کیا ہے شہریت ترمیمی قانون؟
شہریت ترمیمی قانون یہ ایک ایسا قانون ہے جس میں 31 دسمبر 2014ء تک ہندوستان کے پڑوسی ممالک افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں،سکھوں، بدھشٹوں،جینیوں،پارسیوں اور عیسائیوں کو ہندستانی شہریت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ یہ سبھی اگر گزشتہ چھ سالوں سے ہندوستان میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو انہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔البتہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔یہ قانون در اصل 1955ء کے شہرت قانون میں ترمیم ہے،جس کے مطابق بیرونی ممالک سے آنے والے بلا تفریق مذہب کسی بھی فرد کے لیے شہرت حاصل کرنے کی مدت 11سال تھی،بشرطیکہ وہ اس طویل عرصے میں کسی بھی جرم کے تحت ماخوذ نہ ہوا ہو،اور ملک مخالف کسی بھی سرگرمی میں شریک نہ رہا ہو۔جولائی 2016ء کو بی جے پی کی سربراہی والی مرکزی حکومت نے شہریت ترمیمی بل کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا اور 8 جنوری 2019ء کو لوک سبھا میں اسے منظور بھی کرا لیا تھا،تاہم راجیہ سبھا میں یہ بل زیر غور رہا اور 16 ویں لوک سبھا کی مدت کے ختم ہو جانے کے سبب پاس نہ ہو سکا۔جنوری 2019 کو اس متنازع بل کی مخالفت میں عرضی بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی،جہاں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے یہ کہتے ہوئے اس پر سماعت سے انکار کر دیا تھا کہ ابھی یہ بل راجیہ سبھا سے منظور ہونا باقی ہے اس لیے یہ پٹیشن زیر التوا رہے گی۔لیکن اوا آخر فروری میں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی بینچ نے شہریت ترمیمی بل کو چیلنج کرنے والی اس عرضی پر سماعت کی اور چھ ہفتوں میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا لیکن اب تک یہ بات معلوم نہ ہوسکی کہ مرکزی حکومت نے عدالت کو کیا جواب دیا تھا۔17 ویں لوک سبھا انتخابات میں غالب اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے 9 دسمبر 2019ء کو ایک بار پھر اس ترمیمی بل کو لوک سبھا میں پیش کیا اور اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر اسے پاس بھی کرا لیا،لوک سبھا میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 11 دسمبر کو دھاندلی کراکر راجیہ سبھا سے بھی منظوری حاصل کرلی اور محض ایک روز کے بعد 13 دسمبر کو صدر جمہوریہ سے اس بل پر دستخط بھی کرا لئے۔پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ شہریت ترمیمی بل قانون میں تبدیل ہو گیا۔یہ قانون چونکہ مسلم مخالف ہونے کے ساتھ دستور سے متصادم بھی ہے اس لیے اس کے خلاف شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک پورے ملک میں پر امن مگر زبردست احتجاج اور جلسوں کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ پورے آب وتاب کے ساتھ مکمل تین ماہ تک جاری رہا، مظاہرین کا یہ عزم تھا کہ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک اس مسلم دشمن اور دستور مخالفت قانون کو رد نہیں کردیا جاتا۔مگر کورونا وائرس کے پیشِ نظر لاؤک ڈاؤن کی وجہ سے اس سلسلے کو بند کرنا پڑا۔
عام طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون صرف مسلم مخالف ہے جبکہ تھوڑی سی توجہ کی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ یہ قانون مسلم دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ خود ہندو مخالف بھی ہے۔اس قانون میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز و تفریق کی گئی ہے وہیں اس میں ہندوؤں کے ساتھ بھی بھید بھاؤ کیا گیا ہے۔اگر آپ یہ سوال کریں کہ یہ قانون ہندو مخالف کیسے ہے تو اس کو یوں سمجھیے کہ اس قانون میں صرف تین پڑوسی ممالک پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش کے معتوب و پریشان ہندوؤں کو ہی شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔اب اس پر معارضہ یہ ہے کہ معاملہ جب معتوب و پریشان حال ہندوؤں کو شہریت دینے کا ہے تو پھر چین سری لنکا اور میانمار کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا؟کیا وہاں پر ہندو اور بدھ اقلیت عتاب زدہ نہیں ہے؟اگر آپ سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ وطن عزیز میں کل دو لاکھ نواسی ہزار مہاجرین موجود ہیں،جن میں پاکستان افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے صرف ایک لاکھ 16 ہزار ہیں،جبکہ ان کی اکثریت ایک لاکھ 71 ہزار کا تعلق چین سری لنکا اور میانمار سے ہے۔اب آپ خود دیکھ لیں کہ اس قانون کے مطابق دو لاکھ نواسی ہزار مہاجرین میں سے صرف ایک لاکھ 16 ہزار افراد ہی شہریت حاصل کرنے کے اہل ہیں اور ان کی اکثریت ایک لاکھ 73 ہزار اس سہولت سے محروم ہیں۔
در اصل بی جے پی کی سربراہی والی موجودہ مرکزی حکومت اس شہریت ترمیمی قانون کے ذریعے ایک تیر سے دو نشانہ لگانا چاہتی ہے جہاں ایک طرف وہ اس قانون کی بنیاد پر صوبہ آسام میں این آرسی کی زد میں آنے والے 16 لاکھ ہندوؤں نیز پورے ملک میں موجودہ ہندو مہاجرین کو شہریت فراہم کرنا اور ہندو برادرانِ وطن کو خوش کرنا چاہتی ہے تو وہیں دوسری جانب اس قانون کے دائرہ کار سے مسلمانوں کو خارج کر کے انہیں خائف و ہراساں کرنا اور پھر این آر سی کے ذریعے انہیں ملک برد کرنا چاہتی ہے۔اگر آپ یہ کہیں کہ یہ قانون تو شہریت دینے کے لیے ہے نہ کہ کسی کی شہریت ضبط کرنے کے لیے جیسا کہ ماضی میں بی جے پی لیڈران کے خطاب میں سنا گیا تھا کہ اپوزیشن کے بہکاوے میں نہ آؤ یہ شہریت دینے والا قانون ہے نہ کہ کسی کی شہریت چھیننے والا۔لہٰذا اس سے مسلمانوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔اگر آپ شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں یہ دلیل پیش کریں تو آپ کی سادہ لوحی پر یہ رائے قائم کرنا بالکل صد فیصد درست ہوگا کہ آپ نے اب تک اس سیاہ قانون کے پس منظر کو سمجھا ہی نہیں۔درحقیقت یہ قانون صوبہ آسام میں این آرسی میں پھنسے ہوئے 16 لاکھ بنگلہ دیشی ہندوؤں کو شہریت دینے کے لیے لایا گیا تھا۔مرکزی حکومت کو یہ گمان تھا کہ این آرسی کی زد میں آنے والوں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہوگی،لیکن جب 31 دسمبر 2019ء کو این آرسی کی حتمی فہرست آئی تو بی جے پی کے وہم وگمان کے بالکل برعکس ان میں غالب اکثریت ہندوؤں کی تھی،کیونکہ این آرسی کے رجسٹر سے خارج قرار دئے گئے،انیس لاکھ سے زائد لوگوں میں سے 16 لاکھ سے زائد تعداد ہندوؤں کی تھی۔
اب مرکزی حکومت کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اپنے ان 16 لاکھ ہندو بھائیوں کے ساتھ کیا کیا جائے اور یہ تو محض ایک صوبہ کی صورتحال ہے۔اگر این آرسی کے اس تجربے کو پورے ملک میں آزمایا جائے تو اپنے ہی بھائیوں کی بڑی تعداد بے گھر ہو جائے گی،جس کی وجہ سے ملک کے تمام ہندو ناراض ہو جائیں گے اور یوں ہمارے لیے اقتدار میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
یوں بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط تر بنانے اور اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر یہ متنازع قانون لے کر آئی ہے۔ اب بی جے پی اپنے طے شدہ پلان کے مطابق پورے ملک میں این آرسی نافذ کرنے کے طاق میں ہے جیسا کہ وزیر داخلہ ان دنوں عوامی ریلی میں یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ پورے ملک میں این آرسی نافذ کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اب ہوگا یہ کہ جیسے ہی انہیں کوئی بہتر موقع ملے گا یہ این آرسی نافذ کرا دیں گے اور ہر صوبے سے مسلمانوں اور ہندوؤں کی بڑی تعداد کو شہریت رجسٹر سے خارج کردیا جائے گا۔اس کے بعد شہریت ترمیمی قانون کے تحت ان ہندوؤں سے کہا جائے گا کہ فارم پر کریں اور شہرت حاصل کریں،جبکہ مسلمانوں کو ڈیٹینشن سنٹر میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ وہ اس قانون کی سہولت سے محروم رہے۔