یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

انسان اس دنیا میں مختلف دَور سے گزرتا ہے۔مختلف حالات کا سامنا کرتا ہے۔مختلف قسم کے لوگوں سے راہ  و رسم ہوتی ہے۔ نظام قدرت میں طرح طرح کی تبدیلیاں ملاحظہ کرتا ہے۔نظام مملکت میں اتار چڑھاودیکھتا ہے۔زندگی کےتلخ تجربات سے گزرتا ہے۔معاشرتی زندگی کے پیچ و خم کو برداشت کرتا ہے۔دنیا میں فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑنا چاہتا ہے لیکن اس دنیا کے واقعات و حادثات سے عبرت کم حاصل کرتا ہے۔

خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کے لیے اس دنیا کو عبرت گاہ بنایا ہے، جہاں رب کریم اپنی قدرت کاملہ کے بے شمار نمونے دکھاتا ہے، تاکہ انسان اس دنیا کی رنگارنگی میں کھو نہ جائے بلکہ دنیا و ما فیھا میں غور و فکر کرے۔رب ذوالجلال کی طرف اپنی لَو لگائے،تاکہ مخلوق کا رشتہ خالق سے مضبوط ہو جائے ،اسی رشتے کی مضبوطی کی بنیاد پر انسان کو حقیقی کامیابی میسر ہوتی ہے۔

حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ چیزیں کبھی آہستہ اورکبھی یکسر بدل جایا کرتی ہیں۔ پل بھرمیں چیزیں اوپر سے نیچے آجایا کرتی ہیں۔ انسان فرش سے آسمان کی بلندی پر پہنچ جاتا ہےاور دنیاوی اعتبار سے بہت ترقی یافتہ شخص کو بھی فرش پر آتے دیر نہیں لگتی۔یہ نظام قدرت ہے، اس میں غور و فکر کرکے اس سے عبرت و نصیحت کے موتی چننادانش مندی ہے، اگر انسان دانشمندی سے کام نہیں لیتا تو اس کی زندگی ہر لمحہ تختہ مشق بنی رہتی ہے اور اسی حالت میں اس دنیا کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔

ذرا غور کریں !  اس وقت دنیا بھر میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے، ہر چہار جانب لوگ مسائل سے گھرے ہیں، کہیں معاشی بحران ہے تو کہیں سیاسی کشمکش ہے، کہیں سماجی تو کہیں عائلی مسائل ہیں ۔کہیں انسانوں کی طرف سے پریشانیاں آئی ہیں تو کہیں آسمانی آزمائش ہے ۔ان سب میں کہیں نہ کہیں عبرت کےنشان موجود  ہیں۔دانشمندی یہی ہے کہ انسان اپنے گرد وپیش کےحالات و واقعات سے نصیحت حاصل کرے اور رب کریم نے جونعمتیں اورراحتیں نصیب کی ہیں ان پر بارگاہ ایزدی میں شکر و امتنان کے گلدستے پیش کرے اور آزمائشوں پر صبر کا دامن تھامے۔

۶؍فروری ۲۰۲۳ء کو ترکیہ اور شام کے متعدد شہروں میں ایسے بھیانک زلزلےآئےجس کی زد میں ہزاروں  عمارتیں ملبے میں تبدیل ہوگئیں ۔ ہزاروں جانیں تلف ہوگئیں،بےشمارافراد زخمی اور بےگھر ہوگئے،ان کی تباہی اور بربادی نشانِ عبرت بن گئی۔

یہ دنیا نشانِ عبرت کیوں نہ ہو کہ پل پھر میں انسان کی زندگی تہہ وبالا ہو جاتی ہے۔جیسا کہ  حال ہی میں آئے ترکیہ اور شام کے زلزلےپوری دنیا کے لیےعبرت کا نشان ہیں۔خالقِ کائنات کی قدرت اور مرضی کے آگے ہر کوئی بےبس ہے، اتنی بڑی تباہی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی، شہر کے شہر تباہ ہو گئے، فلک بوس عمارتیں زمین دوز ہو گئیں، اربوں پتی روٹی کپڑے کے محتاج ہوگئے، زلزلہ متاثرین میں سے ایک معمر شخص کی تصویر آئی اس کے ہاتھوں میں تین روٹیاں ہیں، آنکھیں اشک بار ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ شخص پہلے تین مکانات کا مالک تھا، چالیس سیکنڈ کے زلزلے نے اسے بےدست و پا کر دیا۔ایسے نہ جانے کتنے اہل ثروت اپنی بدلتی حالت پر ماتم کناں ہیں۔

ایسی بےشمار خبریں سامنے آئیں اور ایسے کئی مناظرسوشل میڈیا پر جاری ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔کہیں باپ بیٹے ایک ساتھ بےجان پڑے ہوئے ہیں تو کہیں ماں بیٹی ۔کہیں پورا پورا خاندان ابدی نیند سو گیا تو کہیں ایک خاندان کے کئی کئی افراد صحیح سالم نکال لیے گئے ۔ کہیں زلزلے کی دہشت اور شدت سے وضع حمل ہو جاتا ہے تو کہیں پانچ پانچ دن کے بعد بھی ننھے بچوں کو زندہ بچ نکلنے کی خبریں ملی ہیں۔جو افراد اس قیامت خیززلزلے سے امان پاگئے ان کے لیے اس بےسرو سامانی کے عالم میں موسم سرما کی سردلہروں کا مقابلہ کرنا بھی آسان نہیں جب کہ درجہ  حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے آگیا ہے۔ایسے حالات نے دنیا بھر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔اس تباہی اور ہلاکت کو محسوس کرکےآنکھیں امنڈ پڑیں اوردل دہل گئے۔آج جب کہ ہم مکمل آرام اور سکون کی زندگی جی رہے ہیں پھر بھی شکوے ہرزبان پر جاری ہیں،کوئی اُن دلوں سے پوچھے جو  اِن حالات سے نبر دآزما ہیں۔

اس دنیا میں طاقت وقوت رکھنے والے کس گمان میں ہیں؟کیا ان کی طاقت وقوت ہمیشہ باقی رہے گی؟کیا ان کے اقتدار کاسورج کبھی غروب نہیں ہوگا؟کیاان کے مال واسباب کبھی فنا نہیں ہوں گے؟کیا مضبوط قلعے اور محلات ہمیشہ باقی رہیں گے؟کیانوکر چاکر ہر وقت ساتھ دیں گے؟نہیں،ہرگز نہیں ۔دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ

ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے

مکیں  ہو گئے  لامکاں  کیسے  کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی  نوجواں کیسے  کیسے

جگہ جی  لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تو نے
جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے

 

ضرورت ہے کہ اب ہماری آنکھیں کھل جائیں ،اب ہم نیند سے بیدار ہو جائیں ،اب ہمارا احساس جاگ جائے ،ہم رب کے حضور جھک جائیں ،اس کے حکم کی بجاآوری اپنے اوپر لازم کر لیں ۔شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہوجائیں ۔ ایسا  نہ ہو کہ اب اس سے بڑی کسی تباہی کا سامنا ہو۔یہ زلزلے اور سونامی جیسی تباہی والے واقعات درا صل خالقِ کائنات کی طرف سے ’’الارم ‘‘ہوتے ہیں تاکہ اس کےبندےغفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کریں۔اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے انھیں صحیح طریقے سے انجام دیں۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کی صحیح طریقے سے ادائیگی کے لیے کمربستہ ہو جائیں ۔اپنے ماتحتوں کو ہوشیار کریں ،اس سے پہلے خود بھی سنبھل جائیں تاکہ ان کی نصیحت اور تلقین موثر ہو۔

یہ دنیا چند روزہ ہے اس سے دل لگانے کے بجاے اس ہمیشگی کے گھر سے دل لگایا جائے جہاں پلٹ کر جانا ہے،اسی کی یاد دل میں بسائی جائے ۔اسی کے لیے اعمال کیے جائیں۔جب اعمال صالحہ کی بات آئی تو ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ زلزلہ متاثرین کی بھرپور طبی اور مالی مدد کی جائے ۔ان کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے ۔جس طریقے سے بھی ان تک مدد پہنچ سکے ،پہنچائی جائے تاکہ ہمارے ان بھائیوں کا غم ہلکا ہو سکےاس سے ان کی بڑی خدمت ہو سکے گی اور رب کی رضا کا سبب بھی ۔دنیا بھر میں کام کر رہی چھوٹی بڑی تنظیمیں آگے آئیں ،ان تک ضروری اشیا پہنچاکر ان کی مدد کریں۔فوری طور پرحکومت ہندکی طرف سے ان متاثرین کے لیے امدادی کٹ کا بھیجا جانا ایک لائق تحسین قدم ہے۔ایسے حالات میں دیگر ممالک کے ساتھ خاص طور پر مسلم ممالک کو بڑھ کر مدد کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں پچھلی امتوں کے عذاب،زلزلے اور دیگر فتنوں سے تباہی کےواقعات اورقرب قیامت ظاہر ہونے والے فتنوں اور زلزلوں کوبیان فرمادیاہے،اورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی بہت پہلےاپنی امت کوآنے والے کئی بڑےفتنوں سے آگاہ کر دیا ہے تاکہ بندے ان فتنوں اورنشانیوں کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی رب کے عذاب سے ڈریں اور تقویٰ وپرہیزگاری اختیار کریں۔ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا اتُّخِذَ الْفَيْءُ دُوَلًا، وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا، وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا ، وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّينِ، وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ، وَعَقَّ أُمَّهُ، وَأَدْنَى صَدِيقَهُ، وَأَقْصَى أَبَاهُ، وَظَهَرَتِ الْأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَسَادَ الْقَبِيلَةَ فَاسِقُھُمْ، وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَھُمْ، وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ، وَظَھَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ، وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَھَا، فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ، وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا، وَمَسْخًا وَقَذْفًا، وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُهُ فَتَتَابَعَ ". (أخرجه الترمذی : ٢٢١١)

حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب مال غنیمت کو دولت، امانت کو مال غنیمت اور زکاۃ کو جرمانہ سمجھا جائے، دین کی تعلیم کسی دوسرے مقصد کے لیےحاصل کی جائے، آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے، اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے، اپنے دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے، مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں، فاسق و فاجر شخص قبیلے کا سردار بن جائے، گھٹیا اور رذیل آدمی قوم کا لیڈر بن جائے گا،فتنہ و فسادکے خوف سے آدمی کی عزت کی جائے، گانے والی عورتیں اور باجے عام ہو جائیں، شراب پی جائے اور اس امت کے آخر میں آنے والے اپنے سے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں گے تو اس وقت تم سرخ آندھی، زلزلہ، زمین دھنسنے، صورت تبدیل ہونے، پتھر برسنے اور مسلسل ظاہر ہونے والی علامتوں کا انتظار کرو، جو اس پروئی ہوئی  لڑی کی طرح مسلسل گریں گی جس کا دھاگاٹوٹ گیا ہو“۔ (ترمذی شریف،حدیث: ۲۲۱۱)

نبی کریم ﷺ جب امت پر خوف و دہشت کے آثار دیکھتے اور سخت آندھی اور طوفان کی آہٹ پاتے تو مسجد میں تشریف لے جایا کرتے اور رب کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر دعاوں میں مشغول رہتے جب تک یہ آثار ختم نہ ہو جاتے۔جب کوئی سخت معاملہ پیش ہوتا تو نبی کریم ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ آپ نماز پڑھا کرتےتاکہ اللہ پاک آسانیاں پیدا فرمائے اور مسائل کو حل فرمادے ۔نبی پاک ﷺ کی مبارک سیرت سے یہ بات سمجھ میں آتی جب بھی زلزلے جیسے سخت واقعات پیش آئیں تو ہمیں بھی رب کی بارگاہ میں حاضر ہو اپنے کرتوتوں سے معافی مانگنی چاہیے اوراللہ کا خوف اور تقویٰ اپنے دل میں بسا لینا چاہیے تاکہ دونوں جہان کی زندگی آسان ہو۔

اس وقت دیکھا جائے تو دنیا بھر میں بےپردگی اور بےحیائی کا طوفان آیاہوا ہے۔ہر طرف غیرمحرم سے میل جول ،دوستی یاری،بےتکلفی اور ناجائز تعلقات عام ہوتے جارہےہیں۔حالات اتنے سنگین ہونے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں پر بےحسی اور غفلت کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے کہ انھیں کچھ نظر ہی نہیں آرہا ہے۔شیرخوارگی سے آگے بڑھتی ہوئی بچیوں کو نیم برہنہ  لباس پہنانا عام ہوتا جارہا ہے۔بیٹیوں کو مردانہ لباس پہنایاجارہا ہے۔والدین کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ ان کی اولاد کیسا لباس پہن رہی ہے ؟کیسے ماحول میں رہ رہی ہے۔ان کی ذہنی نشو نمااور دینی تربیت کی بھی فکر نہیں ۔بچے بڑوں کو جیسا کرتے ہوئےدیکھیں گے ،ان کاجیسا غیر اسلامی رویہ دیکھیں گے ویسا ہی اثر قبول کریں گے اور ویسا ہی غیراسلامی کردار،طرز زندگی اپنائیں گےاور والدین سے اسی کا مطالبہ کریں گے۔والدین کی یہ ذہنیت کہ ’’ابھی تو بچی ہے‘‘اولاد کو جنسی اور فکری بےراہ روی کی طرف مائل کردیتی ہےاور والدین کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔اس کے نتیجے میں خاندان سے اسلامی اقدارکا جنازہ نکل جاتا ہےاور نسلوں میں اسلامی روح باقی نہیں رہتی ہے ۔اللہ پاک اس دنیا میں بےشمارنشانیاں ظاہر فرماتا ہے تاکہ بندہ نصیحت حاصل کرے اور نافرمانی اور گناہوں بھری زندگی سے توبہ کرکے رب کے حضور حاضر ہو اور آخرت کی لذتوں سے شادکام ہو۔یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب احساس کی نعمت بیدار ہو اور نصیحت قبول کرنے کا جذبہ ہو۔

اس وقت ایک بری صفت یہ عام ہوتی جارہی ہے ’’وہ ہے حق قبول نہ کرنے کی‘‘۔انسان اچھی اور سچی باتیں سننا ہی نہیں چاہتا۔ جب بندہ کسی اصلاح کرنے والے کی باتیں نہیں مانتا اوردین کے سچے راستے پر نہیں چلتا تو خالق کائنات اسے اپنی قدرت کے مظاہر دکھاتا ہے اور اس پر سخت آزمائشیں ڈالتا ہے تو بندہ  حق ماننے پرمجبور ہوجاتا ہے۔اللہ بندوں کو مہلت دیتا ہے۔ڈھیل دیتا ہے اگر بندہ سنبھل جائے تو اس کے لیے اخروی آسائشوں کی خوش خبری ہے ورنہ آخرت کی پکڑ بہت سخت ہے ۔

انسان کو اللہ نے عقل دی ہے،شعور وآگہی بخشی ہے تاکہ بندہ دنیا میں غور وفکر کرے،اس کا صحیح استعمال کرے، اس کو لہو ولعب میں نہ لگائے اور اس دنیاوی زندگی میں آخرت کے لیے کام کرے ۔یاد رہے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ایک مومن کے لیے آخرت ہی کی کامیابی زیبا ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter