سیلاب زدگان کی امداد اور اسلام کی عملی تصویر

 اس وقت پنجاب میں بھیانک سیلاب کی تباہ کاری کے دوران مختلف اضلاع میں مسلم تنظیموں کی جانب سے پریشان حال اور متاثرہ لوگوں کے لئے امداد پہنچانے کا کام ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مسلم تنظیموں کے امدادی کاموں کی مختلف ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں مقامی سکھ برادری اس جذبے کی سراہنا کرتی نظر آرہی ہے۔ اس سیلاب کی تباہ کاری نے کئی اضلاع کو برباد کر کے رکھ دیا، ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے اور عام زندگی درہم برہم ہوگئی۔ اس سانحے نے ہر کسی کے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سیلاب متاثرین ایک وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہوگئے ہیں۔ اگرچہ انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے وہیں مسلمانوں نے بھی انسانیت کی مثال پیش کرتے ہوئے مدد کے ہاتھ بڑھائے ہیں۔ کیونکہ مذہب اسلام میں کسی کی پریشانی دور کرنا، مصیبت اور تکلیف میں مدد کرنا، دکھیارے کا دکھ بانٹنا، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتا دینا الغرض کسی بھی نیک اور جائز کام میں مدد کرنا نہایت اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو تو اسے نفع پہنچائے‘‘۔ (مسلم:93/5731)

   انسان پر بسا اوقات مختلف پریشانیاں آتی ہیں، کبھی بیماری تو کبھی قرض داری، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دورانِ سفر گاڑی یا موٹر سائیکل کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے اور دُور تک پٹرول دستیاب نہیں ہوتا ایسی صورت میں اگر ہم کسی کی پریشانی دور کرسکتے ہوں تو اس کی پریشانی دُور کر کے اجر و ثواب کا حقدار بننا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جوکسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا الله تعالیٰ قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا‘‘۔ (مسلم:1069/6578) حدیثِ پاک میں بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے والے کے لئے جنتی نعمتیں عطا کئے جانے کی بشارت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے گا تو الله تعالیٰ اسے جنّت کے پھل کھلائے گا اور جو کسی پیاسے مسلمان کو سیراب کرے گا تو الله تعالیٰ اسے پاکیزہ شراب پلائے گا‘‘۔(ابوداؤد:2/180/1682) ضرورت مند مسلمان بھائی کی قرض کے ذریعے بھی مدد کی جا سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تین طرح کے مومنوں کو اجازت ہوگی کہ وہ جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہو جائیں اوران کا جنتی حُور کے ساتھ نکاح کیا جائے گا۔ ان میں سے  ایک حاجت مند کو پوشیدہ  قرض دینے والا بھی ہے‘‘۔ (مسند ابی یعلیٰ:2/19/1788) اسلام نے حاجت مند مسلمان کو قرض دینے کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ مقروض کے ساتھ حسنِ سلوک اور تنگدست قرضدار کے ساتھ رعایت کرنے پر اجر و ثواب کی بشارت بھی عطا فرمائی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض میں کمی کی، الله تعالیٰ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا‘‘۔ (ترمذی:3/52/1310) حدیثِ پاک میں مظلوم کی مدد کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’الله تعالیٰ فرماتا ہے: مجھے میری عزت و جلال کی قسم! میں جلدی یا دیر میں ظالم سے بدلہ ضرور لوں گا اور اُس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجودِ قدرت مظلوم کی مدد نہیں کرتا‘‘۔ (معجم اوسط:1/20/36 ) شارحِ بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: ’’مسلمان کی مدد، مدد کرنے والے کے حال کے اعتبار سے کبھی فرض ہوتی ہے کبھی واجب کبھی مستحب‘‘۔ (نزھۃ القاری:3/665)

  الله تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ترجمہ: ’’اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور الله  سے ڈرتے رہو  بیشک الله کا عذاب سخت ہے‘‘۔ (المائد ۃ:۲) اس آیت میں الله تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (۱)نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا (۲) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔ بِر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سے مراد الله تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین:94) ایک قول یہ ہے کہ اِثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔ (خازن:1/461) حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ’’نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے‘‘۔ (صاوی: 2/469) حضرت نواس بن سمعان رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو‘‘۔ (ترمذی:4/173/2396)

  یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے۔ نیکی اور تقوٰی میں ان کی تمام انواع و اقسام داخل ہیں اور اِثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔ علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہیں۔   گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلاوجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں۔ اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا، اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد عملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جاچکی ہے۔ الله تعالیٰ مسلمانوں کو قرآن کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter