پیڑ بوئے ببول کا تو آم کہاں سے کھائے - الیکشن 2024ء
ہمارا ہندوستان، جہاں مہمانوں کو خدا کا فرستادہ سمجھا جاتا ہے، جہاں انسانیت سے محبت ہی دین اور دھرم شمار کیا جاتا ہے اورجہاں عورتوں کو ماں، بیٹی، بہن، بہو کے روپ میں وقار و عزت بخشا جاتا ہے آج اُسی ہندوستان میں یہ سب باتیں ایک خواب کی مانند لگنے لگی ہیں۔ کیوں کہ آج ہندوستان میں نہ مہمانوں کے لیے کسی کے پاس فرصت ہے، نہ انسانیت سے کسی کو محبت ہے اور نہ عورتوں کو پاکیزہ رشتوں میں دیکھنے کا چلن باقی ہے۔بلکہ اس کے برعکس عورتیں محض طوائف بن کر رہ گئی ہیں، مہمان جی کا جنجال لگنے لگا ہے اور اِنسانیت، درندگی میں تبدیل ہوگئی ہے۔
موجودہ ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو اِحساس ہوتا ہے کہ جو جس قدر عورتوں کی عزتیں نیلام کررہا ہے وہ اُسی قدر دبدبہ والا ہے، جو جس قدر اِنسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے وہ اُسی قدر ترقی یافتہ ہے اور جو جس قدر شیطانیت اور رَاون گیری کا مظاہرہ کررہا ہے وہ اُسی قدر بہادر ہے۔ گویا ہرایک چیز کا معنی ومفہوم ہی بدل دیاگیا ہےکہ کل جس کام کو رَات کی تاریکی میں بھی کرنے سے ہمارا معاشرہ، ندامت وشرمندگی اور خوف وڈر محسوس کرتا تھا آج وہی کام دن کے اُجالے میں کیا جارہا ہے اوراِس کو فخرکے طورپر بیان بھی کیا جارہا ہے۔ کل جو معاشرہ اپنی عورتوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کے لیےایک پاؤں پرکھڑا رہتا تھا، آج وہی معاشرہ اپنی عورتوں کی عزت وآبرو پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا استقبال پھول-مالا سے کررہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہمارے معاشرے کی بےحسی اور دریدہ ذہنی کا ثبوت اِس سے بڑا کیا ہوگا کہ یہ تمام باتیں دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی اِس کے خلاف ایک لفظ بولنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ کیا تعلیم یافتہ طبقہ اورکیا غیرتعلیم یافتہ طبقہ، سب اپنی اپنی دنیا میں مست ومگن ہیں اور شاید یہ سوچ کرسب خاموش ہیں کہ یہ ہمارا معاملہ تھوڑی ہے۔ چنانچہ اگر واقعی ہم میں سے کوئی شخص ایساذہن اور نظریہ رکھتا ہے تو یہ ہم تمام ہندوستانیوں کے لیے ڈوب مرنے والی بات ہے او کہ ہم لوگ ایسوں کو برداشت کررہے ہیں جو ہماری تہذیب وکلچر اور ہمارے ملک و معاشرے کی بنیاد کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔ہم میں سے ہرہندوستانی کویہ باتیں ازبر کر لینا چاہیے کہ اگر ہم اپنے آس-پاس کی گندگیوں کو صاف نہیں کرتے، تو ایک نہ ایک دن اُس گندگی کا شکار ہم بھی ضرور ہوں گے۔
آج ہمارے ملک و معاشرے میں جس قدر غیرانسانی حرکتیں آسمان کو چھو رَہی ہیں اِ س کے اصلی ذمہ دار خود ہم ہندوستانی ہی ہیں۔ کیا یہ درست نہیں ہےکہ ہم نے اپنا لیڈر اور قائد اُن ہی کو بنایا ہے جو اَپنے وقت کےاِنتہائی غیرمہذب، بدزبان،جاہل، لٹیرے، خونی، قاتل، کبابی، عیاش، بدقماش، مفاد پرست اوردَل بدلو ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہمارے لیڈر، اِنسانی لاشوں پر کامیابی کی منزلیں طے کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اپنی کامیابی کےلیے ہراُس طبقات کو رُوند ڈالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں جو اُن کےلیے وبال جان بن جائے، خواہ وہ جس کسی مذہب/قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں۔
بسا اوقات تو اپنی منزل پانے کے لیے ہمارے یہ لیڈران اپنے ہم پیالہ اور ہم نوالہ افراد کو بھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ چنانچہ جب ہم نےاپنے پیشوایان ہی ایسے افراد کو بنارکھا ہے جودَرندگی کے دلدادہ، محبت واخوت کےدشمن، انسانی لاشوں کے سوداگر، حرص وہوس کے پجاری اور عیاش فطرت ہیں، تو اُن سے کسی خیر کی امید کس بنیاد پر رکھی جائے؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اُن سے شکوہ-شکایت کرنے کا حق بھی کھو چکے ہیں کہ ’’پیڑ بوئے ببول کا تو آم کہاں سے کھائے‘‘۔ اِس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے درمیان اور ہمارے ملک وملت کے اندر خیر سگالی کا معاملہ پروان چڑھے اورہمارا معاشرہ اَمن و آشتی اور اُخوت و مروت کا گہوارہ بنا رہے اور اِس کی گنگا-جمنی تہذیب سلامت رہے، تو ہم تمام ہندوستانیوں پر لازم ہے کہ 2024ء کے انتخاب میں انتہائی دانشمندی کا ثبوت پیش کریں اور ایسے ہی افراد کو اَیوان سیاست تک پہنچائیں جو تعلیم یافتہ ہوں، وطن پرست ہوں، مثبت فکر کے مالک ہوں اور اِنسان دوست اور اَخلاق مند ہوں۔ جن کے اندر ملکی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کا جذبہ ہو اور جو خیرسگالی اور اقلیت واکثریت اتحاد و اتفاق میں یقین رکھتا ہو۔ جن کی زندگی کا مقصد شراب وکباب، عیش ومستی نہ ہو اور ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔ جو اِنسانوں کے دکھ-درد کو سمجھنے والا ہو وغیرہ۔ ورنہ یاد رکھیں کہ 2024ء کا انتخاب اگر اِبن الوقتوں، مفاد پرستوں اورسیاسی قزاقوں کے حق میں سازگارہوگیا تو ملک وملت کومزید نقصان سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے اور اُس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
القصہ! 2024ء انتخاب کی صورت میں ہم ہندوستانیوں کے پاس ایک بڑا سنہرا موقع ہے کہ اپنے ملک وملت کی تعمیر و ترقی کے لیےکچھ ایسا کرجائیں کہ ہمارا ملک و معاشرہ ہرطرح کے شر پسند عناصر جیسے نشیڑی، گنجیڑی، خونی، قاتل، عیاش، بدقماش، سیاسی قزاق، مفادپرست، انسانی لاشوں کے سوداگر جیسے افراد سے پاک وصاف ہوجائے اور اُن کی جگہ تعلیم یافتہ، خوش، فکر، خوش کردار، سنجیدہ مزاج، اُخوت و محبت کا دلدادہ جیسے اَفراد آجائیں کہ ہندوستان کی سلامتی ایسے ہی افراد کے انتخاب میں مضمر ہے۔ نیز متعصب و متنفر ماحول سے بھی نجات مل جائے اوراُس کی جگہ اُخوت و مروت اور اِنسان دوستی لے لیں کہ یہی ہمارے ملک و معاشرے کے حق میں بہترہے، چنانچہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملکی سطح پر گنگا-جمنی تہذیب وثقافت اور اَمن و آشتی کانقارہ ایک بار پھر سے بخوبی گونج اٹھے گا جسے ابن الوقتوں نے یرغمال بنارکھا ہے۔