مصنوعی ذہانت:ترقی کی خوشی یا دہشت کا غم؟
روزبروز ترقی کی راہ پر گامزن یہ دنیا ایک کے بعد ایک کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتی جارہی ہے جس کا اندازہ کچھ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جو کام برسوں سے انسان پانچ دس گھنٹے کڑی محنت ومشقت کے بعد کر پاتا تھا اب وہ کام ”اے، آئی“کے ذریعے منٹوں میں ممکن ہے۔اس مصنوعی ذہانت یعنی”اے آئی“ کو جہاں لوگ باعث فرحت ومسرت اور آسانی سمجھ رہے ہیں اور اس پر اپنی خوشیوں کا اظہار کر رہے ہیں تو وہیں بہت سارے ماہرین اس کی دہشت سے خوفزدہ ہیں اور دنیا کو اس کے تعلق سے ہوشیار رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ ہر سکے کا دو پہلو ہوتا ہے پس اسی لئے کہا جاتاہے کہ اگر کسی چیز کا فائدہ ہے تو اس سے ہی نقصان بھی ممکن ہے بس دیری ہے تو اس کو سمجھنے کی اور پرکھنے کی۔جس طرح لوگ مصنوعی ذہانت کی ترقی کو دنیا کے حق میں بہترین اور کامیابی سمجھ رہے ہیں اب ایسا لگتا ہے کہ اس مصنوعی ذہانت کو ہی لوگ اپنا ماوی وملجا سمجھ بیٹھیں گے اور ان کی یہ ترقی انہیں کافی کاہل وسست بنا دیگی جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس کی مثال ہم کچھ اس طرح بہترین طریقے سے سمجھ سکتے ہیں کہ پرانے زمانے میں جب مشینوں کی کوئی سوچ نہ تھی اور نہ تو لوگوں نے کبھی اس بارے میں سوچا تھا کہ کبھی ان کے لمبے لمبے سفر کو طے کر نے کے لئے گاڑی نام کی کوئی شئی ایجاد کی جائے گی۔ تب لوگ ایک لمبے سفر کو طے کر نے کے لئے ہزارہا مصائب ومشاکل کا سامنا کر تے تھے اور لمبے لمبے فاصلے پیدل اپنے قدموں پر چل کر پار کرتے تھے مگر جیسے جیسے زمانے نے کر وٹ لی اور ترقی کی سیڑھیاں جڑ تی گئیں نئی نئی گاڑیوں کا ایجاد ہوا تولوگ چھوٹے چھوٹے فاصلوں کے سفر کے لئے گاڑیوں کے محتاج ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر سست وکاہل ہو گئے کہ اب تو کوئی پیدل چلنا گوارا ہی نہیں کرتا بلکہ یہ اسے اس کی بے عزتی کا سامان لگتا ہے کہ وہ پیدل کہیں سے کہیں کا سفر طے کر ے۔اب لوگ چار قد م پیدل چل کر تھک جاتے ہیں حالانکہ پہلے زمانے میں ایسا نہیں ہوتاتھا۔اب آگے آنے والے وقتوں میں اس کا خطر ہ اور بھی تیزی سے بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ انسانوں کو جتنی آسانیاں دستیاب ہوتی جائیں گی وہ اتنا ہی خود پر سے بے اعتماد ہوتا جائے گا جس کا اسے خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔
آج بڑے بڑے سائنداں اور انڈسٹری کے بانیان اس مصنوعی ذہانت کے خلاف کھلی بغاوت پر اتر چکے ہیں اور یہ ہر گز نہیں چاہتے کہ اس کو اور بھی ترقی کی راہیں دکھائی جائیں۔یاد رہے ٹیسلا کمپنی کے بانی اور ٹویٹر کے مالک ”ایلن مسک“ نے مصنوعی ذہانت کو لیکر کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ”ہمیں اسے بہت زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مصنوعی ذہانت تمام انسانیت کے لئے خطرناک ہے اور اس کا خدشہ ہمیں ہر وقت لاحق ہونا چاہئے“۔جہاں تک ترقی کی بات ہے تو لوگ اس کی مخالفت ہر گز نہیں کرتے مگر جب اس کے نقصانات کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو ہر کوئی اس بات سے اتفاق رکھتا ہوا نظر آتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کی دہشت اور بھی بڑھ سکتی ہے اور بے شک یہی صحیح ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں ”اے آئی“ کا استعمال اور اس کی ترقی ایک الگ پیمانے پر دیکھنے کو ملی ہے اور اسی ترقی کے ساتھ اس کے نقصانات بھی دیکھنے اور مشاہدہ کر نے کو ملے ہیں۔گزشتہ دنوں ہندوستانی اداکارہ رشمکا منڈناکے تعلق سے سوشیل میڈیا پر جس قسم کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس کے تعلق سے ہر کوئی جانتا ہے اور اس کے پیچھے کی سازش کو ہر کوئی پہچانتاہے۔ہوا کچھ یوں کہ رشمکا کی ایک ویڈیو سوشیل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی جس میں وہ ایک لفٹ میں داخل ہو رہی ہے اور ان کے جسم سے عریانت کا ظہور ہو رہا ہے حالانکہ جب اس کی تحقیق کی گئی تو پتا کہ چلاکہ یہ ویڈیو رشمکا کی تھی نہیں بلکہ کسی انجان لڑکی کی تھی جس کے چہر ے کی جگہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے اس کا چہرہ لگا دیا گیا تھا۔اب جب اس طرح کے حادثات سے بڑے بڑے مالدار اور مشہور ِ زمانہ بھی محفوظ نہیں ہیں تو پھر عام لوگوں کی بات تو عام ہے ہی۔جس طرح اس وبال نے دنیا بھر میں بوال مچا دیا ہے اور لوگوں کے درمیاں میں ایک عجیب قسم کی پہیلی رکھ دی ہے اب لوگ دھیرے دھیرے اس مصنوعی ذہانت سے بیزار ہوتے جارہے ہیں اور اگر اس فتنے کا ازالہ نہیں کیا گیا تو آنے والے دنوں میں اس کا خمیازہ بہت برے طریقے بھگتنا پڑسکتا ہے۔اس مصنوعی ذہانت کے خطرات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں اور یوں ہی بڑھتے ہی جائیں گے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔اس کے چند ایسے خطرات بھی ہیں جن کا آغاز بڑے پیمانے پر ہو بھی چکا ہے مثلا:
انسانی روزگاری کا خطرہ:آج تمام عالم میں ہر طرف انسانی روزگاری کا مسئلہ بڑے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے جس کا خمیازہ ہر کوئی بھگت رہا ہے۔خصوصا ہمارے ملک ہندوستان میں، آج ہر کوئی اس خطرے اور اس کی پریشانیوں سے دو چارہے،لوگ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بننے کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر ان کے یہ سنہرے خواب ان کو نوکری نہ مل کر پاش پاش ہو جاتے ہیں اور وہ یوں ہی بے یار ومدد گار رہتے ہیں۔جب کہ حال ایسا ہے کہ ان خطرات و پریشانیوں کی کوئی کمی نہیں اور اوپر سے یہ مصنوعی ذہانت اور بھی پریشانیاں کھڑی کر رہی ہے۔آج دنیا کی بہت ساری بڑی بڑی کمپنیوں میں بڑے بڑے عہدے پر کام کر نے کے لئے مصنوعی ذہانت کا انتخاب کیا جارہا ہے اور لوگوں کو اپنی نوکریو ں سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے جس کا درد ہم خود بھی محسوس کر سکتے ہیں۔کل تک جہاں لوگوں کے لئے کسی ویڈیو یا تصویر کو ایڈیٹ کرنا ایک بہت ہی عظیم کام تھا اور اس کے لئے لوگ برسوں کی محنت کے ساتھ کامیابی حاصل کر تے تھے وہیں اب ان کاموں میں بھی”اے آئی“ کا دخل ہو چکا ہے۔کل تک جہاں فوٹو شوپ کا استعمال کرکے ہنرمند حضرات اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے اب وہ کام اس مصنوعی ذہانت کے ذریعے چٹکیوں میں کر لیا جارہا ہے جس سے فوٹو شاپ کے ہنرباز حضرات کی نوکری کو اچھا خاصا نقصان ہوا ہے یاد رہے یہ کوئی ایک میدان نہیں ہے جس میں لوگوں کو اپنی نوکریوں سے ہٹاکر اس فتنے کو قائم کیا جارہا ہے بلکہ ایسے سینکڑوں ٹیکنیکل میدان میں ہزاروں قسم کی نوکری کرنے والوں کو اس سے نقصان ہوا ہے جس کا احساس ہر کسی کو ہو سکتا ہے مگر یہا ں ایک بات دھیان دینے کی بھی ہے کہ جس طرح اس کے آنے سے نوکریاں جائیں گی اور جارہی ہیں اسی طرح چند الگ الگ قسم کی نوکریاں آئیں گی بھی جس سے اس کے اس نقصان کا ایک حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے۔مثلا اگر اس مصنوعی ذہانت کے ذریعے کسی کام کوانجام دیا گیا تو اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس کو مکمل ۰۰۱فیصد صحیح طریقے سے ہی کرے بلکہ اس کے بعد بھی اس میں بہت سی چھوٹی بڑی خامیاں پائی جاتی ہیں جس کی تصحیح کے لئے ایک انسان کا ہونا ضروری ہے۔
عزت نفس کا خطرہ:مصنوعی ذہانت کے تمام خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے عزت نفس کا کیونکہ انسان ہر مسئلے کو براداشت کرنے کی قوت رکھتا ہے جب تک کہ اس کی عزت نفس کے اوپر آنچ نہ آجائے۔اس کے ذریعے عزت نفس کا خطرہ کچھ اس طرح ہے کہ اس کے ذریعے کسی بھی تصویر یا ویڈیو میں سے کسی کا بھی چہرہ ہٹا کر اس کی جگہ کسی کا بھی چہرہ جوڑا جا سکتا ہے اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ کہ آنکھیں خود بھی اس پر یقین کرلیں اور اس کو کرنے والا بھی حیران رہ جائے۔ اب جب انٹرنیٹ کی دنیا میں اس قدر مہارت ومہان پن آ ہی گیا ہے تو لوگ اس کا غلط استعمال ضرور کریں گے۔پہلے پہل جب لوگوں کو اس کی خصوصیت کے بارے میں معلوم ہوا تو لوگ اس کو بہترین سمجھ کر اداکاروں کے چہرے کی جگہ اپنا چہرہ لگا کر خوش ہونے لگے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کے غلط اثرات بھی لوگوں نے دیکھے اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔انٹر نیٹ پر ایسے سینکڑوں معاملات مل جائیں گے جن میں اس طرح کے جرم کا کارنامہ مل جائیگا تو بس اس خطرناک ٹیکنولوجی کی دنیا میں ہمیں ہمہ وقت ہوشیار رہنا چاہئے اور ان طرح کے خطرات سے حتی الامکان خود کو بچانا چاہئے۔
تعلیمی خطرہ:تعلیم انسانی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے جس میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کا وقت برباد ہو اور وہ تحصیل علم کا وقت یوں ہی ضائع جانے دے مگر جب سے اس ٹیکنولوجی کی دنیانے ”چیٹ،جی،پی ٹی“ نامی کارنامے کو انجام دیا ہے تب سے ہی طلباء نے اس کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔”چیٹ،جی،پی ٹی“در اصل ایک تحریری اپلیکشن ہے جس کے ذریعے آپ چند لمحوں میں اپنی مانگی ہوئی تحریری مراد پوری کر سکتے ہیں مثلا آپ کو ایک مضمون چاہئے اور آپ نے ایک مضمون کی فرمائش کی کہ مجھے”مصنوعی ذہانت:ترقی کی خوشی یا دہشت کا غم؟“پر ۰۰۴الفاظ کا ایک مضمون چاہئے یا مقالہ چاہئے تو بس آپ نے ایک طرف اپنی خواہش کا اظہار کیا اور دوسری طرف آپ کے سامنے وہ حاضر کر دیا جائے گا۔دیکھنے میں تو یہ ایک جادو لگے گا جس سے ہم بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر اس کاغلط استعمال ہماری زندگی کو برباد بھی کر سکتا ہے جیسا کہ آج کے دور میں طلباء کر رہے ہیں۔کالج یا اسکول سے ملنے والا کام وہ منٹوں میں ”چیٹ،جی،پی ٹی“ سے کر لیتے ہیں اور انہیں کوئی محنت کر نے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ ”چیٹ،جی،پی ٹی“ کوئی واحد تحریری اپلیکیشن نہیں ہے بلکہ اس کی طرح مارکیٹ میں ایسے بہت سارے عیب نما اپلیکیشنز موجود ہیں جن کا صحیح کم اور غلط استعمال زیادہ ہو رہا ہے اور اس کا اثر سیدھا سیدھا ہماری پڑھائی پر پڑرہا ہے۔یہ ایک الگ با ت ہے کہ یہ ہماری مشکلوں کو آسان کر تا ہے لیکن اگر ہم اسکا غلط استعمال بند نہیں کریں گے تو اس کا خمیازہ ہمیں خود ہی بھگتنا پڑے گا اور اس کی بھر پائی ممکن نہ ہو پائے گی۔ پس اسی لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اس طرح کے ٹیکنولوجی کا صحیح استعمال کر کے اپنی زندگی سنواریں نہ کہ خود کو دھوکے میں ڈال کر اپنی ہی زندگی برباد کر نے کا سبب بنیں اور ساری زندگی خود کو کوستے کوستے کاٹیں۔
حاصل یہ کہ اس طرح کی ٹیکنولوجی کا جتنا فائدہ نظر آتا ہے در حقیقت میں کے اندر اس سے بھی زیادہ خسارے موجود ہوتے ہیں مگر وہ ہماری بینائی سے کافی پرے ہوتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ ہم اس طرح کی ”اے آئی“ اور مصنوعی ذہانت کو بہتر طریقے سے سمجھیں اورلوگوں کو بھی سمجھائیں اور اس سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیں اور خود کو اس کے جال سے احتیاطا بچائیں اور جتنا ہو سکے اس کا صحیح استعمال کر نے کی کوشش کریں جس سے ہمیں فائدہ ہی فائدہ ہو نہ کہ خسارے پر خسارہ۔اللہ ہماری عزت وآبرو کی حفاظت فرمائے۔ آمین!