"ایسا سبق سکھائیں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔"

  اس وقت یوپی کی فضاؤں میں ایک عجیب سا اندھیرا چھایا ہوا ہے جیسے حکومتی ایوانوں سے نفرت کی گھٹا ہر طرف سایہ فگن ہوگئی ہو۔ یہ وہ وقت ہے جب قانون کو انصاف کے بجائے انتقام کا ہتھیار بنا دیا گیا اور پولیس کے ہاتھوں میں لاٹھی نہیں بلکہ ایک خاص طبقے کو دبانے کا اختیار تھما دیا گیا ہے۔ اس ریاست میں جہاں حکومت عوام کی محافظ ہونی چاہیے تھی وہاں وہ خود ایک فریق بن چکی ہے اور جب حکومت فریق بن جائے تو انصاف کا پلڑا خود بخود ایک طرف جھک جاتا ہے۔ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مخصوص برادری کے خلاف ایسی زبان اختیار کی گئی جو نہ صرف اشتعال انگیز ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے والی ہے۔ اس نفرت آمیز بیانیے کی قیادت ایک ایسی شخصیت کر رہی ہے جس کے الفاظ زہر سے کم نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ دن ہم سے رخصت ہوگئے جب سیاسی اختلاف کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا آج حالت یہ ہے کہ اب بات بات پر دھمکیاں دی جاتی ہیں

  "ایسا سبق سکھائیں گے کہ نسلیں یاد رکھیں گی۔"

  ایسے جملے اب سیاسی تقریروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ پولیس جو کبھی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے جانی جاتی تھی اب خوف کی علامت بن چکی ہے۔ عوام کی طرف سے اگر کوئی احتجاج ہو چاہے وہ پر امن ہی کیوں نہ ہو، تو اسے طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لاٹھیوں کی بارش، گرفتاریوں کا طوفان اور ایف آئی آرز کی بوچھاڑ یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ریاستی طاقت کا استعمال اب انصاف کے لئے نہیں بلکہ انتقام کے لئے کیا جا رہا ہے۔

   گزشتہ دنوں بریلی شریف میں پیش آیا واقعہ اس نئی حکمتِ عملی کی ایک واضح مثال ہے۔ جمعہ کے دن جو کچھ ہوا اُس کی پوری ذمہ داری ایک مذہبی رہنما پر ڈال دی گئی اور انہیں گرفتار کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ گویا وہ امن عامہ کے لئے خطرہ تھے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نے اظہار رائے کا حق استعمال کیا تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے؟ کیا اس ملک میں اظہارِ خیال کی آزادی صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود رہ گئی ہے؟ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں چلنے والی حکومت کا طرزِ عمل اس بات کا غماز ہے کہ اقتدار کے نشے نے انہیں یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ کل جو لوگ خود ریاستی طاقت کے شکار تھے آج اسی طاقت کو استعمال کر کے اپنے مخالفین کو کچل رہے ہیں۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ وہ پل بھی آئے گا جب تخت تبدیل ہوں گے اور جب وہی طاقت آج کے مظلوموں کے ہاتھ میں ہوگی تب شاید وہی لوگ جو آج انتقام کے نشے میں چور ہیں، انصاف کی دہائیاں دیتے نظر آئیں۔ مذہبی عقیدت کی تضحیک اور اس کے ردِ عمل میں اٹھنے والی آوازوں کو بزورِ طاقت دبانا۔ جب کسی کے دل کے قریب ترین ہستی جسے وہ اپنا مرکزِ عقیدت مانتے ہوں اُس کا نام لینا بھی جرم بن جائے تو سمجھ لیجئے کہ معاشرہ کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔ یہ کہنا کہ

   "ہم تمہیں اُس کا نام لینے بھی نہ دیں گے"

  دراصل مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کچھ آوازیں ایسی بھی اٹھتی ہیں جو خاموشی کو توڑتی ہیں۔ جیسے منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے صاف طور پر کہا کہ یوگی کی زبان ہی ان کی شناخت ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ الفاظ انسان کی باطنی کیفیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اگر زبان نفرت اگلتی ہے تو باطن میں بھی تعصب کی آگ جل رہی ہوتی ہے۔

   تاہم ایک اہم بات جو اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے وہ یہ کہ سڑکوں پر نکلنا، مظاہرے کرنا، احتجاج کرنا یہ سب اسی وقت مفید اور محفوظ ہوتے ہیں جب حالات اس کی اجازت دیں۔ جذباتی ہوکر، بغیر تیاری کے سڑکوں پر نکل آنا اکثر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ پولیس کی لاٹھیاں، آنسو گیس، گرفتاری اور برسوں تک چلنے والے مقدمات آخر کس کے لیے؟ ان نوجوانوں کے لئے جن کی زندگیاں ابھی شروع ہی ہوئی تھیں اور انصاف؟ وہ اکثر اتنی تاخیر سے ملتا ہے کہ تب تک زندگی اپنا رخ بدل چکی ہوتی ہے۔ لہٰذا! ضرورت اس بات کی ہے کہ عقیدت اور جذبات کو جوش سے نہیں ہوش سے برتا جائے۔ دشمنی کا جواب حکمت سے دیا جائے۔ مظلوم بن کر چیخنے سے بہتر ہے کہ حالات کو اس طرح سمجھا جائے کہ دوبارہ مظلوم نہ بننا پڑے۔ احتجاج ضرور ہو لیکن ایسا کہ دشمن کو شرانگیزی کا موقع نہ ملے۔ کیونکہ اکثر فساد وہ نہیں کرتے جو ایمان کے ساتھ باہر نکلتے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں جو کرائے پر شرارت بکھیرنے آتے ہیں۔ ایسے حالات میں سب سے اہم فریضہ دانشمندی ہے۔ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے انجام پر غور کرنا ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو دشمن ہیں وہ صرف جسم پر حملہ نہیں کرتے بلکہ وہ ذہنوں کو غلام بنانے آتے ہیں۔ ان کے خلاف جنگ صرف لاٹھی یا نعرے سے نہیں جیتی جا سکتی اس کے لئے بصیرت، حکمت، اتحاد اور وقت کی صحیح پہچان ضروری ہے۔

  آج مسلمانوں کو ہر قدم بہت احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خاکی وردی منتظر رہتی ہے کہ بس آپ ذرا سا باہر نکلیں۔ آپ کتنے ہی پُرامن ہوں، کتنے ہی خاموشی سے اپنے بنیادی حقوق کی بات کریں، چاہے آپ کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہ ہو، زبان میں کوئی تلخی نہ ہو، دل میں کسی کے لئے کوئی نفرت نہ ہو لیکن ان کی نظر میں آپ صرف ایک ہدف ہیں، ایک ایسا وجود جس پر طاقت کا مظاہرہ کرنا ان کے اختیار کا مظہر ہے۔ حالات بگاڑنا، فساد برپا کرانا، الزام تراشی کرنا، پروپیگنڈہ پھیلانا ان کے داہنے ہاتھ کا کھیل ہے۔ جبکہ فسطائی طاقتیں آئے دن قسم قسم کے جلوس نکالتی ہیں، تلواریں لہرائی جاتی ہیں، بھالے گھمائے جاتے ہیں، زہر افشانی کی جاتی ہے، بھیڑ مسجدوں کے گنبدوں اور میناروں پر چڑھ کر توڑ پھوڑ تک کرتی ہے، مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جاتی ہے، الله کے گھروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے ڈی جے مسجدوں کے سامنے بجتے ہیں، نعرے لگائے جاتے ہیں جو صریحاً اشتعال انگیز ہوتے ہیں، مسلمانوں کو مارنے، کاٹنے، ملک سے نکالنے کی کھلی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ نہیں ہوتا، کوئی کارروائی نہیں ہوتی، کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، کوئی گرفتاری نہیں ہوتی، الٹا ان کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور پولیس ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ہاں! مسلمان اگر پُرامن حالت میں اپنے حقوق کی خاطر کسی ناانصافی کے خلاف شورو ہنگامہ کیے بغیر باہر نکلیں تو طاقت کا بے دریغ استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ آنکھیں بند کرکے لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں، گولی چلائی جاتی ہے، آنسو گیس پھینکی جاتی ہے، راستے بند کئے جاتے ہیں، نیٹ بند کیا جاتا ہے، پورے علاقے کو یرغمال بنا دیا جاتا ہے۔ صرف اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرنے کی کوشش کی، اپنے حق میں آواز بلند کرنے کی ہمت کی۔ آج صوبہ کا سربراہ جس طرح کی نفرت آمیز زبان استعمال کر رہا ہے وہ کسی فرد واحد کی نہیں بلکہ ایک پورے طبقے ایک پوری قوم کے خلاف زہر اگلنے کے مترادف ہے۔ اس کو سن کر لگتا ہے کہ جملہ قائدین بالخصوص وہ جو انصاف، جمہوریت اور آئین کی بات کرتے ہیں وہ مظلوموں کے حق میں کھل کر آواز بلند کریں۔ کیوں کہ خاموشی اب جرم بن چکی ہے، مصلحت اب بزدلی کی علامت ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہوا جائے۔ کیوں کہ بریلی کے حالات کسی ایک شخص کی وجہ سے خراب نہیں ہوئے، نہ ہی نمازیوں اور نہ ہی ان پر امن لوگوں کی وجہ سے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے تھے صرف یہ جاننے کے لئے کہ ان کی شناخت کیا ہے، ان کا جرم کیا ہے؟  بلکہ حالات خراب کیے ان لوگوں نے جنہوں نے لاٹھی چارج کا حکم دیا، جو طاقت کے نشے میں چور ہوکر ہر حق گو آواز کو کچل دینا چاہتے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ مسلمان صرف خوف میں جئیں، سہم کر رہیں اور اگر کبھی حق کی بات کریں تو انہیں سبق سکھایا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے شعور بھی اتنا ہی بیدار ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو دبایا جا سکتا ہے، ان پر ظلم کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے۔ یاد رکھیں کہ یہ قوم صدیوں سے آزمائشوں سے گزرتی آئی ہے اور ہر بار سرخرو ہو کر نکلی ہے۔ آج پھر وقت ہے کہ ہم ایک ہو جائیں، حق کے ساتھ کھڑے ہوں جو ظلم کے سامنے جھکنے کے بجائے سر بلند رکھتے ہیں۔

 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter