مسلمان اس ملک کی اقلیت نہیں بلکہ دوسری سب سے بڑی اکثریت!

        کہتے ہیں کہ انسان جیسا سوچتا ہے عملی زندگی میں بھی خود کو ویسا ہی محسوس کرتا ہے۔ اور نتیجۃ اپنی سوچ کے محدود دائرے میں مقید ہو کر رہ جاتا ہے۔چیل کا بچہ اگر سوچ لے کہ وہ چوزا ہے اور چوزوں کے ساتھ ہی رہنا شروع کردے تو زندگی بھر اڑان اور آسمان کی لامحدود وسعتوں کے بارے میں سوچنا تو درکنار پر بھی نہ کھول پائے۔ ہم آج جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے مسلمانوں کی کیفیت و حالت بھی کچھ اسی متخیلہ مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے ذہن کی کھلی فضا کو قفسِ مرغ سے تعبیر کر رکھا ہے اور ہندو ستان جیسے عظیم ملک کی دوسری سب سے بڑی اور باوقار اکثریت ہونے کے باوجود خود کومجبور و مقہور اقلیت تسلیم کر رکھا ہے۔ حکو مت اور مسلم مخالف ذہنیت رکھنے والی میڈیا کا تو کام ہی ہے ہمیں بار بار اقلیت جتا کر اپنی اکثریت کا دھونس جمانا مگر ستم یہ ہے کہ خود ہم بھی اپنے منعقد کردہ پروگرامز اور اجتماعات میں اسی لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یقین جانیے یہ لفظ ہر ہندوستانی مسلمان کے لیے مایوس کن ہونے کے ساتھ ساتھ حوصلہ شکن بھی ہے اور اس سے سادہ دل مسلمان احساسِ کمتری کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف سے ہندو راشٹر کی گونج ہمارے کانوں تک آ رہی ہے۔

        سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے باعزت شہری ہونے کے باوجود ہم ایک انجان اور بے بنیاد سے خوف کے شکار کیوں ہیں؟ کیا ہمارا آئین ہمیں مساوات کا درجہ نہیں دے رہا؟ کیاقانون کی نظر میں ہم اوروں کے برابر نہیں ہیں؟ بالکل ہیں۔ بلکہ صرف حکومت اور قانون ہی کیا، میں تو کہوں گا کہ اس سر زمین کا ذرہ ذرہ ہماری پر وقار شان و عظمت کاگواہ ہے۔ ہماری دیدہ زیب اور ناقابل تسخیر عمارتیں، ہماری خوبصورت مسجدوں کے مینار اور پورے ملک میں پھیلی ہوئی روحانی درگاہیں جہاں دیگر مذہب کے لوگ بھی خاکساری کے پتلے بن کر حاضر ہوتے ہیں، چیخ چیخ کے ہماری باعزت شہریت کا اعلان کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری مسجدوں کی جماعتیں، ہمارے مزارات کی بھیڑ اور ہمارے جلسوں اور اجتماعات کا ازدحام بھی ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ہم کم نہیں بلکہ ہماری تعداد زیادہ ہے۔ اسلام میں پنج وقتہ فرائض اور خاص طور سے جمعہ اور عیدین کی عظیم جماعتوں کی ڈھیر ساری باطنی اور روحانی فوائد اور حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ غیروں کو اپنی تعداد دکھائی جائے اور ان پہ اپنی کثیر تعداد کا رعب ڈالا جائے۔ مگر افسوس کہ اس ملک کا ایک تہائی مسلمان بھی اس عظیم قرآنی حکمت سے با خبر نہیں۔ کاش ہمارے ائمہ حضرات نے اس جانب توجہ دی ہوتی تو آج ہماری عزت و حالت کا گراف ذرا اونچا ضرور ہوتا۔

        اس سے پہلے کہ کافی دیر ہو جائے اور ہمارے ہاتھ سوائے افسوس کے اور کچھ نہ بچے ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور اپنی مکمل آبادی کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ اس ملک کے باعزت شہری ہی نہیں بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی کافی مضبوط ہیں۔ ہندوستان کے دستور نے تو ایک فیصد سے بھی کم تعدار والوں کو برابری کا حق فراہم کیا ہے۔ پھر ہماری تعداد تو ان سے کئی گنا زیادہ ہے پھر بھی ہم حکومت کے رحم و کرم کے منتظر کیوں ہیں؟ یقین جانیے کہ ہمیں حکومت سے اپنا حق مانگنے کا نہیں بلکہ آئین کے مطابق اسے چھیننے کا ہنر آنا چاہیے۔ اور یہ ہمارا حق بھی ہے کیوں کہ ہم نے وطن عزیز کی آزادی میں محض امدادی نہیں بلکہ برابری کا حصہ پیش کیا ہے۔ انگریزوں کا اصل مد مقابل کوئی تھا تو وہ ہم تھے کیوں کہ حکومت ہماری جا رہی تھی، بادشاہت ہماری ختم ہو رہی تھی، اس لیے جس بے جگری سے ہم لڑے ہندوتوا یا دیگر مذاہب کے حاملین کسی صورت اس کی برابری کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کا کیا تھا؟ وہ تو محکوم تھے۔ اسی وجہ سے ساورکر جیسے غدار اور ملک مخالف ذہنیت کے حامل در پردہ انگریزوں کی چاکری اور مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کرتے تھے تاکہ انہیں مسلمانوں کی محکومی سے چھٹکارا مل جائے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ تاریخی شواہد ہیں۔ حاصل یہ کہ ہر طرح سے ہم اس ملک کے باعزت اور معتبر شہری ہونے کے حقدار ہیں اور ہمیں بہر طور اس حقیقت کو اپنے ذہن و دماغ میں بٹھا لینا ہوگا۔

        گردش زمانہ اور مسلمانوں کی خوش بختی دیکھیے کہ ہمیں اقلیت کا طعنہ اور دھمکی دیتے دیتے ہمارا دشمن خود اقلیت میں چلے جانے کے خوف سے گھبرانے لگا ہے۔ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی اسے ڈرانے لگی ہے۔ ہماری نسل میں برکت اسے بے چین کرنے لگی ہے۔بقول ان کے دو ہزار پچاس تک ہماری آبادی ان سے بڑھ جائے گی اور وہ اقلیت میں آ جائیں گے۔ اتراکھنڈ کے حالیہ دھرم سنسد میں بے حساب زہر افشانیوں کے ساتھ ساتھ اس خدشے کا باضابطہ اظہار بھی کیا گیا۔ یہ بات ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے کہ ہندوتو کے نام نہاد پیشوا اپنی مجالس میں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ در اصل اپنی قوم کو ایک بڑے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر انجانے میں ایسی بے تکی باتوں سے اپنے ہی افراد کو بے جا خوف میں مبتلا کر رہے ہیں اور بلاشبہ ان کی حوصلہ شکنی کا کام کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اس مسئلے کے حل کے طور پر انہوں نے انہیں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اب ظاہر ہے لوگ اس پہ عمل بعد میں کریں گے اور خوف میں مبتلا پہلے ہوں گے۔ جیسی سرکار چل رہی ہے، عام نوجوان جس بدتر معاشی حالت سے گزر رہے ہیں کم ہی امید ہے کہ لوگ اس تجویز کو رو بعمل لائیں گے۔ مذہبی آقاؤں کے مستقبل قریب میں اقلیت میں چلے جانے کے خوف و خدشات بھرے جملے در اصل ان کی زبان سے نکلے ہوئے تیر ہیں جو انہیں کے افراد کو گھائل کر رہے ہیں۔ اب بتائیے کہ ہمارا دشمن خود اقلیت کے خوف سے لرز رہا ہے اور ہم ہیں کہ اب بھی اپنی اکثریت ماننے کو تیار نہیں۔ اگر ہم اب بھی خود کو اس ملک کی قابل قدر و قابل لحاظ اکثریت تسلیم نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے؟

        میرے مسلم ہم وطنو! ہمارے دشمن کی سوچ میں زیادہ بالیدگی اور آفاقیت نہیں ہوتی کیوں کہ ہمارے رب نے انہیں فکر و خیال کا محدود مادہ ہی دیا ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ناقص سمجھ کے مطابق فقط جذبات سے مغلوب ہو کر جو دل میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ اور جس کے برے اثرات انہیں کے افراد پہ مرتب ہوتے ہیں۔ مگر افسوس ہمیں اپنی قوم پہ ہونا چاہیے کہ جس پہ خدا نے اتنے نوازشات کیے ہیں، ہمیں پختہ ذہن دیا، عالی دماغ بنایا، اعلی سے اعلی فکر و خیال کا مادہ عطا کیا بلکہ قرآن و حدیث کی صورت میں مکمل ضابطہئ حیات پیش کر دیا جس سے انسان کے لیے بلندیوں اور اونچائیوں کی حد تک کو چھو لینا بالکل آسان ہو گیاہے پھر بھی ہم دور اندیشی اور خیالا ت کی ہمہ گیریت اور بلند پروازی میں اتنے پیچھے ہیں کہ خدا کی پناہ! واللہ ہمیں اپنا جوہر دکھانا ہوگا، اپنی لیاقت ظاہر کرنی ہوگی اور اسی لازوال فہم و فراست اور بے مثال فکر و تدبر کو پھر سے بروئے کار لانا ہوگا جس کے بل بوتے پر ہم نے دنیا پہ طویل عرصے تک راج کیا ہے۔ آج ہمیں اپنے دشمن کی بے جا اور تنگ سوچ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قوم کو بتانا ہے کہ تم ان سے کسی صورت کم نہیں ہو۔ نہ طاقت میں نہ تعداد میں اور ناہی ہندوستانی آئین کی نظر میں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو آج ہمارا دشمن ہم سے خوف کھاتا نظر نہیں آتا۔

        ایک بات اور ذہن میں رکھو کہ ان کے دلوں میں ہمارے ڈر اور خوف کا پتا صرف ان کے ان دنوں بار بار اقلیت میں آ جانے کے خدشے کے اظہارہی سے نہیں لگتا بلکہ زعفرانی پارٹی کے دو ر اقتدار میں گذشتہ چند سالوں سے ہم پہ جتنے بھی مظالم اور ناانصافیاں ہوئیں ہیں سب کے سب ہمارے تئیں ان کی شدید بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ کے عکاس ہیں۔ سادہ سی مثال دینا چاہتا ہوں۔ ہمارے ساتھ ماب لنچنگ کا خونخوار اور زہریلا کھیل کھیلا گیا۔ پتا ہے کیوں کھیلا گیا؟ ظاہر ہے جو سانپ سے ڈرتاہے وہی اسے مارتاہے۔ مطلب ہمارا دشمن ہم سے ڈر رہا ہے اسی وجہ سے ہمیں مار رہا ہے۔ مگر نہایت حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ہم سے ڈر رہا ہے وہی ہمیں مار کے چلا جا رہا ہے اور ہم مزاحمت تک کی زحمت بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس لیے میرے رفیقو! ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا۔ فقط یہ سوچ کے مطمئن ہو جانا کہ ہمارا دشمن ہمیں مار تو رہا ہے مگر ہم سے ڈر بھی رہا ہے کوئی عقلمندی نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے عدو کے دل میں حقیقی ڈر پیدا کرنا ہوگا۔ وہ خوف کہ جس کے بعد وہ کسی بھی فرد مسلم پہ بری نظر ڈالنے سے پہلے اپنے انجام کے تصور سے کانپ اٹھے۔ اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم خود کو مضبوط کریں گے اور اپنے اندر سے اقلیت کے احساس کو دو رکریں گے۔ او ر ملک کو اپنی کثیر تعداد کا یقین دلائیں گے۔ یاد رکھیے ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ہم اقلیت میں رہتے ہیں اپنی کثرت کو منوانا نہایت ضروری ہے ورنہ ہماری ساری زندگی مجبوری اور مظلومیت کی نذر ہو کے رہ جائے گی۔ ہم کوشش کریں گے تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ ضرور ہمارا دشمن ہم سے حقیقی معنوں میں ڈرے گاکیوں کہ ڈر تو کافروں کا مقدّرہے۔ اور بے خوفی فقط قوم مسلم کا خاصہ ہے۔

        حقیقی بات ہے کہ انسانی زندگی میں اعلی اور مثبت سوچ نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے ہمیں کسی نہ کسی زاویئے سے مثبت اور حوصلہ افزا سوچ رکھنی چاہیے اور ہر اس لفظ یا جملے سے گریز کرنا چاہیے جو ہمت بڑھانے کے بجائے پست ہمتی کا باعث ہو۔ ایک لحظے کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ہماری تعداد کم ہے اور ہم یہاں اقلیت میں ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتاہے؟ ہم فورا اس خیالِ خام کو اس صورت جھٹک سکتے ہیں کہ ہندوستان میں ہم کم ہیں تو کیا ہوا پوری دنیا کے نقشے میں تو ہم کم از کم ہندوستان کی ہندوتوا بلکہ سارے جہان کے ہندوؤں سے زیادہ ہیں۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے نہ کوئی جھٹلا سکتاہے نہ اس تصور سے مسلمانوں کے حوصلے کو بلند ہونے سے کوئی روک سکتا ہے۔ اور یہ تصور فقط دل لگی یا بہلاوے کے لیے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی سوچ ہی ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت و تعداد کو پوری دنیا کے نقشے میں جانچے۔ اس لیے کہ بقول صلاح الدین ایوبی ’سلطنت اسلامیہ کی کوئی حد نہیں ہوتی‘۔ اس لیے ہماری سوچ اور فکر کو ملکی سرحدوں سے نکل کر عالمی اور آفاقی ہونا بے حد ضروری ہے۔ جو قوم جتنی اعلی سوچ رکھتی ہے، دنیا میں اس کی کارکردگی اتنی ہی بہتر ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ اس دھرتی پہ اپنے وجود کی مدت و میعاد طے کرتی ہے۔ بقول شاعر مشرق ’قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف‘۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter