پانکّاڈ سادات: کیرلا کی روحانی، سماجی اور سیاسی قیادت کی تابندہ تاریخ
دنیا میں جب جہالت اور تاریکی چھا جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی صورت میں روشنی کی کرن ضرور بھیجتا ہے۔ جاہلیت کے اسی اندھیرے دور میں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آفتابى نور کی مانند جلوہ افروز ہوئے اور آپ ﷺنے اپنی دعا میں یہ التجا فرمائی کہ آپکا یہ نور قیامت تک باقی رہے۔ چنانچہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : "إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ كَمَثَلِ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ"(المستدرک للحاکم، ص 343) بے شک میرے اہل بیت کی مثال تمہارے درمیان حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے۔ جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔
جس طرح آخری نبی ﷺنے دنیا کو ہدایت کی راہ دکھائی، اسی طرح آپ کی اولاد و اہل بیت نے بھی دنيا کے مختلف خطوں میں لوگوں کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا۔ کیرلا ریاست کو اس سعادت سے نوازا گیا کہ یہاں ایک ایسا سادات خاندان آیا جس کے پیروکاروں نے رسول اللہ ﷺکی عظیم سنت—تبسم اور خلقِ خدا کی خدمت—کو اپنا شعار بنایا۔ آپ ﷺ کے جس خاندان کی ميں بات كرنے جارہاہوں اسے کیرلا ميں "پانکاڈ سادات" كے نام سے جانا جا تا ہے ۔ آج بھی لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کیسے یہ خاندان دوسروں کے غم سنتا ہے، مسائل کا حل تلاش کرتا ہے اور کیسے ایک گلشن کی طرح پورے کیرلا کی آبیاری کرتا ہے۔
پانکّاڈ سادات کی آمد اور قیادت کی شروعات
دسویں صدی عیسوی میں حالات کی سختیوں کی وجہ سے رسول اللہ ﷺکی اولاد کی اکثریت بصرہ سے ہجرت کرکے یمن پہنچی۔ وہاں کے شہر"تَریم" میں آلِ رسول سید احمد شہاب الدین رحمہ اللہ کا وصال ہوا، جو ایک جلیل القدر عالم اور صوفی بزرگ تھے۔ پانکّاڈ سادات کا سلسلہ نسب اور "شہاب" نام انہی سے وابستہ ہے۔
1748ء میں انہی کی نسل سے تعلق رکھنے والے سید علی شہاب الدین حضرمی کیرلا کے کَنّور تشریف لائے اور یہاں روحانی و دینی روایت کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد سید حسین شہاب اور ان کے فرزند محضر شہاب تنگل نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا۔ یہ سب حضرات سلسلہ قادریہ و باعلویہ سے وابستہ تھے اور اپنے بعد آنے والوں کو بھی یہی فیض عطا کرتے رہے۔
1824ء میں سید حسین شہاب تنگل رحمہ اللہ کی پیدائش كيرلا ہی کی مٹی میں ہوئی۔ آپ نے فضل پوکویا تنگل کے بعد عوامی قیادت سنبھالی۔ والد نے جب آپ کو پانکّاڈ بھیجا تو یہ گاؤں جہالت اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن آپ کی آمد سے یہاں روشنی اور علم پھیل گیا، بالکل ویسے ہی جیسے رسول اکرم ﷺکی ولادت باسعادت سے حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا گھر منور ہوگیا تھا۔
تاریخی حوالوں کے مطابق 1880ء کے بعد سے پانکّاڈ میں عوام کا جماؤ اور رجوع بڑھ گیا۔ آپ نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں عوام کی رہنمائی کی تو انگریزوں نے آپ کو ویلّور جیل بھیج دیا۔ لیکن آپ نے اپنی اولاد اور امت کو یہ عظیم پیغام دیا کہ ایمان داری اور سچائی سے جینا ہی اصل زندگی ہے۔
پوکویا تنگل اور ریاست کیرلا کی تعمیر
سید حسین شہاب تنگل رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد قیادت کا بار کنجی کویا تنگل رحمہ اللہ نے اٹھایا اور پھر یہ سلسلہ پوکویا تنگل رحمہ اللہ تک پہنچا۔
1921ء کی آزادی کی جدوجہد کے بعد حالات نہایت خراب ہوگئے تھے۔ اندازاً بارہ ہزار سے زائد مسلمان اس جدوجہد میں شہید ہوئے۔ اس وقت پوکویا تنگل نے عوامی قیادت سنبھالی اور “سمستا کیرلا جمعیۃ العلماء” اور “مسلم لیگ” دونوں میں شامل ہو کر مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ آپ کا گھر کبھی سیاسی اور کبھی دینی و علمی مشاورت کا مرکز بنا رہا۔ آپ دن کے بیس گھنٹے تک عوامی بھلائی کے کاموں میں مصروف رہتے۔ یہی وہ وراثت ہے کہ آج بھی پانکاڈ سادات کے گھروں کا دروازہ عوام کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
جب بھارت نے حیدرآباد کو اپنے ساتھ ملایا اور آپ پُتییرا جیل میں قید تھے تو آپ کے بڑے بیٹے محمد علی شہاب تنگل قیدخانے میں آپ سے ملنے آئے۔ اس موقع پر بھی آپ کی زبان پر امت کی بھلائی کا ذکر تھا۔ یہی جذبہ پھر آپ کی اولاد کے دلوں میں بھی سرایت کر گیا۔
یہی وجہ ہے کہEMS، اچوتا مینون اور PT چاکو جیسے مشہور سیاسی رہنما نے بھی ان کے کردار کا اعتراف کیا، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح نبی اکرم ﷺکے زمانے میں ابو سفیان اور قیصرِ روم جیسے مخالفین نے بھی آپ ﷺکی سچائی اور عظمت کو تسلیم کیا تھا۔
1940ء سے لے کر وفات تک آپ سمستا کیرلا جمعیۃ العلماء کے ساتھ سرگرم رہے اور 1973ء میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ نے اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت دی کہ "ہم خدمت ِ خلق کے لیے پیدا ہوئے ہیں"۔
آباؤ اجداد کی وراثت اور روشن قیادت
سمسستا کیرلا جمعیۃ العلماء کے سابق جنرل سيكریٹری ، علامہ دہر حضرت شمس العلماء ای کے ابوبکر مسلیار رحمہ اللہ نے ایک بار فرمایا تھا:"تنگل پانچ چراغوں کو چھوڑ کر گئے ہیں"۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ سارے چراغ آج تك ایک کے بعد دوسرے روشن ہوتے رہے ہیں اور عوام كو فائده پہنچاتے آرہے ہیں۔
پوکویا تنگل رحمہ اللہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ آپ نے اپنے فرزند محمد علی شہاب تنگل کو جامعہ الازہر، مصر میں تعليم مكمل ہونے كے فورا بعد وہی کام کرنے کا موقع ملنے کے باوجود وطن واپس بلا لیا تاکہ اپنے گلشن یعنی كيرلا کے عوام اور مسلمانوں کی خدمت کرسکے۔ یہی سید محمد علی شہاب تنگل بعد میں کیرلا کی سیاست اور سماج میں آفتاب کی مانند ابھرے، بابری مسجد کی شہادت کے وقت امن کا پیغام دیا اور مسلم خواتین کی ترقی کے لیے سرگرم ہوئے۔
اسی طرح سید عمر علی شہاب تنگل نے اپنی زندگی بھر یہ پیغام دیا کہ"مسلم لیگ اور سمستا دونوں کو ہمیشہ حکمت اور فہم و فراست کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے"۔ اسی وجہ سے آج بھی مذہبی و سیاسی تنظیموں میں اس خاندان کی بھرپور نمائندگی ہے۔
پھر سید حیدر علی شہاب تنگل نے مسلم لیگ کے صدر اور سمستا کے نائب صدر کی حیثیت سے"بیتالرحمہ"اور "سی ایچ سینٹر" جیسے فلاحی اداروں کو فروغ دیا۔ آپ نے جامعہ دارالہدی اسلامیہ ، وافی کالج اور پٹّکّاڈ جامعہ نوریہ جیسے اداروں کی سرپرستی کی، اور آج انہی راہوں پر آپ کے برادر اصغر سید صادق علی شہاب تنگل بھی یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
آج جب بی جے پی نے مُنَمْبَمْ وقف کے مسئلے پر زہر پھیلانے کی کوشش کی تو سید صادق علی شہاب تنگل نے كيرلا کے اسقف ِ اعظم مار جوزف سے ملاقات کر کے تمام غلط فہمیوں کو دور کیا ۔ یہ وہی وراثت ہے جو آپ کے آباؤ اجداد سے آپ کو حاصل ہوئی۔
ان تمام واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پانکّاڈ سادات کی زندگی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی وراثت کی جھلک ہے۔ جو لوگ اس خاندان کی توہین کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ چاند آسمان کی بلندی پر ہوتا ہے، زمين سے پتھر پھینکنے والے وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ان شاء اللہ یہ سچائی اور روشنی نہ صرف کیرالہ بلکہ پوری دنیا میں قیامت تک قائم و دائم رہے گی۔
سُنا ہے خاک سے تیری نمود ہے، لیکن
تری سرِشت میں ہے کوکبی و مہتابی
علّامہ اقبال
مصادر و مراجع
- انٹرویو (محمد علی شہاب تنگل اور حیدر علی شہاب تنگل)
- پانکّاڈ سادات - معين ہدوی ملايمّا
- ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں - مفتی رفیق احمد هدوى كولارى
- آل شہاب اِن کیرالا: وراثت اور قیادت - عبد الواحد
- ويکی پیڈیا