سی ایچ عیدروس مصلیار: شخصیت اورخدمات (قسط- 2)

جناب عید روس صاحب1969؁ ء تک ایک ہی جگہ جمے رہے 15/سال بعد جب جمعیۃ العلماء کیر الا کے آرگنائزر بن گئے، تب انہوں نے درسگاہ کو الوداع کہکر ہمہ تن تبلیغ دین واسلام میں مشغو ل ہوگئے۔

تلامذہ:آپ کے مشہور تلامذہ میں کچھ حضرات یہ ہیں مولانا فرید مسلیارمرحوم،مدرس چماڈ جامع مسجدجو فقہ شافعی میں کافی درک رکھتے تھے ڈاکٹر بہاء الدین محمد ملیباری وائس چانسلردارلہدی یونیورسٹی جوعربی ادب میں دسترس رکھتے ہیں،پی پی محمد فیضی،سکریٹری ایس وائی ایس، ضلع ملا پورم وجمعیۃ العلماء کیر الا مشاورہ ممبرتھے، ان میں بہاء الدین محمدصاحب،آپ کے داماد ہیں۔

 اولاد: آپ کی زوجہ عائشہ حجن سے آٹھ اولاد ہیں جن میں چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

آپ کے داماد: بہاء الدین محمد‘  کنچدو فیضی‘ کے عبد العزیز مولوی‘ ایم عبدالرحمن باقوی‘ کے محمد فیضي‘ یعقوب دارمی،

تصنیف: اصلاحی کامو ں میں مشغول ہو نے کی وجہ سے زیادہ تصنیف وتالیف میں وقت نہ دے سکے اس لیے آپ کی تصنیف کا دائرہ بہت سمٹا ہواہے اور آپ نے ایک کتاب لکھی وہ بھی ملیالم زبان میں۔ نسکارم وروکرماساشتراویشکلانم (یعنی نماز کابیان)  یہ کتاب مفید خاص و عام ہے۔

سفروحضر: سفر و حضر میں ہمیشہ ا وراد و ظائف کیا کرتے قران شریف کی تلا وت میں بھی منہمک رہتے ساتھ ہی دلائل الخیرات کا ورد کیا کرتے تھے

انداز گفتگو:بہت ہی نرم و مشفقانہ رویہ اختیار کرتے تھے خو اہ بڑے ہو ں یا چھو ٹے سبھی سے اس طر ح ملا کر تے تھے جیسے کوئی باپ اپنے پچہ سے استاذاپنے شاگرد سے ملاکر تا ہے کبھی چھو ٹوں سے گفتگو کرتے وقت اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے کا ن بھی پکڑتے اور آہستہ آہستہ مسلتے جاتے مثل باپ کے جو اپنے بیٹے کو حد سے زیادہ چاہتاہے او رمحبت کرتا ہے تو گوشما لی کی طر ح انگلیوں کو گھما تارہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی حضرت کے قائل ہوجاتے اور اس کے دام محبت سے آزاد نہیں ہو پاتے اور تا دم مر گ ان کے دل میں حضرت کی جگہ برقرار رہتی۔  

 خدمات وکرامات: روز مرہ کے کامو ں میں امر بالمعروف نہی عن المنکر ان کا اہم مشغلہ تھا۔ نصیحت اتنے عمد ہ انداز کرتے کہ بڑے؛چھوٹے رئیس وفقیر ہر شخص ان کی نصیحت پر عمل کیے بغیر راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا نصیحت کرنے کا ان کا ایک خاص انداز تھا جس سے انسیت و شفقت پدرانہ ٹپکا کرتی تھی۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ان کا خاص وطیرہ تھا۔

                 بیان کیا جاتا ہے کہ سیدمحمد علی شہاب صاحب مرحوم  پانکاڈ چیرمین مسلم لیگ جب ابتدائی عمر میں حج سے واپس ہوئے اور ایسا موقعہ آیا کہ حضرت عیدروس صاحب اور سید صاحب دونو ں ایک ہی کا رمیں شریک سفر ہوئے اس و قت عنفوان شباب میں سید صاحب داڑھی نہیں رکھا کرتے تھے تو حضرت عیدروس صاحب نے بڑے ہی نرم دلی او رمشفقانہ طور سے ان کی ٹھوڑی کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا آپ حج سے فارغ ہو کر حاجی ہو گئے لہذاآ پ کو داڑھی زیب دے گی اس لئے اس جگہ داڑھی چھوڑنا مناسب ہے۔چنانچہ اس نصیحت کا یہ اثر ہوا کہ سیدصاحب نے اس کے بعد داڑھی رکھنی شروع کر دی او رہمیشہ اس نصیحت پر عمل پیر ارہے اور کبھی بھی اس کے بعد پورے طو رسے داڑھی نہیں مو نڈایایہ بھی آپ کی نصیحت کا ادنی اثر ہے کہ جس کی مثال رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔

رہنے سہنے کا ڈھنگ: نہایت ہی ساد ہ  انداز سے رہتے تھے کسی طرح کی کو ئی خواہش نہیں تھی کہ آپ اس طر ح کا لباس اختیار کریں جیسا کہ دیگر حضرات پسند کرتے تھے انکا لباس سفید قمیص،لنگی، سرپرٹوپی معہ عمامہ دائمی طو رسے استعما ل کرتے تھے ان کا رہن سہن اتنا عامی تھا کہ آپ تارک الدنیا کے مصداق تھے جسے دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ دعوتی ودینی پروگراموں یا اور کوئی مشاغل ہمہ وقت سادہ مزاجی سے کام لیتے تھے حضرت کو نہ اس کی پرواہ تھی کہ سفرکیسے کرنا ہے رات کہا ں گذارنی ہے کھانا کہاں کھاناہے بس جو میسرہوگیا اسی پر اکتفا کرتے اور شکر خد ا بجالاتے جب جہا ں جس سے ملاقات ہو ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے اور بالفرض اسکی طر ف سے کو ئی پریشانی بھی ہو تو حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے بلکہ خو ش اطو ارسے پیش آتے۔

                 میلوں کا سفربھی پید ل کرتے اگرراستے میں گاڑی مل گئی تو بہت خوب ورنہ پاپیادہ ہی عازم سفر ہو جاتے لیکن پیشانی پر ذرہ برابر بھی تھکن اور تکلیف کے  ا ٓثار نمودار نہیں ہوتے دینی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تو بھی خلوص نیت کیساتھ نہ ان کی طر ف سے کوئی ڈیمانڈ ہو تا اور نہ ہی نذارنہ کی خو اہش ہوتی یہاں تک کہ گاڑی کی پیش کش کو ٹھکر ادیتے او رحتی الامکان آنے جانے کا کرایہ بھی خو دکے جیب خاص لگا کر دینی خدمات انجام دیتے۔

  حضرت عیدروس صاحب:ایک ایسے بے مثال عالم بزرگ تھے جنہوں نے حیات مستعار کاہر ہر لمحہ امت مسلمہ کی تعلیم اور دین اسلا م کی اشاعت وترقی مین قربان کردی اپنی زندگی کا بیشتر اوقات دین اسلا م سے بھٹکتے ہوؤں کو راہ راست پر لانے مین صرف کردی بڑے عالم عظیم مفکرہونے کے سا تھ مخلص عابد واللہ والے تھے تواضع و اخلاص و ورع و تقوی کے مثا ل خو د آپ تھے توکل علی اللہ کا جذبہ رگوں میں موجزن تھا سنت نبوی کی پیروی  اور روبہ عمل لانے میں ہمیشہ سرگردان رہتے تھے یوں کہیے کہ ایک سچے عاشق رسول ومتوکل علي اللہ تھے آپکو ہر وقت مسلمانوں کی پسماندہ حالت پر افسوس ہوتا آ پ کے نظریہ میں دعوت بہت مؤثر علاج تھاکیرالا کی سرزمین مین نور اسلام کو پھیلانے کے لئے کیر الا خصو صا ملاپورم کے ہر ہر گوشے میں سفر کیاحضرت نے نو جوانوں میں اسلامی تعلیم عام کرنے کیلئے بڑی تگ و دو کی انہوں نے ہی بہت سی تعلیمی شوشے نکالے انہی میں سے ایک فکر یہ بھی ہے کہ مادی ودینی علوم یکجا پڑھائی جائے تاکہ امت مسلمہ بیک وقت دونوں علم سے بہر ورہ ہوں جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے دو ست ایم ایم بشیرمسلیار سے کیاپھر دونوں حضرا ت عالی جناب باپوٹی حاجی صاحب مرحوم اس سلسلے میں ملا قات کی چو نکہ ان کا ذہن بھی ان سے ہم مزاج تھا ساتھ ہی دیندار ی بھی تھی لہذا ان خیالات سے حا جی صاحب بھی متفق ہوئے او راپنے اسی خو اب کو سنجونے کے لئے دارالہدی کو بڑی عرق ریزی سے قائم کیا آج جو ملاپورم میں علمی برتری ہے یہ انہی کی رہین منت ہے۔   

                مو لانا سی ایچ عیدروس صاحب منکسرالمزاج متقی و پرہیز گار و پر وقار عالم دیں تھے جنکی زندگی اطاعت الہی و اسو ہ ء رسول کی پیروکارتھی وہ خلوص للہیت کے پیکر تھے انہوں نے اپنی حیات مستعار کے ہر لمحہ کو ذکر خدا ورسو ل ﷺکی تسبیحوں سے مزین ومنو رکررکھاتھا ان کی زندگی اسوۂ رسو ل ﷺکی آئینہ دار تھی سادہ مزاجی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا تبلیغ دین کی سعی میں بیشمار تکالیف کا سامنا کیا مگر ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابر جنبش تک نہیں آئی او روہ ایسے ہی جمے رہے جیسے کو ہ ہمالہ اپنی جگہ پر منجمد ہے۔ کیرالاکی سرزمین ان کے فیوض علمی سے تادم حیات بہرہ مند ہو تی رہے گی او ران کے بیان کیے ہوئے طریقہ درس وتدریس سے تاقیامت مستفیض ہوتی رہے گی۔

                دینی مدارس کے قیام ان کے انمٹ نقوش ہیں ان کی عروج وترقی میں ہمہ تن کو شش محنت شاقہ سے دوچارہو تے رہے مگر کیا مجا ل کہ و ہ اپنے ارادہ سے باز آئے وہ اپنے دھن کے پکے او رباتوں کے سچے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے دل وزبان پاک وصاف تھے جو با ت دل میں ہوتی وہی زبان پر اور جو کا م انجام دیتے پو ری یکسوئی کسیاتھ رو بہ عمل لاتے احیا ء علوم دین میں ہمیشہ سرگرعمل رہتے علم دین کی اشاعت میں راتوں رات پاپیادہ سفرکرتے لیکن سفر کے باوجود عبادت وریاضت میں پیچھے نہیں رہتے بلکہ سفروحضر میں بھی عبادت کو اپنے گلے سے لگایا اور اسے کسی بھی وقت خو دسے جد ا نہیں کیا۔

                ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ دارلہدی کے چندہ کے لئے کہیں رات میں عازم سفرتھے ان کے ساتھ او ربھی لوگ شریک سفرتھے مہینہ رمضان کاتھا دن بھر روزہ رکھکر دارالہدی کے رقوم جمع کرنے میں سرگرداں رہے اور پھر دوسری جگہ جانے کے لئے را ت میں سفر کررہے تھے کہ عشاء اذان ہوگئی آپ نے ہمر ایوں کیساتھ روڈپر ہی عشاء کی نماز شروع کردی تروایح پڑھی اور بعد نماز آپنے سفرکے لئے روانہ ہو گئے۔

ایک مرتبہ آپ کہیں دینی تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تھے راستے میں تاخیر ہوگئی زمانہ قدیم میں اتنی سفرکی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی کہ آپ رات ہی میں گھر واپس ہو سکتے انہوں نے سوچا کہ اگر مسجد ملجائے تو بعد نماز وہی شب باشی کرلوں گا  لہذاکٹّی پورم میں اتر کر قریب کہیں مسجد کی تلاش میں نکل پڑے تھوڑی جستجو کے بعد مسجد پالیا چونکہ عشاء کی نماز نہیں پڑھی تھی اندر آئے وضوکی بعدہ مسجد کے موذن ونگراں سے مسجد کے اندرونی حصہ کھولنے کی درخواست کی تاکہ نماز اد ا کی جائے وہ شخض حضرت کو پہچانتا نہ تھا رات زیاد ہ بیت جانے کی وجہ سے میٹھی نیند کے مزے لے رہاتھا حضرت کی مداخلت برداشت نہ کرسکا سیخ پا،ہوکر بولا، کو ن ہے؟جو اتنی رات گئے مسجد کھولنے کے لئے کہتا ہے حضرت نے بڑی نرم دلی سے فرمایا کہ میں ایک مسافرہوں رات بہت گذرجانے کی وجہ سے گاڑی نہیں ملی لہذا آپ رات گذارنے کی جگہ دیدیں تو بڑی مہربانی ہوگی وہ غضب آلود ہوکر ڈانٹتے ہوئے تحکمانہ انداز میں کہا رات میں مسجد بند ہو جانے کے بعد کھولی نہیں جاتی اتنا کہکر وہ سوگیا حضرت بڑی منت سماجت کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

                آخرکار حضرت نے بادل نخو استہ  حوض کے قریب اپنے تولیہ کو پچھایا جو ہمیشہ صافے کے طور پر سرمیں باند ھتے تھے اور اس پر نماز اداکی پھراسی جگہ حو ض کے کنارے جہاں پاؤں وغیرہ دھویا جاتاہے اپنا بیگ سرہانے رکھکر تھوڑی استراحت کے لئے پیٹ سیدھی کی نیند کیا آتی بس اور اد وظائف پڑھتے پڑھتے رات گذاری صبح کے وقت باجماعت نماز اداکی نماز سے فراغت کے بعد کچھ مقتدی حضرا ت جو ان سے آشنا تھے باآدب آکر حضرت سے ملاقات کر کے دست بوسی کی مؤذن نے جویہ سما ں دیکھا اس کے پاؤ ں تلے زمین کسکھتی محسوس ہوئی دل میں سوچا ہو نہ ہو یہ کو ئی بڑی عظیم ہستی ہے تبھی تو لوگ ان سے ملاقا ت کا شرف حاصل کرکے دعاکی درخواست کر رہے ہیں ہمت کر کے اس نے ایک شخص سے پوچھا یہ کون ہیں اس نے کہا آپ نہیں جانتے؟ بولا نہیں؟ اسنے  بتایا یہی تو حضرت سی ایچ عیدروس استاذ ہیں اتنا سننا تھا کہ اسکا دل اندرہی اندر ہی ملامت کرنے لگا نہایت پشیماں و رنجیدہ خاطر ہوا معا اسے خو ف بھی محسو س ہو ا کہ اگر حضرت نے ہمار ے ناروا سلوک کی شکایت کر دی تو ہمارا کیا ہو گا بہر حا ل شرمسار ہو کر بارگاہ میں حاضر ہو اپاؤں میں کرکر ندامت کیساتھ معافی کی درخواست کی حضرت نے اس کو باوقار اند از میں بٹھایا۔ فرمایا گھبرانے کی کو ئی بات نہیں ہے میں تم سے ناراض نہیں ہوں بلکہ تمہارے کا م سے بہت خو ش ہوں کہ تم اتنے خو ش اسلوبی سے خدمت انجام دے رہو یقینا اسی طر ح پور ی محنت و ایماندار ی سے اپنا کام انجام دینا چاہیے ہا ں یہ ضرور ہے کہ مسافرکی تفتیش کے بعد ہو سکے تو ا سکی مدد کرنی چاہیے۔ غورفر مائیں حضرت کی پیشانی پر ناگوار ی کے آثار تک نہیں تھے اگر حضرت چاہتے تو اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکتے تھے مگربخوشی معاف کردیا او رساتھ ہی شاباشی دی تاکہ کسی پشیمانی کا احساس نہ ہو۔

 سچ کہا ڈاکٹر اقبا ل نے

                غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمسیریں                    جو ہو ذوق یقین پید اتو کٹ جاتی ھے زنجیریں

                 یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم                                  جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمسیریں

                آپنے دعوت کی اہمیت او رحسن خلق کا طریقہ خود ہی سنبھالا تھا آپنے ایک ممتاز زندگی گذار ی جس کا لو گو ں کو اعتراف بھی ہے جب آپ مرض الموت میں مبتلا تھے تو اآپنے اپنی زوجہ کہاتھا ”عمل تو نہیں ہے“ جبکہ پوری زندگی زہد وتقوی میں بسرکی، حب رسول آپ کے خون میں موجزن تھا ایک مرتبہ کسی پروگرام سے لوٹ رہے تھے آپکے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے سواری میں معلوم ہو اکہ ربیع الاول کا چاند دیکھا جاچکا ہے اس وقت آپنے جھوم جھوم کردرود  پڑھنا شروع کیا اور لوگو ں کی بھی تلقین کی ہمیشہ آپ کو تبلیغ کا لگن سوار رہتا جس میں کسی رکاوٹ کو خاطرمیں نہیں لاتے ہر مصیبت کو نظرانداز کرتے ہو پس پشت ڈالتے ہوئے آگے کی سمت روانہ ہو جاتے سی ایچ عیدروس مسلیارکی حیات دعوت وتبلیغ کا مجموعہ تھی صبح سویرے اٹھنا نماز پڑھکر سفرطے کرنا را ت گئے دیر تک گھر لوٹنا او روہ بھی بغیر تکیہ وبستر کے سونا آپ کامعمو ل بن چکاتھا۔

                 1964 میں ضلع ملاپرم کے والاکلم میں بارش کا نام ونشان نہیں تھا دن بدن انکی مشکلات وکلفات میں اضافہ ہو رہاتھا وہاں کے چند لوگ حضرت کی بارگاہ میں حاضرہوئے اور اپنے گاؤں کے حالات سے واقف کرایا اور اسی مناسبت سے ایک تقریری پروگرام رکھا جسمیں حضرت کو خصوصی طو رسے مدعو کیا گیا چنانچہ حضرت تشریف لے گئے تقریرکے بعد حضرت نے بارگاہ الہی میں گڑگڑا کر کچھ اس طر ح دعا ء مانگی کہ رحمت بار ی جو ش میں آئی اور حضرت ابھی دعاء سے مکمل طو رپر فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ بار ش شروع ہو گئی او رلوگ خو شی سے جھوم اٹھے۔

                سی ایچ عیدروس مسلیار او ر”کنیا پو حاجی،، دونو ں سا تھ ساتھ حج کیلئے تشریف لے جارہے تھے ممبئی پہنچنے کے بعد ان کی جماعت میں سے ایک عورت بیمار پڑگئی لوگ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے ڈاکٹر نے معائینہ کرنے کے بعد کہا یہ اب حج کا سفر نہیں کر سکتی لو گ بڑے مایو س ہوئے یہ خبر حضر ت سی ایچ عیدروس صاحب کو ملی حضرت نے اس کی شفاکیلئے دعاء فرمائی اللہ تعالی نے دعاء قبول فرمائی اور وہ فورا شفایاب ہوگئی پھر جب دوبار ہ چیک کیاگیا تو بیمار ی دو رہو چکی تھی او ر وہ عورت حج کے لئے روانہ ہوئی۔

                آپ نے کئی ادارے بنائے خاص کرجمعیۃ العلماء کیرا لا کی ترقی میں نمایاں وکلیدی رول اداکیا انہیں جمعیۃ العلماء کیرا لا کا عظیم مبلغ کہاجاتاہے دارلہدی یونیورسٹی کی تاسیس میں بھی اہم کردار کیا تھا اس کے علاوہ بھی بہت سے اہم عہدوں پر فائز تھے جیسے نائب صدر جمعیۃ العلماء کیرالا, صدر سنی انجمن شباب‘ چیرمین،جمعیۃ العلماء کیرالا تعلیمی بورڈ‘ موسس سنی محل فڈریشن‘ پرنسپل اسلامک کامپلیکس،بہت سے جامعات اپ کی قیادت میں چلتے تھے جیسے جامعہ نوریۃ عربیۃ پڈی کاڈ،ولوننوربافقیہ یتیم خانہ‘ کوٹملااسلامک کامپلیکسں،مرکز الثقافۃ الاسلامیۃ کنڈّورمجلس معونۃ الاسلام پناّنی،مرکز التربیۃ الاسلامیہ ولانجیری‘ پی ام ایس اے پوکویا تنگل یتیم خانہ چیرور۔  

وفات:یہ عظیم ہستی جو کئی جہات سے ہمارے لئے قابل تقلید تھی ۶۲ ذی القعدہ  ۶۱۴۱ھ؁ مطابق  ۶مئی جمعہ کے دن ۴۹۹۱؁ کومالک حقیقی سے جاملا وفات سے ایک ماہ قبل علیل ہو گئے تھے اپنے آخری  ایام میں دارلہدی میں اپنا قیمتی وقت دیاتاکہ ان کا دیرینہ خواب پایہ تکمیل کو پہنچے انتقال کے دن بعد عصر گھر تشریف لے گئے او ر اپنے ہی گھر میں انتقا ل فرمایا جیسے انہیں ان کا علم ہو گیا ہو کہ اب مین اس دار فانی میں نہیں رہوں گا  اس لئے اپنے قرض خو اہ کو بلایا او رتمام قرض وغیرہ اد ا کردیا لوگو ں نے عرض کیا حضور اتنی جلدی کیا ھے فرمایا پتہ نہیں کل میں رہوں یا نہ رہوں اور ہو ا،ویسا ہی اسی رات قبل فجر رحلت فرما گئے تب لوگو ں کو احسا س ہو ا کہ حضر ت سچ ہی فرمارہے تھے۔

انا للہ واناا لیہ راجعون، آپ کا مزارپرانوار والاکلم عبدالباری مسلیار قدس سرہ کے قریب ہے

فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبر ی تیری                    خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کاروان تجھ پر

ان کے انتقا ل پر ملا ل پرافاخر علما ء نے اس طر ح تعزیت نامہ پیش کیا ہے

                شمس العلماء ای کے ابوبکر مسلیار صاحب   فرماتے ہیں کہ سی ایچ عیدروس صاحب بڑے صوفی پاکباز ونیک وصالح تھے جو میر ے  دوست ہونے کیساتھ ساتھ  بڑ ے مستجاب الدعوۃ تھے ان کا مستجا ب الدعوۃ ہونا ہما رے بارہا تجربہ سے ثابت ہے انکا اس دنیا سے روپوش ہونا اہل سنت کے لئے ایسا سانحہ ہے جو بھلائے نہیں بھلا یا جاسکتا۔

                کے کے ابو بکرحضرت کہتے ہیں سی ایچ عیدروس صاحب ہمارے بہت ہی مخلص دوست میں تھے او رجمعیۃ العلماء کیرالا  کے ایک اہم حصہ تھے جسکا ارتحال اہلسنت کی جماعت میں ایک ایسا خلا ہے جو شاید ہی پر ہو سکے انکی یا د قوم کو ہمیشہ ستاتی رہے گی۔

                مو ضع اورگم‘تعلقہ وینگر ا‘ضلع ملاپورم میں مدرس تھے تو ہفتہ عشرہ میں پو کویا تنگل سے ملاقات کے لئے تشریف لیجایا کرتے تھے جس سے باہم بڑے گہر ے رشتے استوارہوگئے تھے  

                 سید حیدر علی شہاب صاحب فرماتے ہیں سی ایچ عیدروس صاحب بہت ہی مخلص ہونے کیساتھ ساتھ جماعت اہل سنت کے لئے رول ماڈ ل یعنی نمونہ تھے.

ان کے مو ت کی خبر صرف ہمارے لئے باعث تکلیف نہیں ہے بلکہ پوری قو م وملت کے لئے افسوس ناک خبر تھی جب میں ا نکے بارے میں کچھ کہتا ہوں تو مجھے زمانہ ماضی کا وہ دور یاد آنے لگتا ہے جو ان کے اور ہما رے والد کے درمیان گذرے ہیں ہمار ے والد کے انتقا ل سے وہ بیحد رنجیدہ خاطرتھے ان کے لئے ان کی قبر کے قریب بڑے ملال سے دست بدعاء ہوتے جب پانکاڈ آتے میر ے والد کی زیارت کے لئے ایک خاص وقت متعین کرکے ملاقات کا شرف حاصل کرتے تھے۔ پٹی ّکاڈ جامعہ نو ریہ کی تشہیرمیں ہمارے والد اور کو ٹو ملا ابوبکر استاد او رسی ایچ عیدروس صاحبان رات ودن سرگراداں رہتے او ر رات ہو جاتی تو ہمارے ہی مکان میں آرام فرماہوتے جامعہ کی خدمات میں جو انہوں نے اہم رول اد اکیے ہیں یقینا لائق ستائش وقابل تعریف ہے جو رہتی دنیا تک یا د کیا جانے کے لائق ہے۔

                ولوننو بافقیہ یتیم خانہ۔ چیرور یتیم خانہ،دارالہدی اسلامیک یونیور سٹی ملاپورم،کو ٹو ملاابوبکرمسلیار کامپلیکس کی تعمیری کاموں میں جو کارنامے ان کے ہیں شاید ہی انہیں فراموش کیاجاسکتا ہے۔ سنی محل فڈریشن تحریک کے بنانے میں انہوں نے ایم ایم بشییر مسلیار کے ساتھ نمایاں کردار انجام دیے فیڈریشن کے تحت مختلف کلاسس او رمحلوں کی ترقی کے لئے محل کے کارکناں کو اسلام کی مختلف خدمات کی ترغیب میں انتھک کو شش کی ہیں۔

٭٭٭

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter