسین الحبشی المکی قابل ذکر ہیں۔ روحانیت اور تصوف میں بھی آپ کا مقام کافی بلند ہے۔ آپ نے اپنے استاذ محترم شیخ العلماء سید حسین الحبشی المکی سے سلسلے قادریہ شاذلیہ کی اجازت وخلافت اور خرقہ حاصل کیا۔ ایسے ہی علامہ حزب اللہ المکی سے راتیب الحداد کی اجازت حاصل کرکے اپنی روحانیت میں اضافہ فرمایا۔ مزید برآں یہ کہ آپ نے حضرت علامہ شیخ العلماء والفضلاء علامہ محمد محسن الرضوانی سے دلائل الخیرات شریف کی اجازت حاصل فرمائی۔ جہاں ایک طرف آپ جید عالم تھے، وہیں آپ بلند پائے کے صوفی اور روحانی بزرگ بھی تھے۔
تعلیم سے فارغ ہوکر آپ نے کیرالا کے مختلف مقامات پر درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔ تقریباً نو سال تک آپ نے لکشادیپ کے جزیرہئ کوارتی (kavarattidweep) میں علم وعرفان کا دریا بہایا، پھر سن 1894ء میں جب انگریزوں نے آپ کے برادر اکبر حضرت علامہ محمد کٹی مسلیار کو گولی مار کر قتل کیا آپ اپنی تمام تر دینی ذمہ داری اپنے بردار خورد علامہ احمد کٹی مسلیار کو سونپ کر ملبار چلے آئے۔ پھر اپنے گاؤں پہنچ کر بھی آپ فارغ نہیں بیٹھے بلکہ یہاں بھی الگ الگ مساجد میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اخیر سن 1907 ء میں ترورنگاڑی بڑی جامع مسجد میں بحیثیت مدرس آپ کا تقرر ہوا۔ 1907ء سے 1921 تک آپ ترورنگاڑی میں دینی خدمات انجام دیتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ لوگوں کو حب الوطنی اور دیش بھکتی کی تعلیم بھی دیتے تھے اور بڑی دور اندیشی کے ساتھ یہ سب آپ انجام دیتے تھے۔ جہاں آپ ایک جید عالم اور مدرس تھے وہیں آپ کی بصیرت، ملی قیادت اور علمی استعداد کا سکہ پورے ملبار میں قائم تھا۔ اسی بصیرت اور دور اندیشی کا نتیجہ کہیے کہ آپ نے جلد بازی سے کام نہیں لیا بلکہ بڑی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور صحیح وقت کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن انگریز ہمیشہ سے آپ کے دشمن تھے۔ آپ کی مقبولیت اور عوام میں آپ کی قدر ومنزلت سے سہمے رہتے تھے۔ انگریز کو معلوم بھی تھا کہ یہ ہمارے خلاف محاذ آرائی کرنے والے ہیں اسی وجہ سے ہمیشہ انگریز ترورنگاڑی مسجد کے آس پاس پولیس افسروں کی ڈیوٹی مقرر کیا کرتے تھے۔
سن 1920ء میں تحریک خلافت میں بھی آپ نے حصہ لیا۔ جب گاندھی جی اور مولانا شوکت علی نے کیرالا کا دورہ کیا اور وطن کے باشندوں میں آزادی کے جذبے کو بیدار کرنے کے لیے کالیکٹ بحر عرب کے ساحل پر ایک عظیم الشان تاریخی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ہزاروں سرفروشیان وطن نے شرکت کرکے اپنی وطن دوستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ سب علامہ عالی مسلیار کی انتھک جدوجہد کا ثمرہ تھا۔ آپ تحریک خلافت کے نائب صدر بھی رہے۔ جب کانگریس اور مولانا شوکت علی کی تحریک خلافت میں پھوٹ پیدا ہوئی تو آپ کانگریس سے دست بردار ہوکر تحریک خلافت کی مکمل باگ دوڑ سنبھالتے ہوئے عوام ملبار کی قیادت کررہے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ 1921ء ماہ اگست میں تقریبا ڈھائی لاکھ لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کیے اور آپ کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا۔ اسی سال 19اگست کو چیرور شہداء کے عرس کے تقریبات کے لیے آپ اور آپ کے پیروکار پیدل مزار کی طرف جارہے تھے اسی اثناء انگریزوں نے روک کر ان میں سے 25 لوگوں کو بیجا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ اس وقت آپ چماڈ پولیس اسٹیشن پہنچ کر پولیس افسروں سے گرفتاری کا سبب پوچھ رہے تھے تو افسر نے کہا آپ بیٹھیے۔ آپ صبر کے ساتھ بیٹھے ہی تھے کہ پولیس افسران آپ کے پیروکاروں پر گالیاں چلانے لگے کئی سارے مجاہدین مارے گئے۔ اس کے بعد ترورنگاڑی کے اطراف ونواح میں علم بغاوت بلند کردیا گیا اور چاروں طرف ماپلا مسلمان ان انگریزوں سے برسرپیکار رہے۔ ہزاروں ماپلا مسلمان اپنی ہتھیلیوں میں سروں کا نذرانہ لیے آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔ اس ماپلا بغاوت کو ہر طرح سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انگریز بری طرح ہزیمت و شکست کے شکار ہوکر اپنی شاطرانہ چال چلنے لگے۔ 28اگست کو انگریز ضلعی کلکٹر تھومس نے آپ کو ایک فرمان ارسال کیا جس میں لکھا تھا اگر ماپلا بغاوت اور ملبار انقلاب کو روکا نہیں گیا تو مساجد گرادئیے جائیں گے۔ جس میں ممبرم جامع مسجد اور ترورنگاڑی جامع مسجد بھی شامل تھی۔ یہ سن کر علامہ پریشان ہوئے اور اخیر کار گرفتاری کے لیے تیار ہوگئے ایسے اس شیردل قائد کو انگریزوں نے اپنی شیطانی چال سے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور آپ کے ہمراہ کئی سارے لوگوں کو بھی قید کرلیا گیا پھر وہاں سے آپ کو اور باقی مجاہدین کو کالیکٹ لاکر پوچھ تاچھ کرنے کے بعد آپ کو اور آپ کے دس ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ وہاں سے آپ کو کوئمبتور سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔
کوئمبتور سنٹرل جیل میں آپ کو دردناک سزائیں دی جاتی تھیں۔یہ سب آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ ملک کی خاطر برداشت کیا۔آخر وہ افسوس ناک گھڑی بھی آئی جس میں آپ کو پھانسی دی جانی تھی۔ سن 1922 فروری 17بروز جمعہ فجر کی نماز کے بعد آپ کو پھانسی کے لیے لے جاتے ہوئے انگریزوں نے پوچھا آپ کی آخری خواہش کیا ہے؟تو اس مرد قلندر نے دورکعت نماز پڑھنے کی اجازت مانگی اور وضوء کرکے نماز ادا کی اور آخری سجدے میں آزادی کا یہ عظیم قائد اور چمکتا آفتاب ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔ مگر جابر وظالم انگریز نے ان کی لاش کو تختہئ دار پر لٹکاکر اپنے غم وغصے اور انتقامی جذبے کو شانت کیا۔ آپ کے جسد مبارک کو دفن کرنے کے لیے انگریزوں سے مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے انکار کردیا۔ بعد از اں فوری طور پر ایم محمد صاحب اور قاضی کوئمبتور علامہ عبد الرزاق حضرت کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو ملبار مسلم اسوسیشن کے نام سے معروف ہوئی۔ اسی تنظیم کی اگوائی اور نگرانی میں آپ کے جسد خاکی کو کوئمبتور نواب حیدر علی سلطان دکنی شاہی مسجد کی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا جہاں آپ کی تربت آج بھی زیارت گاہ عام وخاص ہے۔ رب کریم آپ کی لحد کو رحمت و نور سے بھر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزہئ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!