دل کے اندھے

 بلاشبہ پورے روئے زمین پر تمام اولاد آدم میں دو ہی قسم کے انسان ملتے ہیں : 
پہلی قسم صاحب بصر (بینا) کی ہے جو خداداد بصری قوت کی بنیاد پر گردشِ لیل ونہار، حرکتِ شمس وقمر، عجائباتِ بحر وبر کو اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے۔ دوسری قسم بے بصر (نابینا) کی ہے جو کارخانۂ قدرت  کو دیکھنے سے محروم رہتا ہے۔

            مذکورہ دو طرح کے افراد متعارف ہیں۔ مگر ان میں بینائی اور عدم بینائی فی نفسہ خوبی اور عیب نہیں ہے۔ کیوں کہ بسا اوقات دیکھنے والا ہی اندھا ہوتا ہے اور اندھے کا شمار دیکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ 

         بلا شبہ جو حق وباطل، سچ وجھوٹ میں تمییز نہیں پیدا کرسکتاہے وہ آنکھ رکھ کر بھی اندھا ہے۔ جو شجر وحجر ، بحر وبر اور ارض وسما کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی رب کی ربوبیت، معبود کی معبودیت اور اللہ کی الوہیت کا منکر ہے وہی در حقیقت اندھا ہے۔ جو آیات الہیہ اور احادیث نبویہ کو دیکھ کر بھی امام الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظمت کا معترف نہیں ہے وہی حقیقی اندھا ہے۔ اور جو بزرگوں ، نوجوانوں اور بچوں کے اٹھتے جنازوں کو دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہیں کرتا اور جھوٹ ، مکر وفریب ، چوری، زنا کاری، شراب نوشی اور حرام خوری میں مبتلا رہتا ہے تو بالیقیں ایسے ہی لوگ اصلی اندھے ہیں۔

         حقیقتاً یہ لوگ آنکھ کے اندھے نہیں ہوتے ہیں بلکہ دل کے اندھے ہوتے ہیں۔ اور دل کا اندھا ہی حقیقی اندھا ہے۔ 
فرمان باری تعالی ہے:" فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ  وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ" (الحج) ترجمہ کنزالایمان: تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔


اے اہلِ نظر، ذوقِ نظر خوب ہے لیکن۔۔
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
(ڈاکٹر اقبال)

انسان جب دل کا اندھا ہوجاتا ہے تو اس کے لیے تمام تر جرائم اور برائیوں کا ارتکاب آسان ہوجاتا ہے۔ چوری ڈکیتی یہاں تک کہ کسی کا ناحق گلا گھونٹ کر بھی کفِ افسوس نہیں ملتا۔ اسمارٹ فون پر فحش تصاویر دیکھنے سے لے کر تمام ممکنہ برائیوں کا ارتکاب بآسانی کرلیتا ہے، پھر بھی اس کا بدن ذرا بھی خوف الہٰی سے نہیں لرزتا بلکہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کو گناہ نہیں سمجھتا نیز جب اندھاپن زیادہ ہوجاتا ہے تو بڑے بڑے جرائم کو بھی جرائم نہیں سمجھتا۔  کیوں کہ جو دل کا اندھا ہوتا ہے وہ فقط خواہشات اور لذتوں کا طالب ہوتا ہے اور آگے کیا ہوگا؟ اس کے برے نتائج اور انجام سے بے فکر ہوتاہے۔

        دنیا میں احکام خداوندی سے اندھا رہنا یہ ایسا خطرناک مرض ہے کہ یہ دنیا کی خیر اور آخرت کی بھلائی کو دیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اگر دنیا ہی میں اس اندھے پن کا صحیح علاج نہ ہوا تو آخرت میں بھی وہ اندھاپن برقرار رہے گا۔ اور وہ آخرت کی بھلائیوں سے محروم کردیا جائے گا۔  جیسا کہ خداوند قدوس فرماتا ہے: "وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ھٰذِہٖۤ  اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَاَضَلُّ سَبِیۡلًا" (بنی اسرائیل)
ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اس زندگی میں اندھا ہو وہ آخرت میں اندھا ہے اور بھی زیادہ گمراہ۔

         لہٰذا اندھے پن کے علاج کے لیے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے اس لیے کہ یہ لاعلاج مرض نہیں ہے ہاں زندگی کا تار ٹوٹنے کے بعد لاعلاج ضرور ہو جائے گا۔بس یہ سمجھو کہ مرض تو شدید خطرناک ہے مگر زندگی کی شمع گل ہونے سے پہلے علاج بہت ممکن ہے۔ اس طرح کہ خوف الہٰی سے اپنے دل کو معمور کرلے، اپنے سابقہ گناہوں پر شرمندہ ہو، کسی کی حق تلفی کی ہو تو اس کا حق لوٹا دے پھر خداوند قدوس کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے اور ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا عزم مصمم کرلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: "التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ" (سنن ابن ماجه)
گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس کا کوئی گناہ نہیں۔ نیز اندھے پن کے علاج کے لیے دعا کرتے رہیں کہ یا اللہ!


بصر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو
لگاؤں خاکِ قدم بار بار آنکھوں میں
(مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ)

اللہ جل جلالہ ہم سب کو دل کے اندھے پن کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز حق وباطل، صدق وکذب، نیک وبد میں امتیاز پیدا کرنے کی بصیرت عطا فرمائے اور جملہ امراضِ قلوب سے نجات عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین بجاہ النبی ﷺ

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter