حضور حجتہ الاسلام مولانا حامد رضا خان بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ

تاج الاصفیاء حضور حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کی ولادتِ باسعادت مرکز اہلسنت بریلی شریف میں ماہ ربیع الاول شریف 1292/ ہجری 1875/ عیسوی میں ہوئی- عقیقہ میں حضور حجتہ الاسلام کا نام حسبِ دستورِ خاندانی محمد رکھا گیا- جن کے اعداد 92/ ہیں اور یہی نام آپ کا تاریخی ہوگیا آپ کا عرفی نام حامد رضا اور آپ کا خطاب حجتہ الاسلام ہے-

     تعلیم و تربیت:
   حضور حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کی تعلیم و تربیت آغوشِ والد ماجد امام اہلسنّت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ میں ہوئی- والد ماجد آپ سے بڑی محبت فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ،، حامد منى وانا من حامد ،، حضور حجتہ الاسلام نے جملہ علوم و فنون اپنے والدِ ماجد سے حاصل کیے- یہاں تک کہ حدیث، تفسیر، فقہ وکتب، معقول ومنقول کو پڑھ کر صرف 19/ سال کی عمر شریف میں فارغ التحصیل ہوگئے-

     بیعت و خلافت:
   تاج الاتقیاء حضور حجتہ الاسلام حضرتِ مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری رضی الله تعالیٰ کے مرید و خلیفہ تھے- اور آپ کو آپ کے والدِ ماجد امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی-

     عادات کریمہ:
حضور حجتہ الاسلام اپنے اسلاف آباؤاجداد کے مکمل نمونہ تھے- اخلاق وعادات کے جامع تھے، آپ جب بات کرتے تو تبسّم فرماتے ہوئے، لہجہ انتہائی محبت آمیز ہوتا، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت کا برتاؤ آپ کی شرست کے نمایاں جوہر تھے، آپ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے، درود شریف کا کثرت سے ورد فرماتے، یہی وجہ ہے کہ اکثر آپ کو نیند کے عالم میں بھی درود شریف پڑھتے دیکھا گیا ہے- آپ کی طبیعت انتہائی نفاست پسند تھی، چناچہ آپ کا لباس آپ کی نفاست کا بہترین نمونہ ہوتا تھا، انگریز اور اس کی معاشرت کے آپ اپنے والدِ ماجد کی طرح شدید مخالف رہے- 

     انکساری:
حضور حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ علوم و فنون کے شہنشاہ زہد و تقویٰ میں یگانہ اور خطابت کے شہسوار تھے، آپ نے اپنے اسلاف کا جو نمونہ قوم کے سامنے چھوڑا ہے وہ ایک عینی شاہد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
     ،، شیخ الدلائل مدنی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حجتہ الاسلام نورانی شکل وصورت والے ہیں، میری اتنی عزت کرتے کہ جب میں مدینہ منورہ سے ان کے یہاں گیا، کپڑا لے کر میری جوتیاں تک صاف کرتے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہر طرح خدمت کرتے کچھ روز کے قیام کے بعد جب میں بریلی شریف سے واپس عازم مدینہ ہونے لگا تو حضرت حجتہ الاسلام نے فرمایا: مدینہ منورہ میں سرکارِ اعظم میں میرا سلام عرض کرنا:


                اب  تو  مدینہ  لے  بلا  گنبد  سبز دے دکھا
               حامد و مصطفےٰ رضا ہند میں ہیں غلام دو

     زہد و تقویٰ:
   حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز نہایت ہی متقی اور پرہیز گار تھے، علمی و تبلیغی کاموں سے فرصت پاتے تو ذکر الٰہی اور درود شریف کے ورد میں مصروف ہو جاتے، آپ کے جسم اقدس پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا، جس کا آپریشن ناگزیر تھا، ڈاکٹر نے بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا تو آپ نے منع فرمایا اور صاف کہہ دیا کہ میں نشے والا ٹیکہ نہیں لگواوں گا، عالم ہوش میں دو تین گھنٹے تک آپریشن ہوتا رہا آپ درودشریف کا ورد کرتے رہے اور کسی بھی درد و کرب کا اظہار نہ ہونے دیا، ڈاکٹر آپ کی ہمت اور استقامت و تقویٰ پر ششدر رہ گیا-

     علمی و تبلیغی کارنامے:

   حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز ایک بلند پایہ خطیب، مایہ ناز ادیب اور یگانہ روزگار عالم و فاضل تھے- دین متین کی خدمت و تبلیغ، ناموسِ مصطفےٰ صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حفاظت، قوم کی فلاح و بہبود ان کی زندگی کے اصل مقاصد تھے، اور یہی سچ ہے کہ وہ غلبہ اسلام کی خاطر زندہ رہے اور سفر آخرت فرمایا تو پرچمِ اسلام بلند کرکے اس دنیا سے سرخرو اور کامران ہوکر گئے- آپ کے والدِ ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے خود ان کی علمی و دینی خدمت کو سراہا ہے اور ان پر ناز کیا ہے مسلک اہل سنت وجماعت کی ترویج و اشاعت کی خاطر آپ نے برصغیر کے مختلف شہروں اور قصبوں کے دورے فرمائیں ہیں، گستاخانِ رسول وہابیہ سے مناظرے کیے ہیں سیاست دانوں کے دام فریب سے مسلمانوں کو نکالا ہے- شدی تحریک کی پسپائی کے لیے جی توڑ کوشش کی ہے اور ہر جہت سے باطل اور باطل پرستوں کا مقابلہ کیا ہے-

     سیاسی بصیرت اور حمایت حق:

   حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز سیاست دانوں کی چالوں کو خوب سمجھتے تھے اور اپنے زمانے کے حال سے پوری طرح باخبر رہ کر مسلمانوں کو سیاست و ریاست کے چنگل سے بچانے کی ہر ممکن جد وجہد کرتے رہتے تھے، ساتھ ہی ساتھ اس آندھی میں اڑنے والے مسلم قائدین اور دانشوران سے افہام وتفہیم اور حق نہ قبول کرنے پر ان سے ہر طرح کی نبرد آزمائی کے لیے بھی تیار تھے-
     مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی پر ان کی کچھ سیاسی حرکات اور تحریرات کی بنا پر سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے ان پر فتویٰ صادر فرمایا، مولانا عبد الباری صاحب نے نجدیوں کے ذریعے حرمین شریفین کے قبہ گرانے اور بے حرمتی کرنے کے سلسلے میں لکھنؤ میں ایک کانفرنس بلائی تھی، حضرت حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز جماعت رضائے مصطفےٰ کی طرف سے چند مشہور علماء کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لے گئے، وہاں مولانا عبد الباری صاحب اور ان کے متعلقین و مریدین نے زبردست استقبال کیا اور مولانا عبد الباری نے حضور حجتہ الاسلام سے مصافحہ کرنا چاہا تو آپ نے ہاتھ کھینچ لیا، اور فرمایا کہ جب تک میرے والد گرامی کا فتویٰ ہے اور جب تک آپ توبہ نہیں کرلیں گے میں آپ سے نہیں مل سکتا-
حضرتِ مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی کا لقب صوت الایمان تھا، انہوں نے حق کو حق سمجھ کر کھلے دل سے توبہ کرلی اور یہ فرمایا ،، لاج رہے یا نہ رہے میں الله تعالیٰ کے خوف سے توبہ کررہا ہوں مجھ کو اسی کے دربار میں جانا ہے- مولوی احمد رضا خاں نے جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا ہے-

     آپ کی عربی دانی کا ایک اہم واقعہ:

  حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز کو ایک بار دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف میں طلباء کا امتحان لینے اور دارالعلوم کے معائنہ کے لیے دعوت دی گئی- طلبا کے امتحان وغیرہ سے فارغ ہو کر جب آپ چلنے لگے تو مولانا معین الدین صاحب اجمیری نے دارالعلوم کے معائنہ کے سلسلے میں کچھ لکھنے کی فرمائش کی- آپ نے فرمایا فقیر تین زبانیں جانتا ہے، عربی فارسی اور اُردو، آپ جس زبان میں کہیں لکھ دوں، مولانا معین الدین صاحب اس وقت تک اعلیٰ حضرت یا حجتہ الاسلام سے اتنے متاثر نہ تھے جتنا ہونا چاہیے انہوں نے کہ دیا عربی میں تحریر کردیجیۓ- 
     حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز نے قلم برداشتہ کئی صفحہ کا نہایت ہی فصیح و بلیغ عربی میں معائنہ تحریر فرمایا- حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز کے اس قلم برداشتہ لکھنے پر مولانا معین الدین صاحب حیرت زدہ بھی ہورہے تھے اور سوچ بھی رہے تھے کہ نہ جانے کیا لکھ رہے ہیں کیونکہ ان کو بھی اپنی عربی دانی پر بڑا ناز تھا-
     جب معائنہ لکھ کر حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز چلے آئے تو بعد میں اس کے ترجمے کے لیے مولانا مرحوم بیٹھے تو اُنہیں حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز کی عربی سمجھنے میں بڑی دقت پیش آئی، بمشکل تمام لغت دیکھ کر ترجمہ کیا وہ بھی پورا ترجمہ نہیں کر سکے اور بعض الفاظ انہیں لغت میں بھی نہ ملے، بعد میں انہیں عرب علماء کی زبان اور ان کی کتب سے حاصل ہوئے تب جاکر انہیں ان الفاظ اور محاوروں کا علم ہوا- 

     حج و زیارت:

   آپ زیارتِ حرمین شریفین سے بھی مشرف ہوئے- 1323/ ہجری میں اپنے والدِ گرامی امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تشریف لے گئے- یہ حج آپ کا علمی و تحقیقی میدان میں عظیم حج تھا، اور جو کارہائے نمایاں آپ نے اس حج میں ادا فرمائے وہ الدولتہ المکیہ کی ترتیب ہے، جسے سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے صرف آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں قلم برداشتہ لکھا، مذکورہ کتاب کے اجزاء حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز کو دئے جاتے تھے تو آپ ان کو صاف کرتے تھے، پھر اس کا ترجمہ بھی آپ ہی نے کیا، یہ ترجمہ بہت ہی اہم ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، زیارتِ سرکارِ مدینہ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا اشتیاق جس درجہ آپ کو تھا اس کا صحیح اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے:

            اب   تمنا   میں   دم  پڑا ہے یہی  سیارہ  زندگی کا
           بلالو مجھ کو مدینہ سرور نہیں تو جینا حرام ہوگا
دوسرا حج آپ نے 1334/ ہجری میں ادا فرمایا-

     تصنیفی و علمی کارنامے:

   حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز صاحبِ تصنیف بزرگ تھے، آپ کی علمی جلالت کا صحیح پتہ اور علم تو آپ کی تصانیف سے زیادہ ممکن ہے- ذیل میں آپ کی قلمی یادگار کی نشاندھی کی جاتی ہے ملاحظہ فرمائیں:
             *الصارم الربانى على اسراف القاديانى 
سب سے پہلے آپ نے 1315/ ہجری میں قادیانیوں کا رد لکھا-
            *ترجمه الدولة المكيه بالمادة الغيبيه
            *حسام الحرمين على منحر الكفر والمين
            *حاشیہ ملا جلال
            *مقدمہ الاجازات المتینہ
            *نعتیہ دیوان
            *مجموعہ فتاویٰ

     کشف و کرامات:

حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز کے کشف وکرامات میں سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ مذہب اہل سنت پر بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت آپ کے ہر عمل سے ہویدا تھی-

      باکرامت مدرس:

حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز ایک تجربہ کار مدرس اور تدریسی امور میں مہارت تامہ رکھتےتھے، ایک بار دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے چند اہم مدرسین مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے- تو حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز نے علوم وفنون کی تمام اہم کتابیں خود پڑھانی شروع کردیں اور اس طرح پڑھائیں کہ ان مدرسین کا وہ خیال غلط ثابت ہوا جو یہ کہتے تھے کہ ہمارے بغیر طلباء مدرسہ چھوڑ دیں گے- آپ کی تدریسی مہارت اور علمی لیاقت کا شہرہ سن کر بہت سارے دوسرے قابل طلباء دارالعلوم میں مزید داخل ہوئے-

     اولادِ امجاد:
    حضور حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز کے دو صاحب زادے اور چار صاحب زادیاں تھیں - صاحبزادگان کے نام یہ ہیں
*حضور مفسر اعظم ہند حضرتِ مولانا ابراھیم رضا خان جیلانی میاں
*حضرت مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں قدس سرہ

     وصال:
   حضور حجتہ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ 17/ جمادی الاول 1362/ ہجری، مطابق 23/ مئی 1943/ عیسوی بعمر 70/ سال عین حالتِ نماز میں دوران تشہد 10/ بجکر 45/ منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے - 
                        انا لله وانا اليه راجعون 
جنازے کی نماز آپ کے خلیفہ خاص حضرتِ محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قدس سرہ العزیز نے مجمع کثیر میں پڑھائی- آپ کا مزار مبارک خانقاہ عالیہ رضویہ بریلی شریف میں والد ماجد کے پہلو میں ہے- ہر سال عرس مبارک کی تاریخ میں بیشمار علماء ومشائخ کے ساتھ عوام شریک ہوتے ہیں اور اپنے اپنے دامنوں کو گوہر مراد سے پر کرتے ہیں- بریلی شریف کی خانقاہ کے علاوہ بھی برصغیر پاک و ہند میں آپ کے بے شمار متوسلین مذکورہ تاریخ پر آپ کے روحانی فیض سے مستفیض ہوتے ہیں-

        *کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
               iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter