اسلام اور عورت

دنیا کے کسی مذہب نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا ہے جواسے اسلام نے عطا کیا ہے۔ تاریخ کے صفحات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اسلام کی آمد سے پیشتر عورتوں کے حالات نہایت ہی دگرگوں تھے۔ ان کی سماجی زندگی ناگفتہ بہ تھی۔ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی بعض سفاک لوگ اسے زندہ درگور کردیتے۔ لفظ عورت معاشرے کی گالی بن چکی تھی۔ اس کی ولادت کو خاندان کے لیے ایک بد نما دھبہ مانا جاتا۔ اسے زحمت کہا جاتا۔ ان سے ناروا سلوک کیا جاتا۔ ان کی حق تلفی کی جاتی۔ قربان جائیں اسلام کی تعلیم پر جس نے عورت کو عزت و وقار بخشا۔ انہیں ذلت و رسوائی کے عمیق گڑھے سے نکال کر اعلی مقام عطا کیا۔ 
 آج کل انسان جو نکاح کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ جو نکاح کو صرف خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ مانتا ہے۔ جو نکاح کو صرف دل کو بہلانے کا طریقہ گردانتا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایک عورت کی اہمیت کیا ہے۔ اس کی عظمت کیا ہے۔ عورت وہ کھلونا نہیں جسے کھیلنے کے بعد من بھر جائے تو کنارے رکھ دیا جائے۔ عورت وہ کھلونا نہیں جو استعمال کرنے کے بعد توڑ دیا جائے۔ عورت پیر کی جوتی نہیں جسے ضرورت پوری ہونے کے بعد اتار کر پھینک دیا جائے۔ عورت کی اہمیت کو سمجھیے۔ عورت وہ چیز ہے کہ جنت میں حوریں بھی نظر آرہی ہوں۔ جنت میں نہریں بھی دکھائی دیتی ہوں۔ جنت میں ثمر بھی موجود ہوں۔ جنت میں گلوں کا تبسم بھی موجود ہو۔ جنت میں دریاؤں کی روانی بھی موجود ہواور جنتی محلات بھی دکھائی دیتے ہوں۔ لیکن پوچھو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے کہ جنت میں ہر نعمت موجود ہونے کے باوجود عرض گزار ہوئے کہ مولا! تیری جنت میں سب کچھ ہے لیکن میرے جیسا کوئی رفیق نہیں ہے۔ میرا کوئی شفیق نہیں ہے۔ سو مجھے کوئی ہم سفر عطا کر! کوئی رفیق عطاکر! کوئی شفیق عطا کر دے۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ جنت بھی مل جائے تو عورت کے بغیر انسان خود کو ادھورا اور نامکمل سا محسوس کرتا ہے۔
 حضرت آدم علیہ السلام نے جنت میں عورت کی مانگ کر کے یہ بتا دیا کہ حوریں بھی تمہارے دل کو وہ سکون عطا نہیں کر سکتیں جو ایک عورت کر سکتی ہے۔ جنت کی نہریں بھی تمہارے دل کو وہ سکون فراہم نہیں کر سکتیں جو ایک بیوی کر سکتی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے دست قدرت سے بننے والے ہستی ہیں۔ اللہ نے ”لقد کرمنا بنی آدم“ کہہ کر کہ ان کے سر پر کرامت و بزرگی کا تاج سجایا۔ ان کو مسجودِ ملائک بھی بنایا۔ پھر انہیں زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا۔اپنا پہلا پیغمبر ہونے کا شرف بخشا۔۔۔۔اللہ اکبر! اس قدر بلند و بالا شان کے مالک حضرت آدم مانگ کسے رہے ہیں؟ ایک عورت کو۔ ایک بیوی کو۔ ایک شریک حیات کو۔ پتہ چلا بیوی کتنی بڑی اور اہم چیز ہے کہ جنت میں بھی مانگی جارہی ہے۔
 رب ذو الجلال کی یہ حکمت بھی ملاحظہ کیجیے کہ اُس نے حضرت حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا کیا۔ جبکہ وہ چاہتا تو لفظ کن کہہ کر پیدا کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اللہ پاک نے انہیں حضرت آدم کی طرح مٹی سے بھی بنا سکتا تھا۔ یا جس طریقے سے وہ دیگر اشیاء کی تخلیق کرتا ہے حضرت حوا کو بھی وجود بخش سکتا تھا مگر اس کا انداز دیکھیے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اونکھ تاری کردی اور اونگھ تاری کرنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو خلقت عطا کر دی۔ غور کیجیے کہ خدا چاہتا تو عورت حضرت آدم کے ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی بن جاتی۔ پیر کے ناخنوں سے بھی وجود میں آ جاتی یا سر کے بالوں سے بھی تخلیق پا جاتی۔ پھر بائیں پسلی سے ہی کیوں؟ تو سنیے اور اُس حکیم کی حکمت پہ رشک کیجیے کہ اگر انگلیوں سے پیدا ہوتی تو لوگ اسے اپنی انگلیوں پر نچاتے۔ اگر پیروں کے ناخن سے پیدا ہوتی تو لوگ اسے پیروں کے نیچے رکھ کر چلتے اور اگر سر کے بالوں سے پیدا ہوتی تو لوگ اسے سر پر بٹھا کر رکھتے۔ گویا قدرت نے یہ پیغام دے دیا کہ عورت انگلیوں کے اشاروں پہ نچانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ پیروں تلے روندے جانے کی چیز بھی نہیں اور نا ہی وہ اس قابل ہے کہ انسان اسے سر پہ اٹھائے پھرے۔ آج جو لوگ عورتوں کو سر پہ اٹھائے پھرتے ہیں وہ بھی غلط کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے عورت کو انسان کی بائیں پسلی سے پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ عورت بات بات پہ دھتکاری جانے والی چیز نہیں بلکہ دل کے قریب رکھنے کی چیز ہے اور زندگی کے ہر موڑ پہ پہلو بہ پہلو چلنے والی نہایت نرم دِل اور دلکش ساتھی ہے۔ عورت کے متعلق علامہ ڈاکٹر اقبال کا خیال ہے:


وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
 اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں!

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter