علامہ ارشد القادری بحیثیت قائد اہل سنت
ایسے تو دنیا میں بہت سے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں مگر چند ہی لوگ ہیں جو اپنی غیر معمولی صلاحیت، بے لوث دینی خدمات اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے سبب بعد وصال بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں انہیں نفوس قدسیہ میں ایک ذات بابرکت قائد اہل سنت بانی مدارس و مساجد کثیرہ حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی ہے جنہیں اللہ رب العزت نے بے شمار محاسن و کمال سے سرفراز فرمایا۔آپ بلا شبہ پاکیزہ اخلاق وسیرت، بحث و تحقیق کی اعلیٰ بصیرت، زبر دست علمی استحضار، فصاحت و بلاغت اور زبان و بیان پر حد درجہ قدرت کے حامل تھے۔ 
ولادت: حضرت قائد اہلسنت کی ولادت 5 مارچ 1925 ء کو بلیا (اتر پردیش ہند) میں ہوئی تھی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی، درجہ سوم تک ابتدائی تعلیم سید پورہ کے ایک پرائمری اسکول میں ہوئی اس کے بعد آپ کے والد گرامی عبد اللطیف علیہ الرحمہ نے آپ کو مولا نا عظیم اللہ علیہ الرحمہ کے پاس گور ہٹی بنگال بھیج دیا، جن کی درسگاہ کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور کثرت سے طلباء علمی پیاس بجھانے کے لئے پہنچ رہے تھے۔ قائد اہل سنت نے یہاں فارسی کی پہلی اور آمد نامہ سے گلستان، بوستان وغیرہ تک کتابیں پڑھیں لیکن دوران تعلیم ہی آپ کی والدہ کا وصال ہو گیا اور آپ گھر واپس آگئے آپ کے والد گرامی پورے خاندان کے ساتھ سید پورہ سے دھنباد ہجرت کر گئے اور آپکا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا آپ کے والد گرامی کے پاس اتناروپیہ نہیں تھا جو آپ کو اعلی تعلیم و تربیت کے لیے گھر سے باہر بھیجتے۔ اسی طرح زندگی کے ایام گزرتے رہے اور تعلیمی پیش قدمی رکی رہی لیکن ایک واقعہ نے آپ کی زندگی میں انقلاب بر پا کر دیا یہ واقعہ خود قائد اہل سنت کی زبانی سماعت فرمائیں تا کہ اس کا لطف  باقی رہے۔ 
”ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہمارے علاقہ کا ایک لڑکا غلام جیلانی پڑھنے کے لئے کانپور چلا گیا جب وہ وہاں سے پڑھ کر واپس آیا تو بڑے ٹھاٹ، باٹ سے آیا چشمہ لگائے ہوئے، شیروانی پہنے ہوئے۔ لوگ اس کی عزت و تعظیم کرتے، میں اسے دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو گیا۔ دن گزرنے کے بعد میں نے گاؤں کے ایک لڑکے کو تیار کیا کہ ہم دونوں صبح صادق کے وقت حصول علم دین کے لیے گھر سے باہر نکلیں گے ہم دونوں گھر سے بھاگ تو گئے لیکن منزل کا کچھ پتہ نہیں کہ کہاں جانا ہے اتنا ضرور معلوم تھا کہ بڑے بھائی الہ آباد میں پڑھاتے ہیں ہم دونوں ٹرین میں سوار ہو کر الہ آباد جانے والی گاڑی پر چڑھ گئے۔ سفر میں بہت ساری مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور سے اس وقت جب آدمی کے پاس کھانے پینے کے لیے روپیہ نہ ہو تو کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ وہی لوگ جان سکتے ہیں جو اس کیفیت سے دو چار ہوں۔ بہر کیف جب الہ آباد ٹرین پہنچی تو ہم لوگ وہاں اتر کر بڑے بھائی کے پاس پہنچے اور ساری باتیں بیان کر دیں۔بھائی نے بہت ہمت افزائی کی۔ پھر تین چار مہینے کے بعد بھائی جان نے فیض العارفین غلام آسی علیہ الرحمہ کے ساتھ مدرسہ اشرفیہ مبارک پور بھیج دیا جہاں آٹھ سال رہ کر حافظ ملت علیہ الرحمہ محدث مراد آبادی سے اکتساب علم کیا اور وہیں سے فراغت ہوئی اس واقعہ سے علامہ کی تعلیمی اشتیاق کا باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 
درس و تدریس: برصغیر ہندو پاک میں درس نظامی کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل علماء کی سب سے پہلی ترجیح درس و تدریس سے متعلق ہوا کرتی ہے۔ ٹھیک یہی حال قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا بھی رہا۔ زمانہ طالب علمی میں جب حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ کسی وجہ سے ناراض ہو کر اشرفیہ سے جامعہ عربیہ ناگپور تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ جو چند طلبہ ہم سفر رہے ان میں آپ بھی تھے وہاں جب حالات سازگار ہوئے اور آپ کو تدریس کے لیے منتخب کیا گیا تو آپ نے سر چشم اسے قبول کیا کہ با صلاحیت عالم کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے۔ تدریس کے لیے آپ کا انتخاب آپ کی صلاحیت کی روشن دلیل ہے آپ نے اپنی جدو جہد اور محنت و لگن سے یہ ثابت کر دیا کہ بزرگوں نے جو توقعات ہم سے وابستہ کی تھیں ان کے اندر اس کی اہلیت ولیاقت ہے۔
تصنیف: قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی شخصیات کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلوان کی قلمی خدمات ہیں یہ پہلو  آپ کی شخصیت پر کچھ اس طرح حاوی ہو گیا ہے کہ جب بھی آپ کا جلوہ زیبہ نگاہوں میں آتا ہے ایک پرکشش اسلوب بیان، اچھوتے لب ولہجے اور صاحب طرز ادیب کا کا خاکہ ذہن ودماغ میں ابھر آتا ہے کیونکہ آپ نے مذہبی ادب میں اپنی ایک نئی طرح کی بنیاد ڈالی ہے۔ جن کی نظیر خال خال ہی مل سکتی ہے۔ لالہ زار کتاب اس دعوے کی بین دلیل ہے آپ نے تحریر کو جاذب نظر بنانے کے لیے بہت زیادہ سخت الفاظ مشکل تراکیب اور ثقیل تعبیرات سے احتراز کیا ہے اور سادہ مگر پورکشش لب ولہجہ استعمال کیا ہے۔ آپ کے جملوں کا بانکپن بڑا دیدنی ہے یہ آپ کے قرطاس وقلم کی امتیازی شان ہے کہ نہایت سہل الفاظ اور عام فہم تعبیرات کے استعمال سے ہی جملوں میں عجیب سی خوبصورتی اور جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے۔
” زلزلہ، زیروز بر تعضرات قلم، جماعت اسلامی، لالہ زار، شریعت, تفسیر القرآن نقش کربلا، انوار احمدی، انوار رسالت، مصباح القرآن، لسان الفردوس، آئیے حج کریں، دل کی مراد، اظہار عقیدت، دعوت انصاف، شخصیات، عینی مشاہدات، حدیث فقہ جہاد کی شرعی حیثیت، تجلیات رضا، زلف و زنجیر، المکاتب، افکار و خیالات،سرالبیان، خطبات استقبالیہ، صدائے درویش،شعور واگاہی، الفتاوی، کمالات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“۔ آپ کی وہ تصنیفات ہیں جن کے اثرات آج بھی قائم ہے۔ 
مناظرہ:  قائد اہل سنت ایک جید عالم دین کے ساتھ مناظر اہل سنت بھی تھے حق کی بالا دستی کے لئے باطل فرقوں سے آپ نے کئی مناظرے کئے اور مخالف مناظر کو دندان شکن جواب دیا۔ آپ کو عقلی دلائل و براہین اور قرآن و احادیث و فقہی جزئیات کے ذریعہ اپنی بات منوانے پر بڑی قدرت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے دور میں اہل سنت و جماعت میں صف اول کے مناظر شمار کئے جاتے تھے زمانہ طالب علمی میں فن مناظرہ سے دلچسپی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں آپ کہتے ہیں مجھے ویسے سب سے زیادہ جس فن میں دلچی تھی وہ ردہابیہ تھا۔“۔آپ نے متعدد اختلافی موضوعات پر کئی مناظرے کئے اپنی خود نوشت میں آپ نے چھ مناظروں کا تذکرہ کیا ہے۔ 
پہلا مناظرہ: مولوی عبد اللطیف نعمانی کے خلاف کیا یہ مناظرہ کٹک میں مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب حفظ الایمان کی کفری عبارتوں پر ہوا۔اہل سنت کی طرف سے صدر جلسہ حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ اور مناظر کی حیثیت سے علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ مقرر کیے گئے جب کہ دیوبندیوں کی طرف سے صدر جلسہ مولوی اسمعیل کٹکی اور مناظر کی حیثیت سے مولانا منظور نعمانی کے استاذ مولوی عبد اللطیف نعمانی تھے اس مناظرہ میں آپ نے ناقابل انکار دلائل و براہین سے مد مقابل کو اس طرح لا جواب کر دیا اسے اقرار کرنا پڑا کہ حفظ الایمان کی عبارت میں لفظ ایسا تشبیہ کے لئے جو موجب اہانت و کفر ہے۔ 
دوسرا مناظرہ: یہ مناظرہ قیام و سلام کے موضوع پر بتوا بازار، ضلع چھیرا بہار میں ہو,ا اہل سنت و جماعت کی طرف سے صدارت کے فرائض امین شریعت اول ادارہ شرعیہ علامہ مفتی رفاقت حسین رحمتہ اللہ علیہ نے انجام دیا اور مناظر کی حیثیت سے علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ مقرر کئے گئے جب کہ دیوبندیوں کے طرف سے مولوی نور محمد ٹانڈوی نے کی اور مناظر مولوی عبد السلام لکھنوی مقرر ہوئے۔ یہ مناظرہ ایک دن میں اہل سنت کی فتح عظیم پر ختم ہو گیا۔ 
تیسرا مناظرہ:  یہ مناظرہ رات کے وقت ضلع امراوتی مہاراشٹر کے ایک قلعہ کے اندر ہوا وہاں کی ڈی ایس پی صاحب دونوں فریق کی طرف سے مناظرہ کے کنٹرولر تھے مناظرہ کا موضوع تبلیغی جماعت تھا اور مناظر کی حیثیت سے قائد اہل سنت تھے جب کہ دیو بندیوں کی طرف سے ارشاد احمد مبلغ دار العلوم دیو بند مناظر تھے۔ 
چوتھا مناظرہ:  یہ مناظرہ بولیا مندسور راجستھان میں حفظ الایمان کی کفریہ عبارت پر ہوا تھا اہل سنت کی طرف سے صدارت کے فرائض مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن نے انجام دیے اور مناظر کی حیثیت سے سے قائد اہل سنت کھڑے ہوئے جب کہ دیو بندیوں کی  طرف صد ر جلسہ مولوی نور محمد نانڈوی اور مناظر کی حیثیت سے مولوی ارشاد دیوبندی تھے۔ 
علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کے حاضر جوابی کا اندازہ اس مناظرہ میں روز روشن کی طرح عیاں ہوا جب مولوی ارشاد نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ میں ارشاد ہوں اور مجھ سے مناظرہ کرنا آسان نہیں ہے اس کے جواب میں قائد اہل سنت علیہ الرحمہ نے فرمایا میں ارشد ہوں اور اظہار فضیلت کے لئے مجھ سے بڑا کوئی لفظ فن صرف میں نہیں ہے۔ اس کے جواب میں مولوی ارشاد نے کہا میں مصدر ہوں اگر میں نہ ہوتا تو آپ کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اب قائد اہل سنت نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ المصدر کا لمخنث لا یذکر ولایونث، پھر لگے ہاتھوں ایک شعر بھی پڑھ دیا۔ 
مذکر کے لئے he ہے مونث کے لئے she ہے
میرے حضرت مخنث ہیں  نہ ہیوں نہ شیوں ہے
اس شعر سے سارا مجمع باغ و بہار بن گیا اور مولوی ارشاد احمد پر ایسی خجالت طاری ہوئی جس کا اثر مناظرہ کے آخر تک باقی رہا۔
پانچواں مناظرہ: یہ مناظرہ جامع مسجد یا ضلع دھنباد میں 22,23,24 اپریل میں ہوا اس مناظرہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اب تک ہونے والے مناظروں میں علمائے دیو بند سے مطالبہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے اکابرین کا مسلمان ہونا ثابت کریں لیکن اس مناظرے میں شرائط طے کرتے ہوئے دیوبندی مولویوں نے اصرار کیا کہ بریلوی مناظر بھی اپنے اکابر کا مسلمان ہونا ثابت کریں مجھے اس میں اہلسنت والجماعت کی طرف سے قیادت کے فرائض مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن علیہ الرحمہ نے انجام دئے اور مناظر کی حیثیت سے قائد اہل سنت تھے جب کہ دیوبندیوں کی طرف سے مولوی ارشاد احمد صدارت کر رہے تھے اور مولوی طاہر گیاوی مناظر کی حیثیت سے موجود تھے جب مناظرہ شروع ہوا تو بالآخر اہل سنت والجماعت کو رات میں فتح ہوئی۔ 
چھٹا مناظرہ:  یہ مناظرہ کٹک اڑیسہ میں ہوا اس مناظرے کی خصوصیت یہ تھی کہ دیوبندیوں کے مناظر تین بار تبدیل کئے گئے جبکہ ہر راؤنڈ میں اہلسنت والجماعت کے مناظر کی حیثیت سے ڈٹے رہے، اور اہل سنت والجماعت کی طرف سے صدارت کے فرائض مجاہد ملت علیہ الرحمۃ انجام دیے۔
 
مذہبی وملی قیادت : قائد اہلسنت کی ہمہ جہت جدو جہد اور مذہبی وملی قیادت کی حتمی فہرست کو مرتب کرنا نہایت مشکل ہے۔آج اس علاقے میں ہیں تو کل دوسرے شہر میں پرسوں کسی اور ملک میں منصوبہ سازی کر رہے ہیں آج ایک موضوع پر قلم اٹھایا ہے تو کچھ دنوں کے بعد کسی دوسرے مقالے کی تیاری ہے اور پرسوں کسی اور عنوان پر لکھ رہے ہیں آج کسی مسئلہ پر اظہار خیال فرمارہے ہیں تو کل کوئی اور الجھن درپیش ہے اور پرسوں کسی اور ملی تحریک کی قیادت فرما رہے ہیں۔ آج یہاں کسی مدرسوں مسجد کی بنیاد ڈالی جارہی ہے تو کل کسی اور نئے علاقے میں اور پرسوں کسی اور بنجر زمین میں علم وحکمت کے باغ تعمیر کیے جارہے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ درس و تدریس قرطاس و قلم و رشد و ہدایت، مناظرہ و حاکمہ تحریک و تنظیم قیادت و سیادت، وعظ و خطابت اور تعمیر وترقی کے حوالہ سے آپ کی سرگرمیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ یقین کرنا تھوڑی دیر کے مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک شخص کے ذریعے ظہور پذیر کیسے ہوا بلا شبہ جو کام ایک تنظیم اور سیکڑوں افراد مل کرتے ہیں آپ نے خدا داد صلاحیت اور محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی عنایت سے تنے تنہا نجام دیا۔خدائے پاک ان کی قربانیاں قبول فرمائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے  ان کے منصوبے تکمیل تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter