صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے  چند رہنما خطوط (تیسری قسط)

(3) اسلام میں پردے کی اہمیت و ضرورت 
      حجاب کا معنی و مفہوم : 
     حجاب کا لغوی معنی پردہ اور رکاوٹ ہے بلفظ دیگر ہر وہ شی جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اسے حجاب کہتے ہیں۔ دربان کو حاجب اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ مالک کی اجازت کے بغیر اندر آنے والوں کو روک دیتا ہے۔ اسی طرح آنکھ اور بھوؤں کو "حاجب" اور "حواجب" اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ضرر رساں چیزوں کو آنکھوں میں پڑنے سے روک دیتی ہے۔ 
عرف عام میں ہر وہ چیز جو عورت کو غیر محارم کی نگاہوں سے بچائے اسے حجاب اور پردہ کہتے ہیں۔ 
     آیت حجاب اور شان نزول :

     حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالتﷺ میں عرض کیا : یارسول اللہ ! ﷺ آ پ کی خدمت میں نیک و بد ہر قسم کے لوگ آتے ہیں کاش کہ آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرماتے۔ اس وقت یہ آیت حجاب نازل ہوئی : 
یٰۤاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ الخ  [ الأحزاب الآیۃ : 53] 
(تفسیر ابی سعود, الجزء السابع, ص 112) 

     اس آیت مبارکہ کے شان نزول کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام ایک بار اپنے بعض صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے اسی اثناء میں اضطرارا کسی کا ہاتھ أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ سے لگ گیا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ ناگوار لگا اس وقت آیت حجاب نازل ہوئی.

لیکن صاحب تفسیر ابی سعود نے اسے قیل سے بیان کیا ہے اس لیے قول راجح پہلا ہی قول ہے. 
      اس آیت کا شانِ نزول اگرچہ خاص ہے لیکن یہ حکم تمام مومنوں کے گھروں کے لیے عام ہے لہذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی کے گھر جائے تو بغیر اجازت گھر کے اندر قدم نہ رکھے یہ حکم فطرت کے تقاضے کے عین مطابق بھی ہے اس لیے کہ مرد کام کاج یا دیگر ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکل جاتے ہیں عورتیں گھروں میں تنہا رہ جاتی ہیں نیز ہمہ وقت ستر عورت کی بھی  احتیاط نہیں کر پاتی ہیں نہ جانے وہ کس حال میں ہیں ؟ ایسی حالت میں کسی کا گھر میں بے اجازت  آجانا عقلِ سلیم کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دے سکتی اور اگر شوہر گھر میں ہے بھی تو میاں بیوی نہ جانے کس حال میں ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ مخصوص حالت میں ہوں ایسی صورت میں ان پر کسی اجنبی کی نظر پڑ جائے تو یہ ان کے لیے شرم کا باعث ہوگا اسی لیے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے کہ جب کسی کے گھر جائیں تو پہلے صاحب خانہ سے اجازت لے لیں پھر گھر میں داخل ہوں آگے چل کر ہم اس پہ مزید روشنی ڈالیں گے۔ سردست ہم یہاں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پردہ نہ صرف یہ کہ عورت کا محافظ ہے بلکہ اس کی عزت و آبرو، عفت و پارسائی کا ضامن بھی ہے۔ پردہ عورت کو عزتِ نفس اور وقار عطا کرتا ہے ایک عورت کی پرسکون زندگی کا راز پردے ہی میں مضمر ہے اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۀ احزاب اور سورۀ نور کی آیات میں عورتوں کو پردے میں رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الأحزاب، الآیۃ: 59) اے نبی اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہے ہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (کنز الایمان)

      اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ازواج مطہرات سے لے کر اسلام کی دیگر شہزادیوں تک کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادر سے اپنے جسم اور منہ کو ڈھانک کر نکلیں تاکہ گلی، کوچے، چوراہوں اور نکڑ پر آوارہ گردی کرنے والے یہ جان لیں کہ یہ ایک شریف، پاکباز اور باحیا عورت ہے اور وہ انھیں چھیڑنے کی جسارت نہ کر سکیں۔

      آج ہم اپنے گرد و پیش میں یہ دیکھتے ہیں کہ جو عورتیں حجاب اور پردے کا التزام کر کے گھر سے باہر نکلتی ہیں وہ حرص و ہوس کا بہت کم شکار ہوتی ہیں۔ انسانی بھیڑیے ان کو چھیڑنے اور ان کے قریب آنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ہیں اس کے  بر خلاف وہ عورتیں جو بے پردہ گھر سے باہر نکلتی ہیں وہ بہت جلد جنسی تسکین کا سامان بن جاتی ہیں اور سر راہ ان کی عزت و آبرو کا جنازہ نکل جاتا ہے اور بسا اوقات ان کا اغوا ہو جاتا ہے اور نوبت ہلاکت تک پہنچ جاتی ہے۔ لھذا خواتین اسلام کو چاہیے کہ وہ یورپی تہذیب اور فلمی اداکاراؤں کی روش پر نہ چلیں جو نیم برہنہ یا یکسر برہنہ ہو کر اپنے حسن اور نسوانی اعضا کی نمائش کرتی ہیں اور اخبارات و رسائل اور اشتہارات کی زینت بن کر بڑی بڑی کمپنیوں کی تجارت کو فروغ دیتی ہیں اور چند سکوں کے بدلے  اپنی عزت و آبرو کا سودا کر بیٹھتی ہیں۔ مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ صحابیات کے نقش قدم پر چلیں، ان کی سیرت اور طرز زندگی کا مطالعہ کریں بالخصوص أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور شہزادیِ رسول حضرت سیدہ فاطمہ زہرا کی سیرت کو دیکھیں اور ان کی زندگی اور تعلیمات کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں!!

     اب ہم افادۀ عام کے لیے  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کے طرز زندگی اور تعلیمات کے کچھ نقوش پیش کرتے ہیں۔
    أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آیتِ حجاب کے نزول سے پہلے ہی پردے کا خاص اہتمام کرتی تھیں اور آیتِ حجاب کے نزول کے بعد تو یہ ان کی زندگی کا لازمہ بن گیا تھا یہاں تک کہ جب آپ کسی عورت کو بےپردہ دیکھ لیتیں تو بھڑک جاتیں اور پردے کی سخت تاکید کرتیں۔

    حضرت حفصہ بنت عبد الرحمٰن آپ کی بھتیجی تھیں ایک بار وہ باریک قسم کا دوپٹہ اوڑھ کر آپ سے ملنے کے لیے آئیں آپ باریک دوپٹہ دیکھتے ہی غضبناک ہو گئیں اور دوپٹہ لے کر اسے پھاڑ دیا اور فرمایا: تم نہیں جانتی ہو کہ اللہ نے سورۀ نور میں کیا حکم فرمایا ہے ؟  (طبقات ابن سعد ج: 8, ص: 50) 
     ایک بار آپ ایک گھر میں بحیثیت مہمان تشریف لے گئیں دیکھا کہ صاحبِ خانہ کی دو جوان لڑکیاں بے چادر اوڑھے نماز پڑھ رہی ہیں یہ دیکھ کر آپ نے سخت تاکید کی کہ کوئی لڑکی بےچادر اوڑھے نماز نہ پڑھے۔ (سیرت عائشہ بحوالہ مسند احمد ج: 6 ، ص: 96) 

     عورتوں کو ایسا زیور پہننا جن سے آواز پیدا ہو ؛ شرعا ممنوع ہے ایک بار ایک لڑکی گھنگرو پہنا کر آپ کے پاس لائی گئی آپ نے دیکھ کر فرمایا: یہ پہنا کر میرے پاس نہ لایا کرو اس کے گھنگرو کاٹ ڈالو! ایک عورت نے اس کا سبب دریافت کیا۔ بولیں اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ:  جس گھر میں یا جس قافلہ میں گھنٹہ بجتا ہے وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں [سیرتِ عاٸشہ بحوالہ مسند احمد ج 6 ص 225/ 240]

     اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایک لڑکی لائی گئی ؛ جس کے پیر میں گھنگرو تھے، آپ نے انھیں کاٹ دیا اور فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا ہے کہ ہر گھنگرو کے ساتھ شیطان ہوتا ہے [اسلامی اخلاق و آداب]

     ایک بار شام کی کچھ عورتیں آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوٸیں( وہاں شام ) حمام میں جاکر عورتيں برہنہ غسل کرتی تھیں آپ نے فرمایا تم وہی عورتیں ہو جو حمام میں جاتی ہو حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے: جو عورت اپنے گھر سے باہر اپنے کپڑے اتارتی ہے وہ اپنے اور اللہ میں پردہ دری کرتی ہے۔ [ایضا بحوالہ مسند احمد ج : 6 ص:  173 ]

     حضرت اسحاق تابعی ایک نابینا آدمی تھے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے پردہ فرمایا، تو وہ بولے مجھ سے کیسا پردہ؟  میں تو ایک نابینا آدمی ہوں آپ نے فرمایا: لیکن میں تو تمھیں دیکھتی ہوں [طبقاتِ ابن سعد جزء نساء ص : 47]

      یہ أم المؤمنین حضرت عاٸشہ صدیقہ کا کمال احتیاط ہے کہ جب آپ کے حجرے میں امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی تدفین ہوگٸی تو اس کے بعد آپ اپنے حجرے میں بغیر پردہ کیے نہیں جاتی تھیں ؛ جب کہ انتقال کر جانے والوں سے شرعا کوئی پردہ نہیں ہے۔

 عہدِ رسالت ﷺ میں عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت تھی اور وہ نماز کے لیے مسجد میں جایا بھی کرتی تھیں ؛ لیکن جب عورتوں کا مسجد میں جانا فتنے کا باعث بن گیا تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عورتوں کا مسجد میں جانا ممنوع قرار دے دیا عورتوں نے جب اس کی شکایت أم المؤمنین حضرت عاٸشہ سے کی تو آپ نے فرمایا: حضرت عمر فاروق کو اس وقت کی عورتوں کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا اگر اللہ کے رسول ﷺ کو اس کا علم ہوا ہوتا تو وہ بھی تمھیں مسجد میں جانے کی اجازت نہیں دیتے [فتح القدیر مع الکفایہ ج : 1 ص : 317 ]

       یہ عہد فاروقی کی بات تھی کہ انھیں نماز کے لیے مسجد میں جانے سے روک دیا گیا آج کے ماڈرن دور میں عورتوں کا کیا حال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے, بے پردگی, عریانیت, خود نماٸی, اور ایسی ایسی حیاسوز حرکتیں ہیں کہ خدا کی پناہ ! اسلام کی شہزادیو ! خدارا اپنے حسن کی نمائش نہ کرو ، اللہ ورسول کے فرامین کے مطابق اپنی زندگی گزارو اسی میں دنیا و آخرت میں بھلاٸی اور خیر ہے۔

     اسلام میں پردے کا اس قدر اہتمام ہے کہ عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بھی چلنے ، پھرنے میں پاؤں آہستہ رکھیں تاکہ ان کے زیور کی جھنکار نہ سنائی دے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 
 وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِھِنَّ لِیُعۡلَمَ  مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِھِنَّ ۔[النور ، الآیۃ : 31]
 اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار (کنز الایمان)
     حدیث میں زیور کی آواز کو دعا کی عدمِ قبولیت کا سبب قرار دیا گیا ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی کس قدر غضب‌ِ الہی کا باعث ہوگی ؛ یہ آپ محسوس کرسکتے ہیں۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter