’’آزادی کا اَمرت مہوتسو‘‘کےطرزپر ’’دستور ہند مہوتسو‘‘بھی ہو!!
آج ہمارا قومی وملکی تہوار ہے۔پچھہتربرسوںپہلےآج ہی کی تاریخ میں ہم ہندوستانیوں نےجشن آزادی کا صور پھونکا تھا۔ہرسال کی طرح امسال بھی جشن آزادی کے خمار نےہم ہندوستانیوں کومخموربنارکھاہے۔ملک کے گوشے گوشے میں آزادی کے ترانے گائے جارہے ہیں اور خوشی کے شادیانےبھی بجائے جارہے ہیں۔ آج جس طرف دیکھیےہم ہندوستانی ہما-شماسے آزادخالص ہندوستانی نظرآرہے ہیں۔آج ہم نہ ہندو ہیں، نہ مسلم ہیں، نہ سکھ ہیں اور نہ عیسائی ہیں،اورہاں! اگر کچھ ہیں تو بس ہندوستانی !! اوریہ سب ہمارے اُن جیالوں، بہادروں اور مجاہدوں کی بےلوث محنتوں اوربےغرض کاوشوں کا نتیجہ ہیں جنھوں نے ہندوستان کی آزادی اور اِس کی سلامتی وتحفظ کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا ،چنانچہ اِس جشن آزادی کے مبارک موقع پر سب سے پہلے ہم اُنھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی ہم اپنے ملک کے تمام باشندوں کو قلب کی اتھاہ گہرائیوں سےآج منائے جارہے’’ ۷۵ویں یوم آزادی‘‘ کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر دیکھاجائے تو جنگ آزادی کی تاریخ میں ہندوستان وہ اِکلوتا ملک ہے جس کی آزادی میں تمام مذاہب وملل کے افراد نے حسب قدرت حصہ لیا اور اُس وقت تک اپنے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا جب تک کہ ملک ہندوستان انگریزوں کے بہیمانہ چنگل سے آزاد نہیں ہوا۔ اُسی طرح بلاشبہ آزادی کے بعدسے اب تک ہمارے ملک ہندوستان کی تعمیر وترقی میں تمام مذاہب وملل کے افراد کا بڑا نمایاں کردار رَہا ہے جسے چاہ کر بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتےہیں۔لیکن اِس کے باوجود اَگر ہم آزادی کے سلسلے میں دی گئی کسی بھی قوم کی قربانی اور کردارکو نظر انداز کرتے ہیں یانظراندازکرنا چاہتے ہیں تو درحقیقت ہم،ہندوستان کی تعمیروترقی کی راہ میں ایک بڑی کھائی پیدا کر رہے ہیں جس کا خمیازہ ملک کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب وملل کے افراد کو بھگتنا ہوگا کیوں کہ ہم ہندوستانی ایک جسم کی طرح ہے۔لہٰذاجس طرح جسم کے اعضا میں سےکسی ایک عضو کو کچھ نقصان پہنچتاہے تو اُس کا اثر جسم کے تمام دوسرے اعضا پربخوبی ہوتا ہے،بعینہ ہمارے ملک ہندوستان میں مختلف مذاہب وملل کے افراد بستے ہیں، تو اگرایک ہندوستانی شہری کوکوئی تکلیف پہنچتاہے/پہنچایاجاتا ہے یاایک شہری دوسرے شہری کے حق میں نقصان ہوتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے اوروہ یہ سمجھتاہے کہ اُس کاکچھ نقصان نہیں ہوگاتو وہ یاد رَکھے کہ دیر-سویر ایک ہندوستانی کے نقصان کا اثردوسرے ہندوستانی پر ضرور ہوگاکہ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے، اِسے ہرگز ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتاہے۔ بلکہ موجودہ حالات کا جائزہ ایمانداری کے ساتھ لیا جائے تو متذکرہ حقیقت سے پردہ اُٹھ جائےگا کہ ہندوستان میں جہاں کہیں بھی چھوٹا/ بڑا کوئی حادثہ ہوتاہے تو کس طرح اُس کا اثرہم میں سے ہرہندوستانی شہری پر بخوبی ہوتا ہے۔ خواہ سرحد پر دشمن ممالک سے دو-دوہاتھ کا معاملہ ہو، گرم بازاری اور گرانی کا معاملہ ہو، قانونی بےراہ روی کا معاملہ ہو یا حاکمانہ زوروجبر کا۔اِن تمام حالات ومعاملات کے زیراَثرہر شہری کاآنا لازمی ہے اور آج ہم اِس کا بخوبی تجربہ بھی کررہے ہیں۔
اِس کے باوجوداَپنے آس-پاس کے حقائق سے آنکھیں موندلینا اور محض اِس لیے کسی مجرم کا ساتھ دینااور قانون ہند کی خلاف ورزی کرناکہ وہ اُس کاہم مذہب ہے/ اُس کا ہمنوا ہے، تواَیسا کرنا سراسر دستور ہند کو کالعدم قراردینے جیسا ہے اورملک و ملت سے غداری ہے۔ چنانچہ ہم ہندوستانی شہریوں پر لازم ہے کہ اس طرح کے غیرقانونی اورغیراِنسانی رویےسے ہم لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیےدوری اختیارکرلیں اوراَپنے پیارے ملک ہندوستان کوتباہ وبرباد ہونےسے محفوظ رکھیں کہ ہم میں سے ہرایک ہندوستانی شہری کی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے۔
آج جب ہم اپنے ملک ومعاشرے کو بغور دیکھتے ہیں اور اُس کی تعمیروترقی کا احساس کرتے تو ہمیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ باوجودیکہ ۱۹۴۷ء میں ملک کی تعلیمی صورتحال کچھ خاص نہیں تھا۔۵۸؍ فیصد سے زیادہ ہندوستانی شہری تعلیم سے نابلد تھے۔ لیکن ذمہ داران ملک نے معیاری تعلیم کا ایک ایسا نظام قائم کیا کہ ملک وملت کوفوراً آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی جیسے مفیدونفع بخش ادارے مل گئےجن کا تعلیمی دبدبہ آج پوری دنیا میں قائم ہےاور آج تعلیمی صورتحال اِس قدر قابل فخر ہے کہ ایک ہزارتینتالیس یونیورسٹیاںاوربیالیس ہزار منظورشدہ کالج ہیں۔اُن میں چوّن مرکزی یونیوسٹیاں ہیں،چار سوسولہ صوبائی یونیورسیٹیاںہیں،ایک سو پچیس ڈیمڈیونیورسیٹیاںہیں اور باقی پرائیویٹ یونیورسیٹیاں ہیں۔ آزادی کے اولین زمانے میں فوجی انتظامات کا بھی کچھ یہی حال تھا کہ فوجی لحاظ سے ہندوستان چوتھے مقام پر تھابلکہ ابتدا میں رضاکارانہ طورپر فوجی خدمات لیے جاتے تھے،لیکن اب حالات بہتر سے بہتر ہوچکے ہیں اورآج ہمارا ہندوستان نیوکلیائی اعتبار سے ایک عظیم دفاعی قوت کا مظہربن چکا ہے۔۱۸؍مئی ۱۹۷۴ء کو پوکھرن میں ہندوستان نے اپنا پہلا نیوکلیائی تجربہ کیااور پھر ۱۹۹۸ء آتے آتے کئی تجربات کیے۔ایک زمانہ تھا کہ مواصلاتی شعبے میں بھی ہم کافی پست تھے لیکن آج ہمارا ہندوستان تقریباً ایک لاکھ پچھہتر ہزار گاؤں کو آپٹیکل فائبرسے جوڑاجا چکا ہے اور آج فورجی کنکٹی ویٹی سے محروم گاؤں کو یونیورسل سروس آپلی کیشن فنڈ (یو ایس او ایف)کے توسط سے احاطہ کیا جارہا ہے۔پھر ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہمارے بیشتر علاقے بھوک مری کے شکار ہوا کرتے تھےلیکن آج ہمارا ملک اِس بحران سے بھی بخوبی نکل چکا ہے اور اِس وقت ہندوستان نہ صرف معاشی اعتبار سے خود کفیل بن چکا ہے بلکہ دوسرے ممالک کو اَشیائے خوردنی سپلائی کرنے کی قدرت بھی رکھتاہے۔ مزیدبرآںہر ہندوستانی شہری کومعلومات کا قانون حق دیا گیاہے،اِس کے ساتھ ہی تعلیمی حق سے نوازا گیاہےجس سے متعلق ۲۰۰۹ء میں مفت اور لازمی تعلیمی قانون منظور کرایاگیاتھا، یعنی دستور ہند کے سیکشن ۲۱؍ کے تحت ۶-۱۴؍ سال تک کے بچوں کی تعلیم مفت اور لازمی ہےاور اِس کی ذمہ داری مرکزی اور صوبائی حکومت کے سر رکھی گئی ہے۔اسی قانون کے تحت پرائیوٹ اسکولوں پر یہ لازم کیا گیا کہ وہ بھی ۶-۱۴؍ سال کے بچوں کی مفت تعلیم کو یقینی بنائیں اور پسماندہ طبقات سے فیس کی وصولی نہ کریں،ورنہ خلاف ورزی کی صورت میں ۱۰؍ گناہ جرمانہ عائد کیا جائےگا۔ پھرپنچایتی راج کا نظام قائم کیا گیا جوہندوستان کی تاریخ سیاست میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےکہ اِسی کے سبب’’گرام سوراج‘‘ خواب شرمندہ تعبیر ہواجسے مہاتماگاندھی نے برسوں پہلے دیکھاتھا۔ اِس کے علاوہ ملک کے سیاسی نظام میں برابر کی حصہ داری کے ساتھ ہرطبقہ اور ہرمذہب وملت کو دُستور ہند میں خاطرخواہ آزادانہ حقوق دیے گئے۔
لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن تمام تعلیمی اور وفاقی ترقیوں کےباوجود آج ہمارے ملک کی صورتحال انتہائی دردناک اور بہت ہی نازک ہے۔حق تعلیم حاصل ہوتےہوئے بھی ہمارے ملک کا پسماندہ آج تک غیرتعلیم یافتہ اورپسماندہ ہی ہے اور اُس کی حالت سدھرنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ دستور ہند میں تمام طرح کے مذہبی اور معاشرتی حقوق حاصل ہونےکے باوجوداَقلیتوں کو کھل کر جینے کا موقع نہیں مل پارہا ہے۔ وزیراعظم کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘کے باوجود ایک خاص طبقہ ملکی و معاشرتی ترقیات سے محروم رہ جارہا ہےاور تمام طرح کی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے کے بعد بھی اُن کی وفاداری پر شک کیا جارہا ہے۔یہ صورتحال نہ صرف ایک مخصوص طبقے کے حق میں سخت مضر ہے بلکہ ملک ومعاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے بھی نیک فال نہیں ہے۔اِس لیے ہمارا کہنا ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت نے ’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ انعقادکرکے ملک کے ہرطبقے میں وطن دوستی کی روح پھونکنے کی عمدہ کوشش کی ہے ،بعینہ ایک ’’دستورہند مہوتسو‘‘ کا انعقادکیا جائے اورہر اُس طبقے میں یقین واعتمادبحال کیا جائے جو اِس شش وپنج میں مبتلا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں دستورہندپر اِعتمادویقین کرے تو کس طرح؟