اہل سنت کی شیرازہ بندی - مسائل اور امکانات
آج جب ہم اہل سنت کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں بنیادی فکری و اعتقادی اتحاد کے باوجود عالمی یا ملکی یا صوبائی یا ضلعی سطح پر عملاً کوئی باضابطہ ارتباط نظر نہیں آتا۔
یوں اپنی نجی ضروریات اور وقتی کاموں کے لیے لوگ آپس میں رابطہ ضرور رکھتے ہیں مگر جماعتی و اجتماعی انداز میں کوئی باقاعدہ تنظیم کسی میدان میں نہیں۔ نہ کوئی دعوتی و اصلاحی مرکز ہے جس پر سب متفق ہوں، نہ کوئی روحانی قیادت ہے جو سب کا مرجع اور سب پر اثر انداز ہو، نہ کوئی تعلیمی و تربیتی ادارہ ہے جس میں سب کے لیے کشش ہو اور جس کی پیشوائی سب کو قبول ہو ، نہ کوئی علمی تحقیقی تصنیفی انجمن ہے جسے قبول عام حاصل ہو ، نہ دوسرے سماجی، رفاہی، قومی میدانوں میں کام کی کوئی اجتماعی ہیٔت ہے جو قابل ذکر ہو۔
اور سیاسی_میدان تو بالکل خالی ہے ، اس میں نہ ہماری کوئی نمائندگی ہے، نہ قومی و ملکی سطح پر ہمارا کوئی نام و نشان ۔ یہ پورا وسیع و عریض میدان غیروں کے لیے محفوظ ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ انفرادی طور پر جماعت میں بہت سارا کام ہو رہا ہے اور اسی کی بدولت جماعت کا کارواں کسی طرح رواں دواں ہے لیکن اجتماعیت اور تنظیم کی شان ہی الگ ہے اور اس کے ثمرات وبرکات ہمہ گیر اور پائدار ہیں۔
مسائل: اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت وجماعت، جن کا وجود عہد رسالت سے آج تک پورے تسلسل کے ساتھ چلا آرہاہے، یہی ہمیشہ بیرونی واندرونی سازشوں کا نشانہ بنے۔ خارجی طاقتوں کا نشانہ بھی یہی رہے اور داخلی فتنوں کا شکار بھی یہی ہوئے ۔
خلافت راشدہ کے دور اخیر میں خوارج کا گروہ ہمارے ہی درمیان سے نکلا اور خود مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہوا، اس کے بعد بھی ہر دور میں ایک تسلسل کے ساتھ فتنے اٹھتے، فرقے بنتے اور باطل مذاہب بڑھتے رہے۔ اہل سنت کی تعداد گھٹتی رہی۔
اہل حق کو اکثر ادوار میں بیرونی دشمنوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا اور عوام کو داخلی فتنوں سے بچانے کے لیے بھی سرگرم رہنا پڑا۔ ان کی دردمندی ، مخلصانہ سرگرمی اور ہمہ جہت مساعی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے فرقوں کا خاتمہ ہوگیا اور آج ان کی طرف اپنے کو منسوب کرنے والا کوئی نہ رہا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے اٹھائے ہوے کچھ خیالات بعد کے نئے فرقوں میں در آئے اور ان کے اثرات آج بھی باقی ہیں مگر قدیم علماے حق اور ان کے معاونین سے جو کچھ ہوسکتا تھا اس میں انھوں نے کوئی کسر روا نہ رکھی۔
اب اہل سنت پر جن فرقوں کا حملہ زیادہ شدت سے ہورہا ہے وہ تقریباً دو سوسال پہلے کی پیداوار ہیں، یہ اہل سنت ہی کے درمیان سے نکلے اور ایک نیا مذہب بنا کر اہل سنت کو صراط مستقیم سے ہٹانے اور نئے جال میں پھنسانے کی مہم تیزی سے شروع کردی۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف حربے استعمال کیے:
۱-کتابیں لکھیں جن میں اہل سنت کے عقائد و معمولات کو شرک قراردیا۔
۲-اجتماعات اور جلسے کرکے لوگوں کا ذہن مسموم کرنے کی کوشش کی۔
۳-لوگوں سے مکانوں ، دکانوں پر ملاقات کرکے انھیں اپنی طرف مائل کیا۔
۴-اہل سنت کے درمیان اپنے مکاتب ومدارس قائم کرکے تعلیم و تربیت کے نام پر ہماری نسل کو قریب کیا پھر اسے اپنا ہم عقیدہ اور اپنے مذہب کا داعی ومبلغ بنادیا اسی طرح اہل سنت کے درمیان مسجدیں بنائیں یا ان کی مسجدوں پر قبضہ کیا پھر نمازیوں کو اپنا ہم عقیدہ بنا لیا۔
۵-اسکول اور کالج قائم کرکے عصری تعلیم کا شوق دلایا پھر طلبہ کے ذہن میں اپنا عقیدہ اور مذہب بھی اتار دیا۔
۶- کلمہ ونماز کی تبلیغ کے نام پر ایک جماعت قائم کی اور اس کے ذریعے اہل سنت کے بےشمار افراد اور چھوٹی بڑی بہت سی آبادیوں کو اپنا ہم نوا بنالیا۔
۷-ان کے علاوہ تحقیق و تصنیف، سیاسی وسماجی نقل و حرکت اور دوسرے ہر قسم کے ذرائع سے لوگوں کو پہلے اپنا مداح و معتقد پھر اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کی۔
ان حرکتوں سے نقصان صرف اہل سنت کو پہنچا، انہی کی تعداد گھٹی ، انہی کے افراد اہل باطل کا نشانہ بنے اور وہی طرح طرح کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ اور یہ سلسلہ آج بھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔
اب اہل سنت کے سامنے دو چیلنج ہیں:
(۱) اپنے ٹوٹے ہوئے افراد کو پھر جوڑنا.
(۲) دیگر افراد کو شکار ہونے سے بچانا
اس کے لیے ضروری ہے کہ دشمن کے پاس جتنے اسلحے اورہتھیار ہیں ان سے زیادہ ہتھیار اور ان سے قوی اسلحےہمارے پاس ہوں ،ان کے اندر جو سرگرمی اور مستعد ی ہے اس سے زیادہ ہمارے اندر ہو۔
اس کے لیے باہمی اختلاف و انتشار سے دوری اور تحفظ عقائد و فروغ مسلک کے لیے اجتماعیت اور شیرازہ بندی کس قدر ضروری ہے، یہ اہل دانش کے لیے محتاج بیان نہیں۔
امکانات: پیشوایان اہل سنت اور درد مندان ملت اگر دل وجان سے متوجہ ہوں تو اسباب و وسائل کی فراہمی ہمارے لیے بھی ممکن ہے اور ایسا ہوسکتا ہے کہ کام کو مختلف حصوں اور شعبوں میں تقسیم کرکے ہر شعبے کے لیے لائق اور فعال افراد پر مشتمل مجلسیں یا بورڈ بنادیے جائیں تاکہ کام آسانی سے ہوسکے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ تین چار یا چار پانچ افراد پر مشتمل ایک تھنک ٹینک یا مجلس اعلیٰ ہو جو پوری بالغ نظری کے ساتھ تمام امور کے لیے منصوبہ سازی، مجالس سازی، اصول سازی اور تنفیذ وترویج کی ذمہ دار ہو۔ اسی طرح مشکلات اور رکاوٹوں پر غور کرنے اور انھیں دور کرنے پر بھی اس کی نظر ہو۔
یہ کام ممکن ہونے کے ساتھ مشکل ضرور ہے۔ وقت اور سرمایے کی بڑی قربانی چاہتا ہے۔ اتنے بڑے ملک میں پھیلے ہوئے اہل سنت کی شیرازہ بندی اور ہر خطے کے لوگوں کو متحرک وفعال بنانا اور شاطرانہ حملوں کے دفاع کے لیے بیدار وتیار رکھنا کوئی ایسا کام نہیں جو چند دنوں یا ہفتوں کی محنت میں انجام پذیر ہوجائے۔ مہینوں بلکہ برسوں کی مدت درکار ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پہلے ہرعلاقے کا دورہ کرکے وہاں کے حالات اور ضروریات کا جائزہ لیاجائے، قابل عمل اور لائق اعتماد افراد تلاش کیے جائیں، پھر جہاں مکتب ، مسجد، مدرسہ ، اسکول ، کالج، شفاخانہ وغیرہ قائم کرنے کی ضرورت ہو ان کا قیام عمل میں لایا جائے اور طے شدہ خطوط پر ان کاانتظام معتمد افراد کے سپرد کیا جائے۔ اور جہاں پہلے سے ادارے قائم ہیں انھیں بھی تنظیم سے منسلک کرنے کی کوشش کی جائے اور انھیں زیادہ فعال اور کارآمد بنایا جائے۔
اس طرح ہر جگہ کے حالات سے واقفیت بھی بہم ہوگی اور ہر علاقے کے نمائندے مجلس اعلیٰ کے ماتحت مجلس منتظمہ یا مجلس شوریٰ میں شامل ہوں گے اور برابر ان سے رابطہ رہ سکے گا۔
بہت بڑی مرکزی عمارت اور بہت سے آفسوں اور ورکروں کی بھی ضرورت ہوگی جو ہرعلاقے کے حالات جاننے ، ان کی رپورٹ پیش کرنے اور عام ضروریات کے لیے اپنے متعلقہ مقامات کا دورہ کرنے کے ذمہ دار ہوں۔
ساری تفصیلات تھنک ٹینک یا مجلس اعلیٰ طے کرسکتی ہے۔ اگر ملک گیر پیمانے پر آغاز مشکل ہو تو جس حد تک بآسانی ابتدا ہوسکے اسی حد پر کام شروع کیا جائے۔ اسی طرح جو کام انفرادی طور پر یا کسی مجلس اور بورڈ کی ماتحتی میں ہورہے ہیں انہی کو تقویت دی جائے اور جو میدان بالکل خالی ہے اس پر خاص توجہ صرف کی جائے۔
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پیش قدمی کس طرح سے ہو ؟ کہاں سے ہو؟ اور کون کرے؟
بہر حال یہ اقدام ایک یا چند حساس، دردمند ، مخلص اور توانا قلب وجگر کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔ مگر قوم کےخسارے سے صرفِ نظر کسی طرح روا نہیں ۔اقدام ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے۔واللہ الموفق والمعین۔
اندیشے: اگر سارے اکابر اور پیشوایان قوم اس میں دل چسپی نہیں لیتے تو جو درد مند اور حساس حضرات ہیں وہی پیش قدمی کرکے کام شروع کریں اور آگے بڑھائیں باقی حضرات سے گزارش کی جائے کہ اگر حمایت اور مشارکت نہیں کرسکتے تو مخالفت اور رکاوٹ سے بھی باز رہیں ورنہ احکم الحاکمین کے حضور اہل سنت کے عظیم خساروں کا حساب دینے کے لیے تیار رہیں۔
اگر جماعت کی اکثریت خصوصاً اہل علم و دانش اور اہل ثروت میں یہ احساس بیدار ہوجاتا ہے کہ ہم مسلسل خساروں سے دوچار ہیں اور تلافی کے لیے میدان عمل میں جان ودل ،ہوش وخرد، اور زبان و عمل کے ساتھ سرگرم ہونا ضروری ہے تو کام کی راہیں کھل سکتی ہیں ورنہ غفلت وبے حسی کے ماحول میں کام یابی کی توقع فضول ہے۔
مگر میرا اندازہ ہے کہ اکثریت حساس اور بیدار ہونے کے ساتھ کسی پیش قدمی کی منتظر ہے۔
رب تعالیٰ ہمارا حسنِ ظن راست فرمائے اور سب کو حسب درجہ ومقام اور حسب ہمت وصلاحیت توفیق خیر سے نوازے۔ وھو المستعان وعلیہ التکلان۔