آخربہرائچ میں شرپسندکامیاب ہوہی گئے!

گزشتہ ہندوستان میں رونما ہوئے فسادات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ تمام تر فسادات کسی نہ کسی مفاد کے تحت کرائے گئے۔ اُنہیں یاتو مذہبی رہنماؤں نے کرایا، یا پھر سیاسی رہنماؤں نے، اور اُن کے آلۂ کار بنتے ہیں اکثریت واقلیت سے وابستہ عام افراد۔ ۲۰۲۲ء کی بات ہے کہ ایودھیا میں ایسے ہی دنگا اور فساد کرانے کی سازش کی گئی تھی۔ جہاں تقریباً آٹھ ہندو افراد جنہوں نے مسلم لباس پہن رکھا تھا۔ موٹرسائیکل پر سوار تھے۔ ہاتھوں میں گوشت کا ٹکڑا اور قابل اعتراض پرچے لیے ہوئے تھے، جسے اُنھوں نے ایودھیا میں کشمیری محلہ، ٹاٹ شاہ مسجد، عیدگاہ سول لائن مسجد وغیرہ جیسے مقامات پر پھینکا اور فرار ہوگئے۔ ایسا کرنےکے پیچھے اُن کا یہ مقصد تھا کہ ایودھیا میں اقلیت و اکثریت کے درمیان فساد پھوٹ پڑے اور اَیودھیا نگری جل کر خاکستر ہوجائے۔ لیکن خیر یہ ہوا کہ پولیس کی بر وقت چوکسی نے اِس ناپاک سازش کو ناکام بنادیا۔

پولیس کی تفتیش کے مطابق جالی دار ٹوپی اور کُرتے میں ملبوس مسلمان نہیں، بلکہ مہیش کمار مشرا، پرتیوس سریواتسو، نتن کمار، دیپک کمار گور، برجیس پانڈے، شتروگھن پرجاپتی، ویمل پانڈے وغیرہ نامی شرپسند عناصر تھے جنہوں نے ایودھیا نگری کو مذہبی فساد کی نذر کرنے کا پورا پورا پروگرام بنا رکھا تھا۔ ابھی کچھ دنوں پہلے خبر آئی تھی کہ ریاست مہاراشٹر میں ایک دھرم گُرو نے بذات خود گائے کے گوشت مندر میں رکھوائے اور اُس کی آڑ میں اقلیت واکثریت کے درمیان فساد کرانے کی پوری پوری کوشش کی۔ یہ اور بات ہے کہ اُس کی حقیقت سامنے آگئی اور فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ علاوہ ازیں مہاراشٹر ہی کے ایک دھرم گُرو نے پیغمبر اِسلام ﷺ کی شان میں گستاخانہ بیان دیا اور اقلیتی طبقہ کو اُکسایا کہ وہ تشدد پر آمادہ ہوجائے۔ لیکن اقلیتی و اکثریتی طبقے کی سوجھ-بوجھ سے ایسا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا جس کی اُمید شرپسند عناصر نے لگا رکھی تھی۔ جب ایسا نہیں ہوا تو اِس کے کچھ ہی دنوں بعد ریاست اُترپردیش کے ڈاسنا علاقے کے بدمزاج و بداخلاق دھرم گُرو نے ایک بار پھر اپنی مذموم حرکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیغمبر اِسلام ﷺ کے خلاف زہر افشانی کی اور ملکی ومعاشرتی ماحول بگاڑنے کی تمام تر کوششیں کیں۔ لیکن یہاں بھی اُس کی دال نہ گل پائی، کیوں کہ سنجیدہ مزاج و سنجیدہ فکر افراد نے اُس کی اِس غیرانسانی حرکت کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اُس کے خلاف زبانی طور پر اپنے اپنے احتجاج بھی درج کرائے اور ہرطبقات کے لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ ہم ہندوستانیوں کو اِس طرح کے شرپسندوں کے خلاف صف آرا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مشترکہ گنگا-جمنی تہذیب کی عزت و آبرو محفوظ رہ سکے اور کسی بھی طرح کی آپسی منافرت کو سر اُٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن آخرکار شرپسند عناصر کامیاب ہوگئے اور بہرائچ میں فساد پھوٹ پڑا، جس میں شرپسند عناصر کا تو کچھ نہیں بگڑا، اُس کے برعکس سیدھے-سادے اور عام انسانوں کی جان پر بن آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس کے پیچھے کون سےاسباب و عوامل کارفرما ہیں اُن پر غور وفکر کیا جائے مگر اُس کے بجائے لوگ جذباتی ہوئے جارہے ہیں۔ جن شرپسند عناصر نے فساد کی آگ بھڑکائی ہے اُن کی کوئی شدھ-بدھ نہیں لی جارہی ہے کہ وہ کون تھے؟ کہاں سے آئےتھے؟ کس نے اُنہیں اِس مہم پر لگایا تھا؟ لیکن اب ہنگامہ کا رُخ اِس طرف موڑ دیا گیا ہے کہ ایک نوجوان کو گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے اور بدلے میں عوامی جان ومال کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ آگ زنی کی جارہی ہے۔ دوکان- مکان تو جلائے ہی جارہے ہیں اسپتالوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے اور اُنہیں بھی آگ کے حوالے کیا جارہا ہے۔ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مقتولہ نوجوان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر اُس مقتول نوجوان کے ساتھ ہی یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟
ہندوستان میں موجود کسی بھی مذہبی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہےکہ دوسروں کے مذہب کی توہین کی جائے اور دوسرے کمیونٹی کے افراد کی ہتک عزت کی جائے۔ نیز دستور ہند میں بھی ایسی کوئی قانونی شق موجود نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پرکسی خاص مذہب کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھایا جائے، بلکہ مذہبی اور ملکی قانون تو ملک و ریاست میں موجود ہر مذہب کے تحفظ اور اُس کے احترام کی ضمانت دیتا ہے اور اُس کے خلاف جانے والے کو مذہبی اور قانونی مجرم تسلیم کرتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی مذہبی اور ملکی ہردو قوانین میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ جب کسی قوم و مذہب کے تحفظ پر بن آئے تو اُس قوم اور اُس مذہب کے ماننے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی معقول قدم اُٹھا سکتے ہیں، سامنے والے کے شر وفساد کی سرکوبی کرسکتے ہیں اور اپنا اور اپنے مذہب کے تحفظ کو یقینی بناسکتے ہیں اور ایسا کرنا کوئی جرم نہیں ہے، نہ مذہبی اعتبار سے اور نہ ملکی اعتبار سے، البتہ! جہاں تک ممکن ہوکہ اخلاقی طور پر اور اِنسانیت کے ناطے یہ کوشش ضرور ہونی چاہیے کہ نہ ملک کوکسی قسم کا کوئی نقصان پہنچنے پائے اور نہ ہی عوام کی جان ومال تلف ہونے پائے۔ ورنہ بصورت دیگر آپسی منافرت اور دشمنی کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی جو ملک وقوم کسی کے حق میں مفید نہیں۔ 
 ابھی حالیہ بہرائچ فساد کو دیکھ لیجیے جو مورتی ویسرجن جلوس کے موقع پر پھوٹ پڑا ہے۔ اُس میں ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔ اندازہ کیجیے کہ اُس کے اہل خانہ کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی اور وہ کس درد وکرب سے گزر رہے ہوں گے ۔ کیا حکومت کی طرف کی جانے والی امداد سے مقتول کے اہل خانہ کے زخم بھر جائیں گے اور کیا اُن کے گھر کا بجھا ہوا چراغ پھر سے روشن ہو اُٹھےگا؟ آخر اَیسی نوبت ہی کیوں پیدا کی جاتی ہے کہ جس کے باعث کسی کے گھر کا چراغ بے وقت بجھ جائے۔ مذہبی جلوس تو اَمن وآشتی کی علامت ہوتی ہے پھر اُس کے پردے میں انتشار و اختلافات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ ایسے مواقع پر اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہےکہ اکثریتی طبقہ، اقلیتی طبقہ کے مذہبی مقامات سے اپنے مذہبی جلوس کو لے جانے پر زور دیتا ہے اور اقلیتی طبقہ روکنا چاہتی ہے۔ لیکن اگرکہیں اُخوت ومروت کے پیش نظر اقلیتی طبقہ، اکثریتی مذہبی جلوس کونہیں روکتا اور اَپنے مذہبی مقامات سے گزرنے کی اجازت دے دیتا ہے تو اُس پر اِحسان مند ہونے اور اُخوت ومروت کا مظاہرہ کرنےکے بجائے اکثریتی طبقہ کی طرف سے انتہائی غیرانسانی حرکتوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، پُرتشدد نعرے بازی کی جاتی ہے اور لاؤڈ اسپیکر یا زبانی طور پر کچھ ایسے مذہبی مغلظات بکے جاتے ہیں جنہیں کوئی بھی مذہب ومعاشرہ کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرسکتا، اور پھر معاملہ کشیدگی پر جا ٹھہرتا ہے۔ حالیہ بہرائچ سانحہ کو دیکھ لیجیے کہ آخر ایک خاص قوم کے مکان پر چڑھنے، اُس کی چھت پر لگے مذہبی جھنڈا اُتار پھینکنے اور اُس کی جگہ بھگوا جھنڈا لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ایسا کرنا کسی بھی مذہب میں درست ہے، یا ایسا ہنگامہ خیز قدم اٹھانا اکثریت کے مذہبی پوجا-پاٹ کا حصہ ہے؟ ہمارے خیال سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ 
بہرحال اِس طرح کے فسادات تبھی رونما ہوتے ہیں جب کچھ شرپسند عناصر موقع پیدا کرتے ہیں ۔ ایسے موقع پر اکثریت واقلیت ہردو طبقات کے ذمہ داران کو چوکس اور بیدار مغز رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ فسادات میں نہ تو صاحبان اقتدار کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ ایڈمنسٹریشن پر کچھ فرق پڑتا ہے۔ اگر کسی پر کچھ فرق پڑتا ہے تو وہ عوام ہے ، جس کا تعلق اکثریت و اقلیت دونوں طبقات سے ہوتا ہے۔ پھر عوام ہی کو ہر قسم کے نقصانات برادشت کرنے پڑتے ہیں، اِس لیے گاؤں-محلہ سربرہان  خواہ اُن کا تعلق اکثریت سے یا اقلیت سے، اِس طرح کے مواقع پر بالخصوص اپنے جذباتی نوجوانوں پر کنٹرول بنائے رکھیں اور اُنھیں شرپسند عناصر کا آسان لقمہ ہرگز نہ بننے دیں۔ مذہبی جلوس کو مشترکہ گنگا-جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر پیش کریں، ورنہ بصورت دیگر ملک ومعاشرہ کا خسارہ تو ہوگا ہی، لیکن اِس سے بھی زیادہ نقصانات اکثریت و اقلیت کو ہی برداشت کرنے پڑیں گے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter