عہد عثمان رضی الله عنہ کی مہمیں اور فتوحات

    خلیفہ سوم امیر المومنین، امام المجاہدین، حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں 24/ ہجری سے 32/ ہجری تک مشرق وسطی کی بڑی بڑی مہمات جاری رہیں- افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ 25/ ہجری سے آپ کے عہد خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود ہندوستان، روس، افغانستان، الجزائر، مراکش اور بحیرہ روم کے جزائر تک وسیع ہو گئیں تھیں- فتوحات کا سلسلہ آرمینیا کے علاقہ سے شروع ہو کر بحیرہ روم کے جزایرہ اروا کی تسخیر پر ختم ہوا- مفاد عامہ کے کاموں میں سڑکیں بنوائی گئیں- مفتوحہ علاقوں میں چھاؤنیاں قائم کی گئیں- چراگاہوں میں مویشیوں کے لیے چشمے کھدوائے- رعایا کی آسائش کے لیے سڑکیں اور مسافر خانے بنوائے- حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے محرم الحرام 24/ ہجری سے ذی الحجہ 35/ ہجری تک خلافت کے فرائض انجام نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے پورے کیے آپ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی بہت سے ملک فتح کیے آپ کے عہد کی مہمیں اور فتوحات کا ذکر تاریخ اسلام میں کچھ اس طرح ملتا ہے:

        حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ کی وفات کے وقت تک عرب مسلمانوں کے لشکر ایران کی ساری مملکت پر قابض ہو کر کابلستان اور زابلستان کی ہندو ریاستوں کی حدود کے ساتھ اور ان کے اوپر ترکوں اور تاتاریوں کی مملکت کے ساتھ جا ٹکرائی تھی- ملک ایران اور شام میں اسلام کے علمبرداروں کو زرتشتی دین اور دین مسیحیت کے پیروؤں سے مقابلہ پیش آیا تھا کابلستان، زابلستان اور سندھ کی حدوں پر پہنچ کر انہیں ایک ایسی قوم سے سابقہ بڑا جو ظہورِ اسلام سے پہلے عربوں کی طرح مشرک اور بت پرست تھے- ترکستانات میں ان کا واسطہ ایک ایسی قوم سے پڑا جو مظاہر پرست تھی اور اس عقیدہ کی مالک تھی کہ موجودات کی ہر شے ایک باطنی روح رکھتی ہے- لہٰذا! ان کو خوش رکھنے کے لیے ان کی بندگی کرنی چاہیے- 

      645/ء مطابق 24ھ میں عرب مسلمانوں کے ایک لشکر نے کابلستان کی ریاست پر چڑھائی کی کیونکہ اس ریاست کے ہندو حکمران ایران کی سرحدوں پر مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے لگے تھے- ہندوؤں نے مسلمانوں کے اس لشکر کو شکست دی اور عرب مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا یہ مہم ناکام رہی- زرتشتی ایران کا شہنشاہ یزد جرد مرو کے ترک حکمران کے ہاں پناہ گزین تھا اور وہاں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے لگا- یزد جرد نے خاقان تاتار کی امداد سے خراسان کے علاقے پر ایک حملہ بھی کیا لیکن شکست کھائی- اس کی ریشہ دوانیوں کی بدولت ایران کے بعض صوبوں میں شورشیں بھی برپا ہوئیں اور جو عرب فاتحین نے کڑے ہاتھوں سے دبا دیں کوفہ اور بصرہ کی چھاؤنیاں، ایران کی بغاوتیں اور شورسیں دبانے کے لیے موثر اقدامات کرتی رہیں -

652/ ء مطابق 31ھ میں عرب مسلمانوں کے ایک لشکر نے ترکستانات کی ولایت خرز کے ترکوں پر چڑھائی کی کیونکہ وہ بھی ایران کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے- کابلستان کی مہم کی طرح اس مہم کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ خود اسلام لشکر میں خانہ جنگی واقع ہو جانے کا خطرہ لاحق ہونے لگا- اسلام لشکر ولایت خزد سے پسپا ہوا- شامی اور کوفی عربوں کے لشکر اپنی اپنی چھاؤنیوں میں چلے گئے- بدوی عربوں اور قریش کے درمیان رقابت کی جو حس عہد عثمان بن عفان رضی الله عنہ میں پیدا ہو کر ترقی کر رہی تھی یہ اس کا پہلا افسوس ناک مظاہرہ تھا جو ایک بیرونی مہم کی ناکامی پر منتج ہوا-

      حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ بنو امیہ کے خاندان سے تھے اس لیے ان کے عہد میں بنو امیہ اور دیگر قبائل قریش اپنے آپ کو دنیائے اسلام کا حکمران سمجھنے لگے تھے- بدوی قبائل کے لوگ قریش کے اس قبیلوی غرور کو پسند نہیں کرتے تھے- شام کے ملک میں معاویہ ابنِ ابو سفیان رضی الله عنہ حضرتِ عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ کے عہد سے حکمراں چلے آرہے تھے- حضرت معاویہ رضی الله عنہ بھی بنو امیہ کے ایک معزز خاندان کے فرد تھے جو فتح مکہ سے پہلے مشرکینِ مکہ میں سب سے زیادہ سربر آوردہ گھرانا تھا- حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے والد ابو سفیان رضی الله عنہ قریش مکہ کے سردار تھے جنہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اس وقت قبول کی جبکہ دس ہزار قدسیوں کے لشکر نے مکہ کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈال دیے تھے- حضرتِ ابو سفیان رضی الله عنہ اور ان کے گھرانے کے افراد نے اس موقع پر اسلام قبول کیا- لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد بھی اس خاندان کے لوگ اپنے آپ کو ممتاز حیثیت والے شمار کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ عربوں کی سرداری کرنے کا حق قریش کا اور قریش میں سے بنو امیہ ہی کا ہے-

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ نے بشام کا حام ہونے کے باعث اپنی قبیلوی طاقت کو بڑھانے کے لیے عربوں کے انہیں خاندانوں کو شام میں آباد کرنے کی ترجیحی پالیسی اختیار کی جو قریش تھے یا ان سے نسبی علاقہ رکھتے تھے- کوفہ کی چھاؤنی میں عرب کے عام بدوی قبائل آباد ہوئے جنہوں نے شیخین رضی الله عنہم کے عہد میں اسلام کی جابزانہ خدمات انجام دیں- یہ واقعہ 32ھ میں یعنی حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے خلیفہ بننے کے آٹھ سال بعد رونما ہوا-
                                (تاریخ اسلام، صفحہ، 308/309)

      25ھ سے 28ھ تک حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کی خلافت کے دوسرے سال یعنی 25ھ میں ایشیائے کوچک کے رومی لشکر نے شام پر چڑھائی کی- شام کے حاکم حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے مقابلے کے لیے فوج بھیجی اور کوفہ (عراق) کی چھاؤنی سے آٹھ ہزار سپاہ کی کمک بھی بروقت پہنچ گئی- اسلام کے لشکر ان کے تعاقب میں ایشیائے کوچک کے ملک میں یلغار کرتے ہوئے ارمنستان تک پہنچ گئے اور ان فوجیوں سے جا ملے جو ولایت خرز بحیرہ خرز ( کیسپین) کے کنارے ترکوں سے لڑ رہی تھیں- یہ افواج مل کر طفلس کی طرف بڑھیں اور بحیرہ اسود کے ساحل تک پہنچ گئیں اس طرح ایشیائے کوچک اور ملک قفقاد کا ایک حصہ اور ارمنستان بھی اسلام کی وسیع مملکت میں شامل ہو گئے- مشرق ادنی میں اس بڑی مہم کے علاوہ لبنان، لیوانٹ اور ایشیائے کوچک کے جنوبی ساحلی علاقہ پر فوج کشی جاری رہی اور اسلامی مملکت کے حلقہ اثر کو ان اطراف میں بھی بہت توسیع دی گئی- ساحلی مہموں میں مسلمانوں کا بحری بیڑا بھی حصہ لیتا رہا جو مصر میں تیار کیا گیا تھا-

649ء مطابق 38ھ میں حضرتِ عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے حضرت معاویہ رضی الله عنہ حاکم شام کو جزیرہ قبرص کی بحری مہم اختیار کرنے کی اجازت دے دی حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ سے بھی بحری بیڑہ تیار کرنے اور قبرص پر چڑھائی کرنے کی اجازت مانگی تھی جو انہوں نے نہیں دی تھی- کیونکہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ بحری مہم اختیار کرنے کے معاملے میں احتیاط کے مسلک پر عمل پیرا تھے- حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے ایک بحری بیڑہ تیار کیا اور قبرص پر چڑھائی کر دی- مصر سے وہاں کے حاکم عبد الله بن ابی سرح رضی الله عنہ نے بھی ایک بحری بیڑا بھیجا- ابو قیس نامی ایک شخص ،،امیر البحر،، مقرر کیا گیا- اسلامی لشکر نے جزیرہ قبرص کو سر کر کے اس پر قبضہ جما لیا- چونکہ قبرص کے باشندوں کے جان ومال کی حفاظت کا مستقبل بند وبست کرنا یقینی امر تھا اس لیے ان سے جزیہ نہ لیا گیا صرف خراج لینے پر اکتفا کر لیا گیا- ابو قیس نے بحیرہ ایجین نے دوسرے جزیروں کو بھی مملکت اسلامی میں شامل کرنے کے لیے مہمیں اختیار کیں جن کی مجموعی تعداد پچاس بتائی جاتی ہے- اسلام کا یہ پہلا ،،امیر البحر،، یونان کی ایک بندر گاہ میں فرد کش تھا کہ ایک یونانی عورت نے اسے شاہانہ طریق سے خیرات کرتے ہوئے دیکھا اور پہچان لیا- عورت نے شور مچایا لوگ جمع ہوئے جنہوں نے حملہ کر کے ابو قیس کو شہید کر دیا-                        (تاریخ اسلام، صفحہ، 310)

      حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے خلیفہ بننے کے وقت عمر وابن العاص رضی الله عنہ مصر کے حاکم تھے جنہوں نے خلیفہ دوم کے عہد میں مصر کی مملکت سر کر کے اس کے طول وعرض میں اسلام کی حکمرانی قائم کی تھی- 25ھ میں بازنطینی رومیوں کے ایک بحری لشکر نے اسکندریہ کی بندر گاہ پر حملہ کر دیا اور شہر پر قبضہ جما لیا- عمر و ابن العاص رضی الله عنہ نے جوابی حملہ کر کے رومیوں کو سمندر میں دھکیل دیا رومی بھاگ گئے اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے شہر کی فصیل گرا دی تاکہ آئیندہ رومیوں کو ساحل پر اتر کر قلعہ نشین ہونے کا موقع نہ ملے- عمر ابن العاص رضی الله عنہ نے یہ مہم سر کر کے خلیفہ وقت کے ایک رشتے دار عبد الله ابن ابی سرح کو شمالی مصر کی ولایت کا حکم مقرر کر دیا یہ عبد الله ابن ابی سرح وہی شخص تھا جو رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں کاتبین وحی میں سے ایک شخص تھا لیکن اس نے ایک دفعہ وحی کی کتابت کرتے وقت خیانت سے کام لیا اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے لکھنے سے روک دیا تھا- فتح مکہ کے بعد رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اس خائن کو موت کی سزا دینا چاہتے تھے لیکن حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے سفارش کر کے اسے بچا لیا- عبد الله بن ابی سرح شمالی مصر کا حاکم مقرر ہونے کے بعد مصر کے حاکم اعلی عمر وابن العاص رضی الله عنہ سے باغی ہوگیا اس نے کوئی جھگڑا کھڑا کر کے دربار خلافت میں عمر وابن العاص رضی الله عنہ کے خلاف رپورٹیں بھیجیں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے دونوں کے بیانات سننے کے بعد عمر و ابن العاص رضی الله عنہ کو خاطی قرار دے دیا اور ملکی اختیارات اس کے ہاتھ سے چھین کر عبد الله ابن ابی سرح کو سارے مصر کا حاکم مقرر کر دیا- عمر وابن العاص رضی الله عنہ نے خلیفہ وقت کے حکم کو قبول کرتے ہوئے ان سے کہہ دیا کہ آپ عبد الله بن ابی سرح کو حاکم بنا کر گائے کے سینگوں سے دودھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے- مصر میں مقیم مسلمانوں کو عبد الله ابن ابی سرح کا حاکم بنایا جانا پسند نہ تھا کیونکہ یہ شخص دربار رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کا معتوب تھا- لیکن خلیفہ کے حکم پر کسی نے حرف گیری نہ کی- 647ء مطابق 27ھ میں ابن ابی سرح نے شمالی افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف بڑھنے کی مہم اختیار کر لی تاکہ لوگوں کی توجہ اس طرف لگ جائے اور اس کے تقرر کے خلاف جوش نہ پھیلے- برقہ اور طرابلس تو عمر وابن العاص رضی الله عنہ نے خلیفہ دوم کے عہد ہی میں سر کر لیے تھے- عبد الله ابن ابی سرح نے قرطاجنہ یعنی تیونس پر چڑھائی کی- شمالی افریقہ کا یہ ملک بھی قسطنطنیہ کی بازنطینی رومی سلطنت کا ایک جزو تھا-

جرجیس نامی جرنیل ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر جرار لے کر عربوں کے مقابلے کے لیے آگیا عرب سے محمد ابنِ ابو بکر عبد الله ابن عباس اور عبد الله ابن زبیر بھاری کمک لے کر عبد الله ابن ابی سرح کی مدد کے لیے پہنچ گئے- شدید معرکہ آرائی ہوئی، گھسمان کا رن پڑا، جرجیس کی جوان بیٹی سپاہیانہ لباس میں فوج کے ایک حصے کی کمان کر رہی تھی اور سپاہیوں کے دل بڑھا رہی تھی، جرجیس نے اپنی فوج میں اعلان کر دیا جو سورما عرب لشکر کے سردار کا سر کاٹ کر لائے گا اسے ایک لاکھ دینار انعام میں دیا جائے گا- عبد الله ابن ابی سرح نے یہ سن کر اپنے لشکر میں اعلان کر دیا کہ جو مجاہد جرجیس کو قتل کرے گا اسے ایک لاکھ دینار کے ساتھ جرجیس کی حوروش بیٹی بھی انعام کے طور پر دی جائے گی- لڑائی کا میدان عربوں کے ہاتھ رہا اور عبد الله ابن زبیر نے جرجیس کو قتل کر کے انعام حاصل کیا ابنِ زبیر جرجیس کی بیٹی کو مدینہ لائے اس لڑکی نے دین اسلام قبول کر لیا-

عبد الله ابن زبیر رضی الله عنہ نے اس کے ساتھ نکاح کیا اور اسے اپنی بیوی بنا لیا- عبد الله ابن ابی سرح کی اس مہم کو مسلمانان مصر کا ایک طبقہ غیر اسلامی یا غیر شرعی قرار دینے لگا ان کا اعتراض یہ تھا کہ ابن ابی سرح نے یہ مہم کسی شرعی ضرورت کے بغیر محض اظہارِ شجاعت کے لیے اختیار کی اور مسلمانوں کی جانیں فضول ضائع کیں- اس کے علاوہ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ مال غنیمت کا خمس عبد الله ابن ابی سرح نے بیت المال میں جمع نہیں کرایا بلکہ اپنے پاس رکھ لیا اور غنیمت کا بہت سا مال سستے داموں اپنے رشتہ دار مروان کے ہاتھ بیچ دیا جو حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کا کاتب یعنی سکریٹری تھا اور بہت سا مال اسے مفت دے دیا- قسطنطنیہ کے بازنطینی رومی قیصر قسطنطین دوم نے عربوں کو پریشان کرنے کے لیے پانچ چھ سو جہازوں کا ایک بحری بیڑہ تیار کیا جو مصر و افریقہ کے ساحلی شہروں پر اکثر چھاپے مارتا تھا- عبد الله ابن ابی سرح نے بھی ایک بحری بیڑہ تیار کیا جس کے جہاز اگرچہ ہلکے تھے لیکن اس کے جانباز ملاح عرب تھے- 652ء مطابق 31ھ میں اسکندریہ کی بندر گاہ کے قریب رومیوں اور عربوں کے بحری بیڑوں کے درمیان جنگ ہوئی- رومی رات بھر اپنے جہازوں پر ناقوس اور گھنٹے بجاتے رہے- مسلمان اذانیں دیتے رہے، صبح کے وقت لڑائی ہوئی، رومی بیڑے نے شکست کھائی، قسطنطین ایک کشتی پر جزیرہ سسلی کے شہر سیرا کوس کی طرف بھاگ گیا جہاں لوگوں نے اسے پکڑ کر قتل کر دیا- یہ قسطنطین اس ہرقل کا پوتا تھا جس نے رسولِ خدا صلی الله علیہ وسلم کا عہد پایا اور جس نے شام و فلسطین میں حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں اسلام کے لشکروں کا مقابلہ کیا اور شکست کھائی- 
                                      (تاریخ اسلام، صفحہ، 313)

  حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کا آخری خطبہ:
     ایک روز حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت طلحہ رضی الله عنہ، حضرت زبیر رضی الله عنہ کو بلایا اور گھر سے باہر نکل کر ان سے ملے- تھوڑی دیر ان سے بات چیت کرنے کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گئے اور وہاں کھڑے ہو کر خطبہ دیا لوگ گھر سے باہر جمع ہو گئے تھے ان میں معترضین بھی تھے اور مدینہ کے حیران و پریشان لوگ بھی تھے- حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے پہلے سب سے بیٹھ جانے کو کہا سب بیٹھ گئے اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور اپنے خلیفہ بننے کا حال بیان فرمایا- آپ نے باغیوں سے کہا: جان لینا صرف تین صورتوں میں جائز ہے- اول: ارتداد دوم: قتل سوم: زنا - میں ان میں سے کسی جرم کا مرتکب نہیں ہوا- آپ نے فرمایا: باغی سر کشی سے باز آجائیں ورنہ بغاوت اور خون ریزی مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے جاری رہے گی اور کبھی ختم نہ ہوگی- ہجوم میں سے آوازیں آئیں کہ جان لینا ایک چوتھی صورت میں بھی ضروری ہے- سچائی کو فریب سے چھپانا اور حق کو تشدد سے مٹانا بھی انسان کو سزائے موت کا مستوجب بنا دیتا ہے- تمہارے ظلم و طغیان کا تقاضہ یہ ہے کہ خلافت چھوڑ دو یا قتل کے لیے تیار ہو جاؤ- حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ خاموش رہے تھوڑے وقفے کے بعد آپ نے سب لوگوں کو جانے کے لیے کہا اور خود بھی گھر کے اندر چلے گئے-

اس خطبہ کے بعد باغیوں نے حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ باغی پانی تک باہر سے اندر لے جانے کی اجازت نہ دیتے تھے- ایک روز حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے گھر کی ایک خادمہ ام حبیبہ خچر پر پانی کے مشکیں لاد کر اندر لے جارہی تھی باغیوں نے خچر کی لگامیں کاٹ دیں- حضرت علی رضی الله عنہ نے باغیوں کو بہت سمجھایا کہ ایسا نہ کرو لیکن وہ نہ مانے- محاصرہ چالیس روز تک جاری رہا اسی اثنا میں مدینہ کے لوگ اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے گوشہ نشین ہو گئے اور کچھ باہر چلے گئے اسی حالت میں خلیفہ نے عبد الله ابن عباس کو امیر حج بنا کر مکہ بھیج دیا- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بھی حج کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئیں وہ اپنے بھائی محمد ابنِ ابی بکر کو بھی ساتھ لے جانا چاہتی تھیں لیکن وہ نہ مانے- مدینہ کے لوگوں کی خانہ نشینی ان کی حیرانی اور پریشانی ظاہر کر رہی ہے وہ دیکھتے تھے کہ شورشیں کی شکایات بھی درست ہیں اور وہ محسوس کرتے تھے کہ خلیفتہ المسلمین سے اس قسم کا سلوک نہ کرنا بھی جیسا کہ باغی کر رہے ہیں درست نہیں- ان حالات میں نہ تو وہ باغیوں کا ساتھ دے سکتے تھے نہ وہ حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ کی خاطر ان مسلمانوں سے لڑنے کے لیے تیار تھے جن کی شکایات غلط نہ تھیں اور جن کا یہ مطالبہ کہ پر اسرار مکتوب کی جعلسازی کرنے والے شخص کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے سولہ آنے درست تھا- مدینہ کے لوگوں میں جن میں بہت سے لوگ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے سمجھ لیا اور بجا طور پر سمجھا کہ ان فتنوں کے دروازے کھل گئے ہیں جن کا تذکرہ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم پیش گوئی کے طور پر فرمایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ایسے حالات میں ایمان کو سلامت رکھنے کی صورت فقط یہ ہے کہ انسان گوشہ نشین اور عزت گزین ہو جائیں-       ( تاریخِ اسلام، صفحہ، 328)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter