ماہ شعبان: رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ

اسلامی سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک اپنی عظمتوں، رحمتوں اور برکتوں کی وجہ سے مسلمانان عالم کے درمیان بڑی اہمیت و بزرگی کا حامل ہے۔ مسلمان اس ماہ مبارک میں عبادت و بندگی کا خاص اہتمام کرتے ہیں، فرائض پنج گانہ ، نماز  تراویح ،نماز تہجد و نوافل، تلاوت قرآن ، روزہ، اورادو وظائف، صدقات و خیرات، جیسے نیک اشغال و اعمال کی بجاآوری میں بڑی ہی مستعدی و تندہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں مسلمان کما حقہ گناہوں سے بچنے کی کوششیں کرتا ہے اور اپنے زیادہ تر اوقات کو کار خیر میں صرف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  ماہ رمضان اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ رونق افروز ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تیزی کے ساتھ ہمارے درمیان سے رخصت ہو جاتا ہے۔ جس ماہ مبارک کی آمد کے ہم بڑی شدت کے ساتھ منتظر رہتے ہیں اس کے اچانک چلے جانے سے یہ سوچ کر دکھی ہو جاتے ہیں کہ ابھی تو ہم اس ماہ مقدس میں جی بھر کر عبادتیں بھی نہ کرسکے اور وہ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا۔

رمضان المبارک کے ختم ہوجانے کے بعدیہ افسوس ہمارے بہت سے اسلامی بھائیوں کو ہوتا ہے ، اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہم رمضان المبارک کی آمد کے تو منتظر رہتے ہیں مگر اس ماہ مقدس کو نیکیوں اور اعمال صالحہ میں گزارنے کی قبل از وقت نہ کوئی تیاری کرتے ہیں اور نہ ہی ٹھوس منصوبہ بندی۔ جبکہ سیر و تاریخ کی کتابیں پڑھنےسے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے اسلاف اور بزرگان دین یہاں تک کہ خود سید عالم ﷺ رمضان المبارک کی آمد سے دو ماہ پہلے اس کی تیاری شروع فرما دیتے تھے۔ اور بالخصوص ماہ شعبان المعظم میں اس قدر عبادات فرماتے اور روزہ رکھتے اور ایسا کرکے اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔

چناں چہ ام المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے یہاں تک کہ وہ رمضان المبارک کے روزےسے مل جاتا۔(سنن نسائی،کتاب الصيام، ذکر حديث أبی سلمہ  فی ذلک، 4 : 150، رقم :2175)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالیٰ  عنہم پہلے ہی سے شعبان المعظم کی تیاری شروع فرما دیتے تھے۔چناں چہ ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں :

کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ.

ترجمہ : شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتےتاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔‘‘ (ابن رجب حنبلی: لطائف المعارف: 258)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات و واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان سے قبل ہی رمضان کی تیاری کرنا ہمارے اسلاف کا معمول تھا ، اسی لیے ماہ رمضان المبارک میں وہ خوب خوب عبادات کرکے نیکیوں کا انبار لگا دیتے تھے۔ رمضان کی تیاری کے لیے ہمارے اسلاف ماہ شعبان المعظم میں جن امور کو مد نظر رکھتے تھے ان میں سے بعض اختصار کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں:

(۱) پورے رمضان کا روزہ رکھنے کی نیت کر لیں: مشہور کہاوت ہے”جیسی نیت ویسی برکت“۔لہٰذا اگر ہم رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی مکمل روزے رکھنے کی نیت کر لیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور یہ سعادت حاصل ہوجائے گی۔اور اگر خدا نخواستہ کسی سبب سے کچھ روزے چھوٹ بھی گئے  تب بھی ہمیں اچھی نیت کرنے کی وجہ سے ثواب ضرور ملے گا۔حدیث پاک میں ہے کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔

(٢) روزہ و نماز سے متعلق ضروری مسائل سیکھ لیں: نماز اور روزے کے مسائل سے ناواقفیت کی بنا پر ہمارے بہت سے بھائیوں کی نمازیں بھی خراب ہو جاتی ہیں اور روزے بھی۔ لہٰذا ماہ شعبان ہی میں نماز و روزے کے ضروری مسائل کو اپنے محلے کے امام یا اپنے مدرسے کے عالم سے سیکھ لیں۔ اور اس میں کسی قسم کی عار یا شرم بالکل بھی نہ کریں کیوں کہ العار خیر من النار۔شرمندگی آگ میں جانے سے بہتر ہے۔

(٣) چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کر لیں:اگر کسی شرعی یا طبعی مجبوری کی وجہ سے گذشتہ رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے ہوں تو رجب اور شعبان کے مہینے میں لگاتار یا وقفے وقفے سے ان کی قضا کر لیں تاکہ رمضان شریف آنے سے پہلے پہلے آپ کے اوپر کوئی روزہ قضا نہ ہو۔ایسا کرنے سے فرض کا بوجھ بھی سر سے اتر جائے گا اور آنے والے رمضان کی عملی پریکٹس بھی ہو جائے گی۔کیوں کہ رمضان کا روزہ ہی عموماًلوگوں پر زیادہ گراں گزرتا ہے۔

 (۴) نفلی روزں کی کثرت کریں: اگر آپ کے ذمے فرض روزے نہ ہوں تو رمضان سے قبل زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھیں،خاص طور پر ١٤ اور ١٥ شعبان المعظم کا روزہ ضرور رکھیں۔اس لیے کہ احادیث کریمہ میں ان روزوں کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور حضور ﷺ خود ہر سال یہ روزے رکھا کرتے تھے۔

 (۵) نماز با جماعت کی پابندی کریں: یوں تو ہر عاقل و بالغ مسلمان پر پورے سال نماز با جماعت کی پابندی کرنا ضروری ہے، لیکن شعبان کے مہینے میں خاص طور پر نماز پنج گانہ باجماعت ادا کرنے کی عادت بنالیں،تاکہ ماہ رمضان میں نماز پنج گانہ اور نماز تراویح ادا کرنے میں کسی قسم کی سستی نہ ہونے پائے اور نماز میں خشوع و خضوع باقی رہے۔

(۶) نفس کو عبادات کا عادی بنائیں: نفس جس عبادت کی طرف کم مائل ہوتا ہو اس عبادت کو بار بار کرنے کی کوشش کریں۔ مثلا ً: عام طور سے مردوں کو روزہ رکھنے میں مشقت ہوتی ہے اور عورتوں کو نماز پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے،لہٰذا مرد حضرات رمضان سے قبل کثرت سے نفلی روزے رکھیں اور خواتین نفلی نمازیں پڑھیں،اس طرح نفس ان عبادات کا عادی بن جائے گا اور ماہ رمضان میں عبادات میں دلچسپی پیدا ہوگی۔

 (۷)قرآن مجید کی تلاوت کا معمول بنائیں: ماہ رمضان سے قرآن مجید کا خاص تعلق ہے، اسی مقدس مہینے میں قرآن نازل ہوا،اس لیے رمضان المبارک میں قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت ہوسکے اس کے لیے پہلے سے ہی تلاوت قرآن کی عادت ڈالیں۔اور قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ درست پڑھنے کی کوشش کریں،تاکہ خوب خوب ثواب کے حق دار ہوں۔

(٨)نماز تہجد کا اہتمام کریں: نفل نمازوں میں نماز تہجد کی جو فضیلت و اہمیت ہے وہ کسی اور نماز کی نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:

افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ صلاۃ اللیل۔ (جامع الترمذی، ج 1، ص 99،باب ماجاء فی فضل صلاۃ اللیل)

ترجمہ:فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔

اس نماز کی پابندی کرنے سے بے شمار دنیوی و اخروی برکات ظاہر ہوتی ہیں۔ جو لوگ نماز تہجد کے پابند نہ ہوں وہ ماہ شعبان کی راتوں میں وقتاً فوقتاً نماز تہجد کا اہتمام ضرور کریں۔ تاکہ ماہ رمضان اس نماز کے پڑھنے کی توفیق حاصل ہو جائے۔

(٩) کم کھانے اور کم سونے کی عادت بنائیں:  فارسی کا مشہور فقرہ ہے: ’’سہ چیز زبوں است، بسیار خوردن ، بسیار خفتن ، بسیار گفتن‘‘۔ یعنی تین چیزیں بری ہیں ١ـ زیادہ کھانا۔٢۔زیادہ سونا اور ٣ـ زیادہ بولنا۔

زیادہ کھانا اور زیادہ سونا طبی لحاظ سے بھی انسان کی صحت کے لیے ضرر رساں ہے۔لہٰذا ماہ شعبان کے آغاز ہی سے کم کھانے اور کم سونے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ ماہ رمضان کے روزے رکھنے اور راتوں میں عبادت کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔

(١٠) خریداری کر لیں: ماہ شعبان میں رمضان کی تیاری اس اعتبار سے بھی کرنی چاہیے کہ ماہ رمضان میں سحر و افطار اور ضروریات کی وہ چیزیں جو جلد خراب نہ ہوں ، ان کی خریداری قبل رمضان ہی کر لیں تاکہ جو وقت ان چیزوں کی خریداری میں لگتا ہے وہ اللہ پاک کی عبادت میں صرف ہو۔اور بلاوجہ کی تکان سے بھی راحت مل جائے۔

 (١١) گناہوں سے سچی توبہ کریں: یوں تو گناہوں کے بے شمار نقصانات ہیں،مگر سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بار بار گناہ کرنے سے نیکی کی توفیق چھین لی جاتی ہے اور بندہ چاہ کر بھی نیک کا م نہیں کر پاتا ہے۔لہٰذا آپ سے جانے انجانے میں جو بھی گناہ صغائر و کبائر سرزد ہوئے ہوں ان سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سچی پکی توبہ کر لیں،تاکہ  آپ ماہ رمضان المبارک کی برکات و حسنات سے بہرہ ور ہوسکیں۔

(۱۲) خرچ کرنے میں کشادگی کریں :  خرچ کرنا ،کھلانا پلانا اسلام کی بہترین تعلیمات میں سے ہے ۔یوں تو خرچ کرنا ہر مہینے میں محبوب و پسندیدہ ہے لیکن ماہ رمضان المبارک میں روزہ داروں پر خرچ کرنے کا ثواب کثرت سے ملتا ہے۔اس مہینے میں تو نیکیوں پر انعام خداوندی کی کوئی حدہی نہیں ہے۔وہ رب کی مرضی اور بندے کی نیت و خلوص پر ہے ۔اس لیے اس مہینے میں اپنے گھر والوں پر اور رشتے اروں پر ،پاس پڑوس کے روزہ داروں پر اور مسافر وپریشان حال لوگوں پر دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے۔

        یہ چند مفیداور قابل عمل نکات ضبط تحریر کر دیے گئے ، رب کریم ہم سب کو ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے،آمین

از قلم : توحید احمد برکاتی

استاذ: دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم

برگدہی،مہراج گنج

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter