ایمان بالرسالت کا تصور و تقاضہ‎

اسلام ایک ترقی یافتہ مذہب ہی نہیں بلکہ عالمگیر اور آفاقی صفات کا حامل دين بھی ہے۔ اسلام نے دیگر مذاہب کے برعکس "رسالت" کا ایک ٹھوس اور جامع تصور پیش کیا ، جس سے دوسری اقوام و ملل کے دامن خالی ہیں۔ چنانچہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج مذاہب عیسائیت و یہودیت سے لے کر مشرق بعید تک مروج ادیان تک اس وسیع تصور رسالت سے تہی دست و تہی دامن ہیں۔ اسلام نے نہ تو رسالت کو بڑھا کر خدا یا خدا کی اولاد کے درجے پر پہنچایا اور نہ گھٹا کر عام انسانوں کے برابر قرار دیا۔ دین اسلام نے رسالت و نبوت کا ایسا جامع و بے  نظیر اور کامل و بے مثال نظریہ پیش کیا جس میں نور حق کی صداقت اور چمک دمک بخوبی دکھائی دیتی ہے۔

شہادت توحید و رسالت دین اسلام کا اولین رکن ہے۔ اس لیے توحید و رسالت کے بارے میں جاننا ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے۔ شریعت میں ایمان بالرسالت سے مراد خدا وند قدوس کا اپنے مخصوص و برگزیدہ بندوں کے ذریعے نسل انسانی تک اپنا پیغام حق و صداقت پہنچانا ہے ، جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء و رسل کی نبوتیں اور رسالتیں  شامل ہیں۔  ہر نبی اپنی اپنی جگہ حق وصداقت کا کامل و مکمل نمونہ رہا ہے۔ اور ان سب نے ایک ہی مشن ، ایک ہی مقصد اور ایک ہی لائحہ عمل کے تحت کام کیا ہے۔ اس بنا پر اسلام ان سب پر ایمان لانے کو ضروری اور لازمی قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔ " كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ "سب (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔

قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرہ ارض کا ہر وہ خطہ جہاں چند انسانوں نے مل کر معاشرہ کو تشکیل دیا ہے،  اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے آنے والے انبیاء مرسلین کے فیضان سے خالی نہیں رہا۔ اللہ تبارک و تعالی نے انسان کی فلاح و بہبودی اور راہ حق کی طرف دعوت کا فریضہ انجام دینے کے لئے اس دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ اور سب نے ایک ہی کلمہ ، ایک ہی خدا اور ایک ہی دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ اللہ تبارک و تعالی نے ہر قوم کی طرف اپنے رسولوں کو بھیجا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے ، " وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ " اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لئے (پیغام حق) خوب بیان کرسکیں۔

اللہ تبارک و تعالی کو اپنی مخلوق کی سہولت اور آسانی کا اس قدر خیال اور احساس تھا کہ اس نے دنیا کے جس قوم کو بھی اپنا پیغام پہنچانا چاہا تو پیغام رسانی کے لیے نبی یا رسول کو بھی اسی قوم سے منتخب کیا تاکہ وہ نبی یا رسول اس قوم کے افراد سے انہی کی زبان میں گفتگو کرسکیں۔ اور تمام انبیاء ومرسلین نے اپنی اپنی قوموں تک پیغام حق و صداقت کو بخوبی پہنچایا۔

نظام رسالت و نبوت کی غرض و غایت جہاں انسانوں کی فکری و عملی رہنمائی کرنا ہے وہاں عملی اور واقعاتی رہنمائی بھی اسی سے ہی ممکن ہے۔ جس طرح حواس وقواۓ انسانی ادراک میں ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے ، اسی طرح انسانی جسم اور اس کے اعضاء احکا م الہی کی کامل تکمیل سے قاصر رہتے ہیں۔ تا آنکہ کوئی پیغمبر عملی رہنمائی کے ذریعے نمونئہ عمل نہ فراہم کردے۔

انبیاء و رسل کو بنی نوع انسان میں اسی لئے مبعوث کیا گیا کہ عبادات و معاملات اور مناکحات و معاہدات ، الغرض زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق باری تعالیٰ کے احکامات کی عملی مثال ان نفوس قدسیہ کا ذریعے بنی نوع انسان تک پہنچ جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر انسانی ذہن از خود نہ احکام کو عملی شکل دے سکتا ہے اور نہ کسی بھی عمل کی تکمیل کر سکتا ہے۔ لہذا نظامِ رسالت کے ذریعے نہ صرف احکام الہی کی صورت گری کی گئی بلکہ انسانی عمل کی تکمیل بھی کردی گئی۔ یہ ابد الآباد تک دنیائے انسانیت کے لیے نمونہ تقلید بن گئی ، اس کی پیروی سے انسان کو عظمت و شوکت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر کوئی آج بھی دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی کا خواہاں ہے تو اسے نبوی اصولوں کی پیروی اختیار کرنى ہوگی۔

تمام انبیاء اور مرسلین پر ایمان لانا ہر مسلمان پر ضروری اور لازم ہے۔ ایمان بالرسالت کے کچھ بنیادی تقاضے بھی ہیں جس کے بغیر ایمان بالرسالت کمالیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اولا یہ کے ہم تمام انبیاء ومرسلین پر اجمالی طور پر ایمان لائیں کہ وہ سب اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے بھیجے گئے رسل ہیں جنہوں نے دین حق کا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچایا اور توحید الہی کی طرف بلایا۔ اور اس کو ہم اپنے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کریں۔ اسی کو اصل ایمان بالرسالت کہتے ہیں۔

ثانیاً ، کامل ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ایمان بالرسل اقرار و تصدیق کی شروط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان چار تقاضوں کو بھی دل سے مانیں اور اپنی عملی زندگی میں بھی لائیں۔ 

  • محبترسول صلی اللہ علیہ وسلم  
  • تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم
  • نصرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
  • اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان چار بنیادی چیزوں پر عمل پیرا ہونا کامل ایمان کے لئے لازمی ہے۔ ان کے بغیر ایمان ناقص رہ جاتا ہے۔ پھر مذکورہ بالا چار شرائط اور تقاضوں میں پہلے دو (محبت اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم) اصل ایمان کا حصہ ہے۔ تو گویا ایمان بالرسالت میں ان دونوں کا فقدان ایمان کا فقدان ہوگا۔ اور بقیہ دو (نصرت وطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کا کمال ایمان کا حصہ ہے۔ ایمان کی تکمیل کے لیے یہ دونوں تقاضوں کا ہونا لازمی ہے ، جب کہ ان کے بغیر ایمان ناقص رہ جاتا ہے۔ ان چاروں تقاضوں کے متعلق قرآن و احادیث نبویہ میں بے شمار جگہ ذکر آیا ہے۔ ان سب کا یہاں ذکر کرنا کلام کو طول دےگا۔

ان تمام باتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایمان بالرسالت کے تمام تقاضے پورے کئے بغیر کوئی بھی مسلمان اپنے ایمان کی تکمیل کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی مسلمان ایمان کی حقیقت اور روح کو اس وقت ہی پا سکتا ہے جب وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق اور نسبت کو پختہ کرے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی اصل ایمان ہے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سرفرازی کے جدوجہد کرنا کامل ایمان کی سند ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter