ریاست کیرلا کے مشاہیر فقہائے کرام ( قسط نمبر 1)

کیرلا بر صغیر ہند کے ایک اہم جنوبی صوبہ کا نام ہے،جو اپنے ماحول ،معاشرہ ،زبان و کلچر اورتہذیب و تمدن کے سبب نمایاں حیثیت کا حامل ہے،اس صوبے میں مختلف ادیان کے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں ، ملک ہندوستان میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سب سے پہلے تجارت کی غرض سے سمندر کے راستے  سر زمین کیرلا  ہی میں تشریف لائے اور اپنے مبارک قدموں سے  یہاں کی بنجر زمین کو سرسبزو شاداب فرمایا ، دین اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب قرآن شریف کی تبلیغ شروع کی، جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ لوگ دین اسلام کی حقانیت کو سمجھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو نے لگے، نماز کے لیے مساجد اور تعلیم کے لیے معاہد کی تعمیر کا کام انجام دیا جانے لگا اور یہ سلسلہ کافی دراز ہوا یہاں تک کہ آج ریاست کیرلا میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے چونکہ یہاں کی زبان ملیباری  ہے اس لیے یہاں کے باشندگان نے قرآن وحدیث کی افہام و تفہیم کے لیے اپنی رغبت کا اظہار کیا اور علوم قرآن و حدیث فقہ و تفسیر جیسے علوم سے آراستہ ہونے لگے ، اہل کیرلا  اکثر مذہبا امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے ماننے والے ہیں ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدموں کی برکت سے ریاست کیرلا نے ماضی قریب و بعید میں نہایت ہی عظیم مفکرین مفسرین اور فقہاء کرام کو پیدا کیا جن کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔

وہ مشاہیر فقہائے کرام جنہوں نے اپنی تمام تر محنت و کاوشوں سے فقہ شافعی کو فروغ بخشا اور اس کی ترقی کے لئے دن و رات کوشاں رہے  یہاں تک کہ اپنی ساری زندگی اسی کے لئے وقف فرما دی جن کی کتابوں کارناموں اور کارکردگیوں کو آج بھی دنیا فراموش نہیں کر پائی ہے اور ان شاءاللہ صبح قیامت  ان کی عظیم  خدمات کو سراہا جاتا  رہے گا، ایسے ہی چند عظیم فنکار ہستیوں کی حیات مبارکہ کے چند اہم پہلو سپرد قرطاس کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔

اللہ رب العزت اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور ان فقہائے کرام کا صدقہ عطا فرمائے۔

ریاست کیرلا میں جن ہستیوں نے علم فقہ کی ترویج و اشاعت میں کارہائے نمایاں انجام دیے  ان میں سرفہرست مخدومی خاندان کے علماء ہیں ،یہ لوگ ملک یمن سے 9 ویں صدی ھجری مطابق 15ویں   صدی عیسوی میں سرزمین ملیبار تشریف لائے تھے ،ان لوگوں نے آتے ہی کیرلا میں اسلامی کتابوں کی تالیفات کا کام انجام  دیتے ہوئے انھیں عام کیا،اس وقت مالا پرم ڈسٹک میں واقع پونان نامی گاؤں کی جامع مسجد دینی دروس کا مرکز ہوا کرتی تھی ،چند سالوں ہی میں ان کی شہرت بام عروج کو پہنچ گئی، یہاں تک کہ عوام الناس پر جب کوئی دینی یا دنیاوی معاملہ دشوار ہوتا تو وہ ان کی عالی بارگاہوں میں رجوع کیا کرتے تھے۔

                   شیخ الاسلام الفقیہ الاعظم زین الدین المخدوم الکبیر المعبری الفنانی الملیباری             ۔1

آپ خاندان مخدومیہ ہی کے ایک چشم و چراغ تھے ،آپ کو علوم قرآن و حدیث خاص کر علم فقہ میں باریک بینی اور کافی حد تک دسترس حاصل تھی ،موصوف نے دنیائے شافعیت میں ایسی عظیم خدمات انجام دیں، جن کی مثال بھی پیش کرنا مشکل ہے ،اس کے  ساتھ عبادت و ریاضت اور تقویٰ طہارت میں دور دور تک آپ کی نظیر نہیں ملتی، آپ نے اپنی پوری زندگی ملت کے لیے وقف فرما دی اور ہمہ وقت ملت کی تعلیمی اور تعمیری ترقی کے لیے محوفکر رہا کرتے تھے آپ کی حیات طیبہ کا ایک اجمالی خاکہ درج ذیل ہے

ولادت با سعادت۔

12                             شعبان المعظم  872 ھ مطابق 1467ء بمقام کو چن بروز جمعرات بعد نماز فجر آپ کی ولادت با سعادت ہوئی آپ کے والد محترم شیخ علی بن احمد شافعی الأشعري الملیباری ہیں جن کا شمار اپنے وقت کے معزز علماء میں ہوتا تھا۔

تعلیم وتر بیت

ویسے تو آپ کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی تھی، بچپن میں آپ اپنے والدہ محترمہ کو عبادت و ریاضت میں منہمک دیکھ کر بہت کچھ سیکھ چکے تھے ،لیکن جب آپ قابل فہم ہو گئے تو آپ کے والد محترم نے اپنے برادر صغیر زین الدین ابراہیم رحیم اللہ علیہ کو آپ کی بنیادی تعلیم کا ذمہ سونپا ،اس وقت زین الدین ابراہیم

 کوچن میں تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے تھے، چند مہینوں کے بعد چچا جان کو منصب قضاء و افتاء  سنبھالنے کی غرض سے پونان کے رخت سفر باندھنا پڑا ،آپ نے بھی کوچن کو الوداع کہا اور چچا کے ہمراہ پونان تشریف لے  آئے اور وہیں آپ نے قرآن شریف کا ناظرہ اور حفظ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ دینی علوم اور عربی زبان میں مہارت حاصل کی۔

اساتذہ کرام۔

آپ کے سب سے پہلے استاد آپ کے چچا محترم  ہی ہیں اور آپ نے پونان میں اپنے چچا کے ساتھ علم و فن کے تاجدار شیخ شہاب احمد بن عثمان بن علی المحلی الیمنی رحمہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب طے کیا اور ان سے علم و فقہ حدیث اور علم فرائض کی مشہور کتاب الکافی جیسی کتابوں کو پڑھنے کا شرف حاصل کیا اس کے بعد آپ نے تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے کالی کٹ کا سفر کیا اور وہاں منبع علم وحکمت شیخ ابو بکر فخر الدین بن رمضان شالیاتی ملیباری کی بارگاہ میں شرف تلمذی سے بہرہ ور ہوئے اور وہاں آپ نے سات سالہ لمبا زمانہ گزارا اس دوران آپ نے  علم و فقہ اصول فقہ اور دیگر علوم میں درجہ  کمال حاصل کیا ،پھر آپ نے تعلیم کے لئے مکۃالمکرمہ اور الجامع الازہر مصر کا سفر کیا اس دوران  مشاہر علماء عرب سے ملاقات کی جن میں چند اسماء مندرجہ ذیل ہیں

1۔العلامہ الشیخ عبداللہ بن علی المکوری رحمۃ اللہ علیہ

2۔العلامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ

3۔الشیخ شمس الدین طنطاوی

آپ کی علمی خدمات اور تالیفات پر ایک نظر۔

جامعہ الازہر سے فراغت کے بعد علم و حکمت کا ایک سمندر آپ کے سینے میں موجیں مار رہا تھا ،جس سے آپ نے کسی کو محروم نہیں رکھا بلکہ ہر خاص و عام کو سیراب فرما یا ،پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ پونان کی الجامع الکبیر میں ایک مدرس کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوئے اور اپنی خداداد صلاحیت سے طالبان علوم نبویہ کے قلوب و اذہان کے نہاں خانوں کو  منور فرمانے لگے ،جس کا آپ کی شہرت میں اہم کردار رہا  ،جس کی وجہ سے ریاست کیرلا کے گوشے گوشے سے طلبہ کا جمع غفیر ایک بحر ذخار کی شکل میں شرف تلمذی سے آراستہ ہونے کے لئے آپ کی بارگاہ میں امڑ کرآنے لگا اور آپ صرف درسگاہی زندگی پر منحصر نہیں تھے بلکہ سیاسی سماجی اور بھی دیگر امور کو آپ پل بھر میں حل کردیا کرتے تھے آپ کی وجہ سے پونان کو وہ شہرت ملی جو اس سے پہلے نہیں ملی تھی ،دیکھتے ہی دیکھتے پونان مکہ ملیبار کے نام سے مشہور ہو گیا۔

آپ نے اپنے  متعدد علوم وفنون میں اپنی مہارت کو صرف طلبہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ چند کتابیں بھی تصنیف فرمائی تا کی ہمیشہ ہمیش لوگ آپ کی  کتابوں سے مستفیض و مستنیر ہوتے رہیں .

معروف کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

1۔مرشد الطلاب الي الكريم الوهاب في التصوف۔

 2۔تحفةالألباء في الادعيةالماثورة۔

 كفاية الفرائض في اختصارالكافي في الفرائض والفقه۔ 3۔

4۔حاشية علي الارشادبن المقري في الفقه۔

سفر آخرت۔

علم وفضل کا یہ بدرمنیر رشد و ہدایت کا نیر تاباں اپنی تمام تر آبیاشیوں کو سمیٹتا ہوا اور اپنے علم سے اہل ملیبار کو محروم کرتا ہوا 16شعبان المعظم 928ھ مطابق1522کو بروز جمعرات نصف اللیل  کے بعد داعی اجل کو لبیک کہتا ہوا اس دار فانی سے رخصت ہو گیا . اناللہ وانا الیہ راجعون

آپ کے وصال کے چند سالوں کے بعد آپ کی دوسری نسل میں مخدومی خاندان کے ایک اور نئے چشم و چراغ نے آنکھیں کھولی ،جس نے اپنے فضل و کمال علم و حکمت سے دنیا شافعیت میں انقلاب سا برپا کردیا ،جن کی متعدد علوم و فنون میں تصنیفات اور تالیفات کو دیکھنے کے بعد کیرلا کے کبار  علمائے شوافع نے انہیں الإمام الشافعی فی دیار الملیبار جیسے القابات سے ملقب کیا جن کے علم کی روشنی سے صرف اہل ملیبار ہی نے نہیں بلکہ علمائے حرمین طیبین وغیرہ پوری دنیا کے علماۓ شوافع نے اکتساب فیض کیا ،آپ کی حیات مبارکہ کا معمولی سا نمونہ بالاختصار مندرجہ ذیل ہے۔(جاری۔۔۔۔۔۔)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter