نماز كا مختصر تعارف
نماز بندے کے لئے اپنے خالق سے رشتہ جوڑنے کا سب سے آسان اور بہترین ذریعہ ہے. انسان کی دنیوی واخروی اور سماجی زندگی کی کامیابی کا معیار بھی فقط نماز ہی ہے. پانچ وقتوں کی نماز کو ایک بہنے والی ندی سے مثال دیکر الله کے حبیب حضور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو سکھایا ہے کہ جو بندہ دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اس كي مثال گویا اس شخص كي طرح ہے جو دن میں پانچ مرتبہ ندی میں غسل کرکے اپنے بدن کے میل کچیل دور کرتا ہے.
اہل سنت و جماعت کے نزدیک ایمان و صحيح عقيدے کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم واعظم ہے۔ اہمیت کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اﷲ عزوجل نے سب احکام اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زمین پر بھیجے، جب نماز فرض کرنی منظور ہوئی تو حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنے پاس عرشِ عظیم پر بلا کر اسے فرض کیا اور شب اسرا میں یہ تحفہ دیا۔
ہر مکلّف یعنی عاقِل بالغ پر نما ز فرض عین ہے اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔ اور جو قصداً چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی ہو وہ فاسِق ہے اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے بلکہ ائمۂ ثلٰثہ مالک و شافعی و احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک سلطانِ اسلام کو اس کے قتل کا حکم ہے۔ (درمختار )
(الدرالمختار''معہ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، ج۲، ص۶)
نماز- قرآن وحديث كي روشني ميں
قرآن مجید و احادیث نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز کی اہمیت سے مالا مال ہیں ، جا بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وعید فرمائی گئی، چند آیتیں اور حدیثیں درج ذیل ہیں،
ﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ( وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡا مَعَ الرَّاکِعِیۡنَ ﴿ البقرۃ ۴۳ ﴾
اور نماز قائم رکھواور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔
نماز کا مطلقاً ترک تو سخت ہولناک ہے ہی نیز اسے قضا کرکے کرکے پڑھنے والوں کے لئے ارشاد باری تعالی ہے:
( فَوَیۡلٌ لِّلْمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۴﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۙ﴿الماعون ۵﴾ خرابی ان نمازیوں کے ليے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں۔
جہنم میں ایک وادی ہے ،جس کی سختی سے جہنم بھی پناہ مانگتا ہے، اس کا نام ''ویل'' ہے، قصداً نماز قضا کرنے والے اس کے مستحق ہیں۔
احادیث نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:
حدیث ۱: صحیح بُخاری و مُسلِم میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔اس امر کی شہادت دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں ،اور نماز قائم کرنا اور زکاۃ دینا اور حج کرنا اور ماہِ رمضان کا روزہ رکھنا۔
(صحيح مسلم''، کتاب الإيمان، باب بيان أرکان الإسلام... إلخ، الحدیث:۲۱۔(۱۶)، ص۲۷.)
حدیث 2: صحیح مُسلِم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ، کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک ان تمام گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، جو ان کے درمیان ہوں جب کہ کبائر سے بچا جائے۔
(صحيح مسلم''، کتاب الطہارۃ، باب الصلاۃ الخمس، الحدیث: ۱۶۔(۲۳۳)، ص۱۴۴)
حدیث 3: صحیحین میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ،کہ ایک صاحب سے ایک گناہ صادر ہوا، حاضر ہو کرعرض کیا ، اُس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(صحيح البخاري''، کتاب مواقيت الصلاۃ، باب الصلاۃ کفارۃ، الحدیث: ۵۲۶، ج۱، ص۱۹۶)
(اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ؕ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیۡنَ ﴿ ھود ۱۱۴ ﴾
نماز قائم کرودن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصہ میں بے شک نیکیاں گناہوں کو دور کرتی ہیں، یہ نصيحت ہے، نصيحت ماننے والوں کے ليے۔
انھوں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ! کیا یہ خاص میرے ليے ہے؟ فرمایا: ''میری تمام اُمت کے ليے ہے ۔''
حدیث 4: ابو داود نے بطریق عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدّہ روایت کی کہ حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: ''جب تمھارے بچّے سات برس کے ہوں، تو اُنھیں نماز کا حکم دو اور جب دس برس کے ہو جائیں، تو مار کر پڑھاؤ۔
(سنن أبي داود''، کتاب الصلاۃ، باب متی يؤمر الغلام بالصلاۃ، الحدیث: ۴۹۵، ج۱، ص۲۰۸.)
نماز کو کما حقہ خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے سے انسان اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرکے خدا کو راضی کرتاہے ساتھ ہی ساتھ اپنے نفس پر مکمل طورپر قابو پاتاہے جس کی وجہ سے وہ گناہوں کی طرف بڑھنے سے خود كو روك پاتا ہے. اسی کی طرف قرآن مجید کا اشارہ ہے. إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، (سورہ العنکبوت ٤٥)
لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم سب نمازیں تو پڑھتے ہیں پھر بھی گناہوں پر آمادہ ہوجاتے ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ہم اپنے آپ سے ہی پوچھیں کہ ہماری نمازوں میں وہ طاقت وہ کیفیت پائی جاتی ہے یا نہیں؟