حالیہ تجدید مدارس مہم اور امام احمد رضا کا نقش قدم

اعلی حضرت مجدد دین و ملت تھے،لیکن ہم نے انہیں صرف دین کا مجدد بنا دیا۔

میں بات شروع کرتا ہوں ایک سبق آموز واقعہ سے۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ پوری دنیا کی ایک بہت ہی مشہور کمپنی جسکی حیثیت دنیا کی ٹاپ ٹین میں تھی،فروخت ہوگئی۔ کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر -CEO- فروخت نامہ پر دستخط کرنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اور اس نے کہا کہ ہم بہت تعلیم یافتہ تھے، محنتی تھے اور اعلی صلاحیتوں کے مالک تھے، لیکن ہم سے صرف ایک غلطی ہوئی کہ ہم نے ہوا کے رخ پر چلنا گوارا نہیں کیا، بلکہ طرز کہن پر اڑے رہے،جس کی وجہ سے آج یہ کمپنی بک گئی۔یعنی آئین نو اور طرز کہن کی کشمکش کے بیچ ہم پڑے رہے، اور وقت و حالات نے اپنا کام کردیا۔ علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ؛

آئين نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا

منزل يہي کھٹن ہے قوموں کي زندگي ميں

يہ کاروان ہستي ہے تيز گام ايسا

قوميں کچل گئ  ہيں جس کی رواروی ميں

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ "العالم متغير و كل متغير حادث" یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کائنات کو حادث بنایا ہے۔اس کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ متغیر ہے، اور مختلف جہتوں میں وہ ہزاروں نئی چیزیں پیدا کرتی ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخرالزماں-صلی اللہ علیہ وسلم- تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ومرسلین میں سے ہر ایک آیا نئی شریعت، نئی کتاب یا کم از کم ایک نئی طرز زندگی کے ساتھ تشریف لائے۔ حالات، زمانے اور جغرافیے سب کچھ نئے نئے تھے۔ جس درجہ فہم و ادراک کی قوم ہوتی اللہ تعالی اس زمانے کی اعلی صلاحیتوں کے ساتھ ان کے درمیان انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔چنانچہ جب جادوگری عروج پر تھی تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو عصااور یدبیضا عطا فرمایا۔جب دنیا میں میڈیکل سائنس ترقی پر تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح بنا کر مبعوث فرمایا۔یعنی صرف آپ کے ہاتھ کے مسح سے ہی بیماریاں دور ہو جاتی تھیں۔ جب زمانہ فصاحت و بلاغت کا گہوارہ بنا تو لسان عربی مبين کے ساتھ رسول عربی جامع الکلم -صلی اللہ علیہ وسلم- کو بھیجا گیا اور فصاحت و بلاغت،ایجاز و معانی اور زبان و بیان میں بے مثال کلام الٰہی قرآن مقدس آپ کو بطور معجزہ عطا ہوا۔

یعنی سنت الہی یہ ہے کہ زمانے میں جو قدریں عروج پر ہوں،جن صلاحیتوں کا طوطی بول رہا ہو یاجو کمالات قابل چیلنج ہوں،اللہ تعالی انہیں اقدار و روایات کے اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو ان قوموں کے درمیان بھیجتا ہے۔ اور جب نبوت کا سلسلہ بند ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ہر زمانے کے نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مجددین کا سلسلہ قائم فرمایا تاکہ دنیا میں جو اعلی سے اعلی معیار زندگی کے لیے سہولیات زندگی کے اسباب پیدا ہوں گے۔ اس زمانے کے مجدد کو اس سے زیادہ بہتر اسلامی طرز زندگی و بندگی اور اسباب زندگی سے قوم کو روسناش کرانے کی صلاحیت کے ساتھ بھیجتا ہے۔

اس کی زندہ مثال گزشتہ صدی کے مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ہے۔ واضح رہے کہ آج دنیا انسانی وسائل کی جس بلندی پر ہے اس کی ابتدا گزشتہ صدی میں ہی ہوئی تھی۔ جس کو تعلیم و سائنس اور صنعت و حرفت کا انقلابی زمانہ کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کواس صدی کا مجدد بنایا۔ تو انھوں نے بھی اس صدی کے تقریبا تمام مروجہ علوم و فنون پر دسترس حاصل کی۔ کتابیں تصنیف کیں، اور قوم و ملت کو نئے چیلنجز سے مقابلہ کرکے آگے بڑھنے اور آگے بڑھ کر دنیا کی قیادت وسیادت کرنے کی ترغیب دی۔ دین و سنت کے ساتھ سینکڑوں علوم و فنون پر ان کی تصنیف کردہ کتابیں اس کی شاہد عدل ہیں۔ جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم بھی شامل ہیں۔ لیکن ہم نے ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کی ہمہ جہتی کو پس پشت ڈال کر صرف ان کا ایک فن فتوی نویسی کو ہی اولیت دی اور اسی کو ان کی اصل اور بہتر خوبیوں کا مظہر سمجھا۔ دنیا کے ساتھ ہم بھی صرف ان کی ایک ہی خوبی سے واقف ہو سکے اور استفادہ کیا۔ نتیجتاً فتوی دینے والوں کی ایک بہت بڑی فوج تیار ہوگئی۔ جس میں مفتی، عالم، جاہل اور عوام سب شامل ہیں۔ اور وہ علم جس سے عروج حاصل ہوتا ہے ہم نے اسے شجر ممنوعہ سمجھا۔ اور وہ مسلمان جسے اللہ تعالی نے دنیا کی قیادت و سیادت کا منصب عطا کیا تھا وہ خانہ جنگی اور فتوی بازی کا شکار ہوکر اس منصب جلیلہ سے محروم ہوگیا۔ اور اگر ہم میں سے کسی نے بھی قیادت و سیادت اور اعلی وسائلِ زندگی سے قوم و ملت کو شاد کام کرنے کے لیے اعلی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی کوشش کی تو فتوی بازوں نے ان کو گمراہ اور گمراہ گر کا فتوی لگا کر انہیں جماعت سے باہر کردیا۔ اس طرح ہم فلاح و بہبوداور عروج و ارتقاء سے محروم ہو کر ذلیل و خوار ہو گئے اور حقیقی طور پر یتیم ہو گئے۔

لَيسَ اليَتِيمُ الَّذِي قَد مَاتَ وَالِدُهُ

إِنَّ اليَتيمَ يَتيمُ العِلْمِ والأَدَب

مدارس کی تجدید ضروری ہے۔ اور ایسے ادارے کی سخت ضرورت ہے جہاں قرآن و حدیث اور فقہ کے ساتھ ساتھ وہ علوم و فنون جس پر اعلی حضرت کو عبور حاصل تھا مکمل نہ سہی کم از کم موجودہ زمانے کے متقاضیات میں سے علم طبیعیات، علم حیات، علم کیمیا، اور علم ریاضی کی تعلیم کا انتظام لازمی طور پر ہو۔ اور سہ لسانی فارمولا کے مطابق اردو /عربی کے ساتھ انگلش زبان و ادب پر بچوں کو مہارت دلائی جاتی ہو۔

ہم اعلی حضرت نہیں بن سکتے لیکن کم از کم ان کی محبت کا دم بھرنے کی پاس و لحاظ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل کر ان جیسا بننے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔

 محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter