جب عشق بھی زیرِ تفتیش آئے ، کہاں ہے انصاف ؟ (کیا I Love Muhammad لکھنا آئینی حق کی خلاف ورزی ہے؟)
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذاہب ملک ہونے کا دعوے دار ہے۔ اس کی گلیوں اور بازاروں میں زبانوں، تہذیبوں اور عقائد کا ایک حسین امتزاج بستا ہے۔ مگر گزشتہ چند برسوں کے سیاسی و سماجی حالات نے اس متنوع ہندوستان کی اصل روح کو چیلنج کیا ہے خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد دو سو ملین سے زیادہ ہے جوکہ دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی ہے۔ یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے اس ملک کی تشکیل، تعمیر، تہذیب اور ثقافت میں صدیوں تک نمایاں کردار ادا کیا۔ مغل فنِ تعمیر سے لے کر اردو زبان کی آبیاری تک مسلمانوں کا ورثہ آج بھی ہندوستانی معاشرے میں موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود دورِ حاضر میں مسلمانوں کے خلاف تعصب، تشدد اور سیاسی استحصال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس مسئلے کو صرف مذہبی اختلاف کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے پیچھے گہرے سیاسی، تاریخی اور نظریاتی عوامل کار فرما ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کی پالیسی کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کی جس کے اثرات آج بھی ہندوستانی معاشرے میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ سرحد پار کے قیام کے بعد ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں پر وفاداری کے شکوک کا سایہ منڈلانے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ شبہات شدت اختیار کرتے گئے اور موجودہ انتہا پسند سیاست نے ان خیالات کو مزید تقویت دی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں بی جے پی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جو مسلمانوں کے لیے براہِ راست خطرے کا باعث بنے اور یہاں کا میڈیا بھی اب بڑی حد تک حکومت نواز نظر آتا ہے۔ کئی چینلز مسلمانوں کو دہشت گرد، جہادی یا ملک دشمن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس پروپیگنڈہ کا براہِ راست اثر عوامی سوچ پر پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، شکوک اور امتیازی رویے بڑھتے جا رہے ہیں۔
اترپردیش کے صنعتی شہر کانپور کے علاقے سید نگر میں پیش آیا ایک حالیہ واقعہ بھارت کی مذہبی ہم آہنگی، آئینی آزادی اور قانون کی غیر جانبداری پر ایک گہرا سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے۔ واقعہ بظاہر سادہ ہے مگر اس کے مضمرات انتہائی پیچیدہ، حساس اور تشویشناک ہیں۔ ماہ ربیع الاول جو کہ سیرتِ رسولِ کریم ﷺ اور محبتِ رسول ﷺ کے اظہار کا مہینہ ہے، ہر سال مسلمانوں کے لئے روحانی جوش و خروش کا باعث بنتا ہے۔ اسی سلسلے میں میلادالنبی ﷺ کے جلوس کے دوران "I Love Muhammad" کا بینر ایک سڑک پر لگایا گیا۔ ایک سادہ پر امن اور محبت بھرا پیغام مگر یہی بینر کچھ عناصر کو ایسا ناگوار گزرا کہ وہ مشتعل ہوگئے بینر پھاڑ دیا، ہنگامہ کھڑا کیا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ بینر لگانے والے مسلمانوں پر ہی مقدمہ درج کر دیا گیا۔ یہ واقعہ صرف ایک بینر کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ اس سوچ کے بارے میں ہے جو آج بھارت میں آہستہ آہستہ جڑ پکڑتی جا رہی ہے جہاں اقلیتوں کے بنیادی حقوق بھی اکثریتی جذبات کی منظوری کے محتاج بنتے جا رہے ہیں۔ جبکہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 25 ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے چاہے وہ مذہب کی پیروی ہو، اس کی تبلیغ ہو یا اس کا پر امن اظہار!
اب سوال یہ ہے کہ کیا I Love Muhammad کہنا یا لکھنا اس آئینی حق کی خلاف ورزی ہے؟ اگر یہ پیغام اشتعال انگیز نہیں، نفرت انگیز نہیں بلکہ سراسر محبت پر مبنی ہے تو پھر اس پر مقدمہ کیوں؟ اور اگر یہی سڑک رام نومی، ہنومان جینتی یا دیگر ہندو تہواروں کے موقع پر مذہبی نعروں، جھنڈوں اور ڈھول تاشوں سے سجی ہوتی ہے تو پھر ایک پر امن اسلامی پیغام پر اعتراض کیوں؟ اگر نئی روایت قائم کرنا جرم ہے تو کیا رام نومی کے جلوس جو کبھی کسی خاص مقام تک محدود تھے بعد میں پورے شہر میں گھومنے لگے کیا وہ سب نئی روایات نہیں تھیں؟ افسوس اس بات پر ہے کہ اس واقعے میں سب سے زیادہ مایوس کن اور خطرناک پہلو مقامی پولیس کا رویہ ہے۔ جس بینر پر اعتراض ہوا وہ پھاڑا گیا، سڑک پر ہنگامہ کیا گیا مگر کارروائی ان لوگوں کے خلاف نہیں ہوئی جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہوئی جنہوں نے صرف محبتِ رسول ﷺ کا پر امن اظہار کیا۔ یہاں سوال صرف ایف آئی آر کا نہیں بلکہ قانون کے معیار کا ہے۔ اگر قانون کا اطلاق صرف اقلیتوں پر سختی سے ہو اور اکثریتی عناصر کی من مانیوں کو نظر انداز کیا جائے تو پھر یہ قانون نہیں بلکہ طاقت کی تابع داری بن جاتی ہے۔
دنیا کے کروڑوں مسلمان نبی کریم ﷺ سے عشق و عقیدت رکھتے ہیں۔ I Love Muhammad ایک عالمی نعرہ بن چکا ہے یہ نہ تو سیاسی ہے نہ اشتعال انگیز، نہ نفرت پھیلانے والا۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہے۔ اگر آج ایک ایسا جملہ جرم قرار دیا جا رہا ہے تو کل کو کیا I Am Muslim کہنا بھی قابلِ گرفت ہوگا؟ کیا محبت، عقیدت اور ایمان جیسے جذبات بھی اجازت کے محتاج ہو چکے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں بلکہ بھارت کے ہر باشعور شہری سے ہے خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو۔ کیونکہ جب آئینی حقوق کا دائرہ تنگ ہونے لگے تو پہلا نشانہ کوئی بھی ہو انجام پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ہندوستان میں حالیہ برسوں میں وہ عناصر جو نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں، اقلیتوں کو دھمکاتے ہیں اور اشتعال انگیز نعروں سے معاشرتی توازن بگاڑتے ہیں وہ نہ صرف کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں بلکہ اکثر سیاسی پشت پناہی کے مزے بھی لیتے ہیں۔ دوسری جانب وہ لوگ جو صرف اپنے عقیدے کا پر امن اظہار کرتے ہیں، محبت کی زبان بولتے ہیں، انہیں جرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے کیونکہ جہاں قانون خاموش ہو اور تعصب بولنے لگے وہاں معاشرتی تانا بانا ٹوٹنے لگتا ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے علامہ اقبال کا مشہور شعر شیئر کیا:
کی محمد ﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کا وہ ایمان ہے جس کی بنیاد محبت اور وفاداری پر ہے۔ اگر اس عقیدے کو جرم قرار دیا جا رہا ہے تو یہ صرف ایک طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کی جمہوری روح پر حملہ ہے۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ بھارت میں محبتِ رسول ﷺ جیسے جذبات بھی سیاسی بنا دیے گئے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ بینر کہاں لگا سوال یہ ہے کہ بینر میں کیا لکھا تھا؟ اور یہی سب سے زیادہ خطرناک بات ہے۔ اگر ایک طبقہ اپنے عقیدے کا اظہار کرے تو وہ روایت کہلا کر جرم بن جائے اور دوسرا طبقہ جب چاہے جہاں چاہے اظہار کرے تو وہ ثقافت کہلا کر محفوظ رہے تو یہ مساوات نہیں بلکہ امتیاز ہے، جمہوریت نہیں بلکہ اکثریت پسندی ہے۔ آج اگر ’I Love Muhammad کہنا جرم بنتا جا رہا ہے تو کل I Love Peace۔یا I Love Justice بھی جرم بن سکتے ہیں۔ یہ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ بھارت کے سیکولر جمہوری اور آئینی وجود کا امتحان ہے۔ کیا اب ایک مسلمان کو اپنے نبی کریم ﷺ سے محبت کے اظہار کا حق نہیں؟ کیا پر امن عقیدے کی ترویج جرم بن چکی ہے؟ کیا بھارت واقعی سب کا دیش ہے یا صرف کچھ لوگوں کا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انصاف کہاں ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ، عدلیہ، میڈیا اور سیاست سب مل کر خود سے یہ سوال پوچھیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ اور کیا ہم واقعی ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں محبت بھی جرم بن جائے؟ مسلمان آج خود کو سماج میں بے بس، غیر محفوظ اور غیر متعلق محسوس کرنے لگے ہیں۔ تعلیم، ملازمت، ترقی اور اظہار رائے کے مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ اس محرومی کا نتیجہ کہیں انتہا پسندی، کہیں بیگانگی اور کہیں مکمل خاموشی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے جوکہ کسی بھی ملک کے لیے نقصان دہ رجحان ہے۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان کا مستقبل اسی وقت محفوظ اور روشن ہو سکتا ہے جب تمام شہریوں کو برابر کےحقوق بغیر مذہب، زبان یا شناخت کے امتیاز کے حاصل ہوں۔ اگر ہندوستان واقعی ایک جمہوری، سیکولر اور ترقی یافتہ ریاست بننا چاہتا ہے تو اسے نفرت، امتیاز اور اقلیت دشمن پالیسیوں سے فوری طور پر دستبردار ہونا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ بھارت کے باشعور طبقے، سویل سوسائٹی، صحافی، دانشور اور سیاستدان اپنی آواز بلند کریں تاکہ بھارت ایک بار پھر مہاتما گاندھی، مولانا آزاد اور ڈاکٹر امبیڈکر کے خوابوں کا ملک بن سکے جہاں سب کو جینے کا حق برابر حاصل ہو۔