آزادیٔ ہند میں علماۓ اہل سنت کا کردار
ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد ایک طویل، پُر خطر اور قربانیوں سے لبریز داستان ہے۔ اس جدوجہد میں مختلف طبقات، مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگوں نے بھرپور حصہ لیا۔ ان میں ایک اہم اور نمایاں کردار اہلِ سنت کے علما کا رہا جنہوں نے نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ فکری، دینی اور اخلاقی محاذ پر بھی انگریزی سامراج کے خلاف آواز بلند کی اور مسلمانوں میں بیداری پیدا کی۔
1857 کی جنگِ آزادی کو اگرچہ ناکام قرار دیا جاتا ہے، مگر یہی وہ بنیاد تھی جس نے انگریزوں کے خلاف عوامی مزاحمت کو جنم دیا۔ اس جنگ میں علماۓ اہل سنت کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (1746–1824) نے سب سے پہلے فتویٰ جاری کیا کہ "ہندوستان دارالحرب ہو چکا ہے اور انگریزوں کے خلاف جہاد فرض ہو چکا ہے"۔ اگرچہ وہ 1857 سے پہلے وفات پا گئے، لیکن ان کے افکار نے بعد کے علما کو تحریک دی۔
1857 کی جنگ میں جو علما پیش پیش تھے ان میں سب سے نمایاں نام حضرت مولانا فضلِ حق خیرآبادیؒ کا ہے، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جہاد جاری کیا۔ آپ کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا اور کالا پانی (انڈمان جزائر) میں جلاوطن کیا گیا، جہاں آپ نے شہادت پائی۔ دیگر علما جیسے مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا حافظ ضامن شہید، مولانا عبدالقادر بدایونی اور مولانا امام بخش صہبائی نے بھی جہاد میں حصہ لیا اور انگریزوں کے خلاف علانیہ فتویٰ دیا۔
1920 کی دہائی میں خلافت تحریک کے دوران بھی اہلِ سنت علما نے اہم کردار ادا کیا۔ تحریک خلافت کا مقصد سلطنت عثمانیہ (ترکی) کے خلیفہ کی حمایت اور انگریزوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ بریلوی مکتب فکر کے علما نے نہ صرف خلافت کی حمایت کی بلکہ مسلمانوں کو باہمی اتحاد کی تلقین کی۔
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (1856–1921)، اگرچہ براہِ راست سیاست میں سرگرم نہیں تھے، لیکن انگریزوں کے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے۔ آپ نے انگریزوں کی ملازمت، ان کی عدالتوں اور ان کی اطاعت کو مسلمانوں کے لیے باعثِ ذلت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا "کفّار کی حکومت کو مضبوط کرنا، اور ان کے ساتھ تعاون کرنا، دینی غیرت کے خلاف ہے"۔ اگرچہ آپ نے مسلمانوں کو انقلابی تحریکوں سے دور رہنے کی تلقین کی، لیکن اس کی وجہ اختلافِ طریق کار تھی، نہ کہ غلامی کو قبول کرنا۔
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ کے خلفا اور متبعین نے بھی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا جن میں علامہ حامد رضا خان، علامہ نعیم الدین مرادآبادی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا مظہراللہ سیوانی اور مولانا مظہر الدین دہلوی رحمهم الله قابلِ ذكر ہے۔ یہ تمام حضرات جلسوں، جلوسوں، خطابات اور تحریرات کے ذریعے عوام میں انگریزوں کے خلاف شعور بیدار کرتے رہے۔
علماۓ اہل سنت نے مختلف تنظیموں کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کو منظم شکل دی، جیسے:
جمعیت علمائے پاکستان (اہلسنت)
جماعت رضاۓ مصطفیؐ
سنی کانفرنس (1946، بنارس)
ان تنظیموں نے قیامِ پاکستان سے قبل سیاسی بیداری پیدا کی اور مسلم تشخص کے تحفظ کے لیے کوششیں کیں۔
قیام پاکستان اور علمائے اہل سنت
قیامِ پاکستان کی تحریک میں بھی علماۓ اہل سنت نے علامتی اور عملی سطح پر شرکت کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ عوام کو مسلم ریاست کے قیام کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ اس حوالے سے مولانا نعیم الدین مرادآبادی اور دیگر علما کی خدمات قابل ذکر ہیں۔
آزادیٔ ہند کی جدوجہد صرف بندوق یا سیاست تک محدود نہ تھی، بلکہ اس میں فکری، علمی، اور دینی سطح پر بھی زبردست محاذ آرائی ہوئی۔ علماۓ اہل سنت نے اس جدوجہد میں اپنے قلم، زبان، اور جان سے حصہ لیا۔ ان کی قربانیاں، تحریریں، فتاویٰ اور عملی جدوجہد ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان علما کی قربانیوں کو یاد رکھیں، ان کے پیغام کو عام کریں، اور اپنے دین و وطن سے سچی وفاداری کا ثبوت دیں۔
مراجع و مصادر
- تاریخِ حریتِ ہند
- سوانح امام احمد رضا خان
- تحریکِ آزادی اور علما
- خلافت تحریک کی تاریخ
- فتاویٰ علمائے اہل سنت