ملکِ بھارت کا مستقبل حالیہ سیاسی تناظر میں ( ایک تجزیاتی و فکری مطالعہ )

بھارت کی سرزمین صدیوں سے تہذیبی ہم آہنگی ، فکری وسعت اور مذہبی رواداری کی مثال رہی ہے۔ مگر عصرِ حاضر میں سیاست کا رنگ بدل چکا ہے۔ جہاں کبھی )گنگا جمنی تہذیب(کا چرچا تھا، وہاں آج سیاسی نفرت، اکثریت پرستی اور قومی تنگ نظری کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس تبدیل شدہ منظرنامے کی بین الاقوامی اور مقامی پیمائشیں بھی تشویشناک اشارے دیتی ہیں۔

محققِ جدید ڈاکٹر وسیم اختر لکھتے ہیں :

بھارت کی جمہوریت اب اکثریتی جذبات کے دائرے میں قید ہو چکی ہے، جہاں آئین محض کتاب کا عنوان رہ گیا ہے، اور انصاف سیاسی نعروں کا ۔

یہ تجزیاتی طرزِ بیان کئی سامعین اور تجزیہ کاروں کی تشریحات کاخلاصہ ہے ، جسے عالمی ڈیموکریسی رپورٹس اور مقامی تجزیات نے مختلف الفاظ میں دہرایا ہے ۔

سیاسی تجزیہ کار پروفیسر سدھارتھ ورما کے مطابق، بھارت کی جمہوریت اب “Electoral Autocracy” کی شکل اختیار کر چکی ہے — یعنی انتخابات تو ہوتے ہیں، مگر اقتدار عوامی فہم و شعور کے بجائے جذباتی سیاست کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ۔ یہ مفروضہ V-Dem اور دیگر جمہوریتی تجزیوں میں بھی زیرِ بحث رہا ہے ، جنہوں نے بھارت کے درجے میں تنزّل کی بات کی ہے۔

ادبی محقق ڈاکٹر راشد فاروقی اس کیفیت کو روحِ جمہوریت کی کمزوری قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول:

جمہوریت محض ووٹ کا نظام نہیں، بلکه شعور کی سیاست ہے۔ جب رائے دہی مذہب کے نام پر ہو، تو نتیجہ آمریت کی ایک نرم شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔

یہ نقطۂ نظر اس تجزیاتی فریم سے ملتا ہے جو سیاسی شعور، آئینی اداروں کی آزادی، اور عوامی مباحثے کی صحت کو جمہوریت کے بنیادی معیار سمجھتا ہے۔ عالمی رپورٹس اور ریاستی واقعات کی روشنی میں یہ خدشات تقویت پاتے ہیں ۔

موجودہ سیاسی عمل میں مذہب کو شناخت کے بجائے ہتھیار بنائے جانے کے شواہد متعدد مطالعات اور رپورٹس میں ملتے ہیں۔ محققہ ڈاکٹر نیہا مہروترا نے نوٹ کیا ہے کہ مذہب پر مبنی سیاست نے قوم کے اندر نفسیاتی دیواریں کھڑی کر دی ہیں ۔ ایک ایسا عمل جو اجتماعی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی موضوع پر انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اقلیتی طبقات کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور نفرت انگیز بیانات کا تذکرہ کیا ہے۔

اسی خیال کو معروف اردو مفکر سید فخرالدین نظامی نے یوں بیان کیا:

بھارت کے سیاسی جسم پر فرقہ واریت وہ ناسور ہے جو ترقی کے خون کو زہر آلود کر رہا ہے۔

یہ ادبی اظہار وہی فکر نمایاں کرتا ہے جو سماجی تجزیات میں نشان زد ہے: جب سیاست تقسیم کے سہارے مضبوط ہو، معاشرتی سرمایہ کمزور پڑتا ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں اقتصادی نمو کی شرح اکثر بلند دکھتی ہے، مگر معاشرتی تانے بانے اگر تقسیم کے زیرِ اثر ہوں تو یہ نمو ایک یکجہتی اور انسانی بہبود میں تبدیل نہیں ہوتی۔ تجزیہ نگار پروفیسر آرون کمار (اور دیگر معاشی و سماجی تجزیہ نگار) بتاتے ہیں کہ معاشی ترقی کے مثبت اشارے وقتی فائدہ دے سکتے ہیں مگر سماجی ہم آہنگی کے بغیر دیرپا ترقی ممکن نہیں۔

ادبی زاویہ سے شاعرِ جدید شفیق انجم کا نوٹ بڑا معنی رکھتا ہے کہ قوم کا مستقبل اعداد سے نہیں، احساس سے بنتا ہے۔ جب دلوں میں تنگی آئے، تو ترقی کے مینار بھی بیکار ہو جاتے ہیں۔

یہ بیان معاشی اشاریوں اور سماجی کیفیت کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے: ترقی کا حقیقی معیار انسانی وقار اور شمولیت ہے۔ جمہوری بیداری اور فکری احیاء کی امید فلسفیانہ نقطۂ نظر سے پروفیسر آفتاب حسن فرماتے ہیں:

ہر زوال کے پیچھے ایک نیا شعور جنم لیتا ہے۔ بھارت کی نوجوان نسل اگر انسانیت کو ترجیح دے، تو یہ ملک دوبارہ روحِ جمہوریت کی طرف پلٹ سکتا ہے۔

یہی خیال متعدد دانشوروں اور سول سوسائٹی کے مبصرین نے بھی بیان کیا ہے : نوجوان ، سول سوسائٹی   اور تعلیمی محاذ وہ قوتیں ہیں جو آئینی قدروں کو دوبارہ زندہ کر سکتی ہیں ۔ بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس بھی شہری معاشرتی تنظیموں اور میڈیا کی آزادانہ کارکردگی کو آزاد معاشرے کی صحت کا اہم شاخہ قرار دیتی ہیں۔

اسی سوچ کو ادبی زبان میں صفدر امام قادری نے یوں رقم کیا:

یہ سرزمین مایوسی کی نہیں، معراجِ جدوجہد کی ہے ۔ یہاں روشنی کو دبایا جا سکتا ہے ، مگر بجھایا نہیں جا سکتا۔

یہ متوازن امید ، بحالی کے فکری راستے کی علامت ہے۔

تحقیقی زاویے سے دیکھا جائے تو موجودہ بھارت ایک فکری کشمکش کے دور سے گزر رہا ہے ۔ جہاں ایک طرف جمہوری کُنجیوں کی کمزوری، اکثریتی سیاست کی قوت ، اور اقلیتوں کے خلاف رجحانات ہیں ؛ وہیں دوسری طرف بیداری ، احتجاج ، سول سماجی بیداری اور فکری احیاء کی چنگاریاں بھی موجود ہیں ۔ بین الاقوامی درجہ بندی ، حقوقِ انسانی رپورٹس اور معاشرتی مطالعات یہ بتاتی ہیں کہ خطرات حقیقی ہیں مگر مکمل یأس کا وقت نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ملک کا مستقبل حکومتوں سے نہیں ، قوم کے شعور سے بنتا ہے۔

اگر بھارت کے اہلِ دانش، نوجوان اور انصاف پسند طبقات آئین ، برابری ، اور انسانیت کے اصولوں کو اپنی بنیاد بنائیں تو یہ ملک اب بھی تہذیب و تمدن اور عدل و انصاف کی روشنی بن سکتا ہے ۔

بھارت کا مستقبل سنگِ راہ نہیں ، آئینِ راہ کا محتاج ہے ، اگر رہبر راستہ بھٹک جائیں ، تو قافلہ بھی منزل کھو دیتا ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter