مجاہد جنگ آزادی  امام فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ

اسمِ گرامی: علامہ فضلِ حق خیر آبادی ۔ القاب: مجاہدِ جنگِ آزادی، بطلِ حریت، امام المناطقہ، رئیس المتکلمین وغیرہ ۔ والد کا اسمِ گرامی: بانیِ سلسلۂ خیر آبادیت امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا فضلِ امام خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ ۔

سلسلۂ نسب:   علامہ فضلِ حق خیر آبادی بن مولانا فضلِ امام خیر آبادی بن محمد ارشد بن محمد صالح بن عبد الواحد بن عبد الماجد بن قاضی صدر الدین خیر آبادی ۔(علیہم الرحمۃ والرضوان) ۔ آپ کا شجرۂ نسب تینتیس واسطوں سے امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔ (حدائق الحنفیہ ۔ روشن دریچے، ص:61) ـ

تاریخِ ولادت:   آپ کی ولادت باسعادت 1212ھ، مطابق 1797ء کو خیر البلاد " خیر آباد " (ضلع سیتاپور، اتر پردیش، انڈیا) میں ہوئی ۔

حصولِ علم:   علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے  معقولات اپنے والدِ گرامی علامہ فضلِ امام خیرآبادی علیہ الرحمہ سے ،منقولات خاتم المحدثین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی سے  اور تصوف و اخلاق حضرت شیخ الاسلام محمد علی خیر آبادی علیھم الرحمہ سے حاصل کیے ۔ آپ کی ذہانت و فطانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے صِرف چار ماہ کی قلیل مدت میں قرآنِ مجید حفظ کر لیا ۔ تیرہ سال  کی عمر میں درسیات سے فارغ ہو کر کامل استاد بن گئے ۔

بیعت و خلافت:    آپ رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ دھومن دہلوی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے ۔

سیرت و خصائص:   مجاہدِ تحریک آزادی ، شیرِ خدا، بطل ِحریت، علوم و معارف کا بحر ِبیکراں، کشورِ علم کا تاجدار، منقولات و معقولات کا امام علامہ فضل حق خیر آبادی ، عمری، حنفی، ماتریدی، چشتی رحمۃ اللہ علیہ علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے ۔ فنونِ حکمیہ اور علومِ عقلیہ کے مسلم الثبوت امام تھے، بلکہ مجتہد  و امام تھے ۔ بڑے ادیب ، بڑے  منطقی، نہایت ذہن ، نہایت زکی، خلیق و ذلیق، انتہائی صاحبِ تدقیق و تحقیق تھے ۔ علامہ موصوف نے اپنے مشہور " قصیدے ہمزیہ " میں بطور تحدیثِ نعمت اپنے علم و فضل کا اس انداز سے ذکر کرتے ہیں:

؏: اللہ اقنانی علوما یقتنی

     منھا علوماجمۃ علماء ۔

یعنی: اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علوم عطاء کیے ہیں کہ ان میں سے بہت کچھ علماء نے حاصل کیے ۔

آپ معقولات کے تو امام تھے ہی لیکن حیرت کی بات ہے کہ عربی فارسی وغیرہ کے بہترین ناظم و ناثر بھی تھے ۔ علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ صحیح العقیدہ سنی حنفی تھے ۔آپ نے مولوی اسماعیل دہلوی کے رد میں " تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ " لکھی ۔ اس کی بعض گستاخانہ عبارات پر تکفیر فرمائی اور یہ فتویٰ دیا: " اس بے ہودہ کلام کا قائل از روئے شریعت کافر و بے دین ہے اور شرعاً اس کا حکم قتل اور تکفیر ہے " ۔ کچھ ہی عرصہ بعد اتفاقاً وہ بالاکوٹ کے غیور مسلمانوں کے ہاتھوں قتل بھی ہو گیا ۔مولانا عبد القادر صدر الصدور فرماتے ہیں: "عربی ادب میں ابو الحسن اخفش جیسے ہیں ، ان کی نثر مقاماتِ حریری سے اور نظم دیوانِ متنبی سے ممتاز ہے " ۔

اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سر زمینِ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہ فضل حق خیر آبادی کو ہی حاصل ہے ۔علامہ کی تصنیف " الثورۃ الہندیہ " اور "  قصائدِ فتنۃ الہند " جنگِ آزادی 1857ء کے نہایت قابلِ قدر ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ چوں کہ علامہ فضل حق خیر آبادی نے محمد بن عبد الوہاب نجدی کی " کتاب التوحید " کے اردو چربہ " تقویۃ الایمان " مولفہ مولوی اسماعیل دہلوی کے ساتھ ساتھ دیگر عقائدِ وہابیہ کی تردید میں کلیدی کردار ادا کیا ۔

بایں سبب آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں ۔ چنانچہ تاریخی حقائق و شواہد پر پردہ ڈالنے اور جنگِ آزادی کے مسلمہ راہنماؤں کے خلاف فضا پیدا کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علامہ فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا تھا ۔ اس تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ لیکن حق چھپانے سے نہیں چھپ سکتا، اور ظاہر ہو کر رہتا ہے ۔ دروغ کو فروغ نہیں ہوتا ہے ۔مخالفین کے گھر سے اس گواہی دیکھیں کہ مسلکِ مخالف کے شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کہتے ہیں: "مولانا فضل حق صاحب خیر آبادی کو جو کہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی، علی گڑھ اور اس کے ملحقہ اضلاع کے دورانِ تحریک میں گورنر تھے، آخر ان کو گھر سے گرفتار کیا گیا ۔ جس مخبر نے ان کو گرفتار کرایا تھا اس نے انکار کر دیا کہ مجھے معلوم نہیں، فتویٰ جہاد پر جس نے دستخط کیے ہیں وہ یہ فضل حق ہیں یا کوئی اور ہیں ؟ ۔۔۔

مولانا نے فرمایا:  "مخبر نے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی وہ بِالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میرا ہے ۔ اب میری شکل و صورت سے مرعوب ہو کر یہ جھوٹ بول رہا ہے " ۔ قربان جائیے! علامہ کی شانِ استقلال پر خدا کا شیر گرج کر کہہ رہا ہے کہ میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے کہ انگریز غاصب ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے ۔ خدا کے بندے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر سر بہ کف ہو کر میدان میں نکلتے ہیں اور لومڑی کی طرح ہیر پھیر کر کے جان نہیں بچاتے بلکہ شیروں کی طرح جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں ۔ " (حسین احمد مدنی: تحریک ریشمی رومال، مطبوعہ لاہور ۔1960ء، ص:65) ـ

ان نام نہاد " محققین " کی تقلیدی اور متعصبانہ تحقیق پر ان کے اپنے مسلک کے منصف مزاج شخصیات نے تنقید کی ہے: پاکستان میں دیوبندی مکتبِ فکر کے آرگن ہفت روزہ " خدام الدین " لاہور کے ایک مضمون کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں ۔ یہ اقتباسات علامہ فضل حق خیر آبادی کے فتوائے جہاد کے منکرین کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں اور ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے جو علامہ کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو محض ایک مخصوص مسلک کے لوگوں تک محدود کرنے کی سعیِ نا مشکور کر رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں:

" بُرا ہو تاریخ کا ۔ اس نے اپنے حافظہ سے ایسی ایسی جاں باز، حق گو، بہادر اور جامع کمالات شخصیتوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا ۔ جنہوں نے اپنے دور میں وقت کے تیز و تند طوفانوں سے بے خوف ٹکر لی اور پیٹھ نہیں دکھائی ۔ مولانا فضل حق رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کے ان جواں مرد اور نڈر مجاہدین میں سے تھے جن کی جرات و ہمت اور حق گوئی و بے باکی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ۔ مگر تاریخ کے صفحات میں ان کو شایانِ شان کیا، کوئی معمولی جگہ بھی نہیں مل سکی ۔ مولانا فضل حق خیر آبادی نے افضل الجہاد کلمۃ الحق عند سلطانِ جابر کا فریضہ ادا کیا اور اپنی عمرِ عزیز انڈومان میں حبسِ دوام کی نذر کر دی ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ دے کر مسلمانوں کو عدم تعاون پر آمادہ کیا ـ مولانا فضل حق خیر آبادی (اسی جرم میں) " باغی " قرار دیے گئے " ۔ (مضمون: " مولانا فضل حق خیرآبادی " ۔ از: مستقیم احسنؔ حامدی ۔ فاضل دار العلوم دیوبند ۔ ہفت روزہ خدام الدین، لاہور 23 نومبر 1962ء، ص:9/10) ـ

الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی و مددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مدد گاروں کو مرتدو بے دین سمجھتے تھے ۔ وہ علم و فضل کے بحرِ  بے کنار تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کا حق ادا کر دیا ۔ سنتِ حسین پر عمل پیرا ہو کر اپنی جان قربان کر دی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک اِنچ بھی پیچھے نہ ہوئے ۔

وصال:   جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12 صفر المظفر 1278ھ، مطابق 20 اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ۔ آج بھی آپ کی قبر " آزادی " کی آذانیں سُنا رہی ہے ۔

مآخذ و مراجع:  حدائق الحنفیہ ۔ خیر آبادیات ۔ تذکرہ علمائے ہند ۔ دو قومی نظریہ اور علمائے اہلسنت ۔ جنگِ آزدی میں علامہ فضلِ حق خیر آبادی کا کردار ۔

بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter