رام مندر کی تعمیر انصاف سے نہیں بلکہ عقیدہ کے راستہ سے ہوئی
(پریس نوٹ ) مولانا ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی (کامل الحدیث جامعہ نظامیہ) ، خلیفہ و جانشین دوم حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی قدس سرہ العزیز (سابق سجادہ نشین درگاہ امام پورہ شریف) و جنرل سکریٹری مرکزی مجلس فیضان ملتانیہ نے اپنے ایک صحافتی بیان میں کہا کہ ایودھیا میں پران پرتیشتھا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ہند نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر انصاف کے راستے سے ہوئی اور انہوں اس پر عدلیہ کا شکریہ ادا کیا جو سراسر حقائق سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ملک کے کروڑوں انصاف پسند عوام بشمول ہندو،مسلم، سکھ، عیسائی، ملک کے دانشور، صحافی، سماجی کارکن اور ماہرین قانون نے اس فیصلہ کو سمجھ سے بالا تر مانا ہے چونکہ یہ فیصلہ نہ صرف تضادات سے بھرپور ہے بلکہ اس فیصلہ سے دلائل، دستاویزات اور احکامات و فرامین پر عقیدت و آستھا کی فتح ہے۔ ایسے عالم میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ رام مندر کی تعمیر انصاف کے راستہ سے ہوئی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جھوٹ اس قدر کثرت سے بولاجائے کہ عوام الناس اسے سچ تصور کرنے لگیں۔ جہاں تک عدلیہ کے فیصلہ کی بات ہے تو اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کی بنج نے 2019ء کو متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ 1949ء مسجد کے اندر مورتیاں رکھنا عبادت گاہ کی بیحرمتی تھی اور 6 ڈسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کوقانون کی خلاف ورزی تھی۔ محکمہ آثار قدیمہ نے سپریم کورٹ میں کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہو کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ ان تمام حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجود یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ رام مندر کی تعمیر انصاف کے راستے سے ہوئی ہے؟ 2014-15ء میں ہندوستان پر 64 لاکھ کروڑ کا قرضہ تھا اور اب یعنی 2023-24 میں یہ قرضہ بڑھ کر 173 لاکھ کروڑ ہوگیا ہے۔
موجودہ حکومت ہندوستان کی گرتی ہوئی معیشت کو مضبوط بنانے کی بجائے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل رہی ہے۔ بعض فرقہ پرستوں نے ایودھیا میں پران پرتیشتھا کے دن کو روحانی نقطہ نظر سے ملک کے لیے ایک تاریخی دن کہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دن ہندوستان کی دوسری بڑی آبادی کو غمگین کرکے یہ دن منایا گیا ہے۔ اسی دن اقلیتی طبقہ تعلق رکھنے والوں کی جان و مال کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ کیا یہ روحانیت ہے؟ یہ تو حیوانیت سے بھی بد تر عمل ہے۔ ملک روحانی طور پر اس وقت ترقی کرے گا جب قانون کے سامنے سب کی جوابدہی برابر ہو، جب اقتدار کے نشہ میں چور ہوکر اہل اقتدار کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے بلکہ بلالحاظ مذہب و ملت ہر کسی کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ ایودھیا میں پران پرتیشتھا کے دن اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والوں نے آتشبازی کی اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کے جان و مال کو نقصان پہنچایا۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ آج کا دن دیوالی کا دن ہے۔ دیوالی کا دن تو بدی پر نیکی کی جیت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مجرمانہ طور پر بابری مسجد کو شہید کرکے ایودھیا میں پران پرتیشتھا کی تقریب منعقد کرنے کا دن کیسے دیوالی کا دن ہوسکتا ہے؟ اس تقریب کے بعد وزیراعظم نے ملک بھر میں ایک کروڑ گھروں پر روٹ ٹاپ سولر پینل لگانے کے ایک نئے پروگرام کا اعلان کیا جس کا نام ’’پردھان منتری سوریودیہ یوجنا‘‘ رکھا اورکہا کہ سوریاونشی بھگوان شری رام کی روشنی سے دنیا کے تمام عقیدت مندوں کو ہمیشہ توانائی ملتی ہے۔ اس علاوہ بہت سے حکومتی پروگرام ایسے ہیں جن کے نام سے ایک مخصوص مذہب کے عقائد کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان دستوری اعتبار سے سیکولر ملک ہے لیکن عملی طور پر ہندوراشٹر بننے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ مسلمان صبر و تحمل سے کام لیں چونکہ ہمارا مضبوط و مستحکم عقیدہ اس قادر مطلق پر ہے جس کے فرمانبردار بندوں نے کعبۃ اللہ شریف کو مورتیوں سے پاک و صاف کیا تھا۔ موجودہ حالات سے گھبرائے بغیر مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنا تعلق رب سے مضبوط کرلیں پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ انہیں ذلیل کرسکتی ہے اور نہ رسوا۔