اعلیٰ حضرت کا سفرِ اجمیر اور انگریز افسر کے قبول اسلام کا روح پرور نظارہ
اللہ کے ولیوں کی بارگاہوں میں چین ہے۔ ان کی یادوں میں چین ہے۔ ان کے تذکروں میں چین ہے۔ اولیاے کرام نے سنت رسول ﷺ کا اہتمام کیا۔ قناعت و استقامت کا نظارہ پیش کیا۔ ان کی عملی زندگیاں تقویٰ و طہارت کی مظہر ہوا کرتی تھیں۔ ان کی بے داغ زندگی سے دوسروں کی زندگیوں میں صالح انقلاب برپا ہو جاتا تھا۔ شرک و کفر کے داغ دُھل جاتے تھے۔ دل و دماغ نورِ ایمان سے روشن روشن ہو جاتے تھے۔ سلطان الہند خواجہ غریب نواز کی بارگاہ ایسی ہی ہے۔
ہند میں یوں تو اسلام پہلی صدی ہجری میں ہی پہنچ چکا تھا۔ کیرلا و شمال مغربی علاقوں کو اسلام کی کرنیں منور کر رہی تھیں۔ وسطِ ہند کے اکثر علاقے شرک کا مسکن بنے ہوئے تھے۔ ایسے ماحول میں سلطان الہند خواجہ غریب نواز سرزمین ہند تشریف لائے۔ آپ کی اُجلی و نکھری سیرت سے لاکھوں زندگیوں میں وہ انقلاب آیا کہ وادی ہند ایمان کی بارانِ رحمت سے جل تھل ہو گئی؎
گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ! اے ابرِ کرم زور برسنا تیرا
اللہ تعالیٰ نے سلطان الہند کو ایسا نوازا کہ ہند کا روحانی تاج و تخت آپ سے منسوب ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن مملکتِ ہند کے روحانی تاج دار حضور غریب نواز ہیں۔ دربارِ خواجۂ ہند کی شوکت و جلالت کے آگے بہت سے تاج و تخت سوے اجمیر جھکے ہوئے ہیں۔ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی اشاعت کا جو دریا غریب نواز نے بہایا تھا وہ اب تک جاری و ساری ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی عظیم اسلامی محقق، مصلح، مدبر، مصنف اور ماہرِ علوم و فنون گزرے ہیں۔ آپ نے وادیِ عشق رسول ﷺ میں ان گنت گُلِ ہزارہ کھلائے ہیں۔ محبت رسول ﷺ کا جو درس آپ نے دیا تھا اس سے بزمِ دل میں رونق ہے اور احترام کی فضا قائم ہے- دل و جاں وجد کناں جھک گئے بہر تعظیم- آپ نے بارگاہِ رسالت ﷺ کا احترام سکھایا۔ اولیاے کرام کا ادب بھی سکھایا۔ آپ نے قبولیتِ دعا کے مقامات میں خواجہ غریب نواز کی بارگاہ کا خصوصی ذکر کیا۔ آپ نے محض اجمیر کہنے سے منع فرمایا اور ’’اجمیر شریف‘‘ کہنے کا ذہن دیا۔ اِس تحریر میں اعلیٰ حضرت کی بارگاہِ اجمیر مقدس حاضری کا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے۔
’’اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا، سلطان الہند اجمیری کی خانقاہ میں عرسِ غریب نواز پر وعظ ہوا کرتا تھا، وعظ کا اہتمام خود خانقاہ شریف کے ’’دیوان‘‘ صاحب کیاکرتے تھے۔جس میں عُلما و فُضَلا شرکت کرتے۔ بعض دفعہ دَکن کے حکمراں میر محبوب علی خان اور میرعثمان علی خان شریک وعظ ہوتے۔ اعلیٰ حضرت کا وعظ سننے کے لیے بے شمار خلقت، وہاں ہوا کرتی۔
اس مرتبہ، جب اعلیٰ حضرت، بریلی شریف سے اجمیر شریف عرس میں حاضری کے لیے جانے لگے، تو ان کے ہمراہ ،دس گیارہ مریدین بھی تھے۔ دہلی سے اجمیر شریف تک جانے کے لیے’’بی بی اینڈ سی آئی آر‘‘ریل چلا کرتی تھی۔ دورانِ سفرجب یہ ریل گاڑی’’پُھلیرہ جنکشن‘‘ پر پہنچتی، تو قریب قریب، مغرب کاوقت ہوجاتا تھا۔ ’’پُھلیرہ‘‘ اس دور کے ہند کا بہت بڑا ریلوے جنکشن ہوا کرتا تھا۔ جہاں، سانبھر، جودھ پور اور بیکانیر سے آنے والی گاڑیوں کا بھی کراس ہوا کرتا تھا۔ ان تمام دوسری لائنوں سے آنے والے مسافر، اجمیر شریف جانے کے لیے اسی میل گاڑی کو پکڑتے تھے، اس لیے یہ میل گاڑی، پُھلیرہ اسٹیشن پر تقریباً چالیس منٹ ٹھہرا کرتی تھی۔
جب اعلیٰ حضرت سفر کر رہے تھے، توپُھلیرہ جنکشن پر پہنچتے ہی مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ: نمازِ مغرب کے لیے جماعت پلیٹ فارم پر ہی کر لی جائے۔ چنانچہ، چادریں بچھا دی گئیں اور لوگوں میں سے جن کا وضو نہ تھا، انہوں نے تازہ وضو کر لیا۔
اعلیٰ حضرت ہر وقت با وضو رہتے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ: میرا وضو ہے، اور امامت کے لیے آگے بڑھے۔ اور پھر فرمایا کہ: آپ سب لوگ پورے اطمینان کے ساتھ، نماز ادا کریں۔ اِنْ شَاء اللہ گاڑی ہرگز اُس وقت تک نہ جائے گی، جب تک کہ ہم لوگ نماز پورے طور سے ادا نہیں کر لیتے ہیں...... یہ فرما کر، اعلیٰ حضرت نے امامت کرتے ہوئے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مغرب کے فرض کی جب ایک رکعت ختم کر چکے ،تو ایک دَم گاڑی نے وِہشل (Whistle) دے دی۔
پلیٹ فارم پر دیگر بکھرے ہوئے مسافر تیزی کے ساتھ اپنی اپنی سیٹوں پر گاڑی میں سوار ہو گئے، مگر آپ کے پیچھے، نمازیوں کی یہ جماعت پورے استغراق کے ساتھ نماز میں اسی طرح، برابر مشغول رہی۔ دوسری رکعت، مغرب کے فرض کی ہو رہی تھی کہ گاڑی نے اب تیسری اور آخری وِہشل بھی دے دی۔ مگر ہوا کیا کہ ریل کا انجن، آگے کو نہ سرکتا تھا۔ میل(Mail) گاڑی تھی۔ کوئی معمولی پسنجر گاڑی نہ تھی۔ اس لیے ڈرائیور اور گارڈ، سب پریشان ہوگئے کہ آخر یہ ہوا کیا کہ گاڑی آگے نہیں جاتی؟ انجن کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ڈرائیور نے گاڑی کو پیچھے کی طرف ڈھکیلا تو گاڑی پیچھے کی سمت چلنے لگی۔ انجن بالکل ٹھیک تھا۔ مگر جب ڈرائیور اسی انجن کو آگے کی طرف ڈھکیلتا، تو انجن رُک جاتا تھا۔ اتنے میں اسٹیشن ماسٹر، جو انگریز تھا، اپنے کمرہ سے نکل کر پلیٹ فارم پر آیا۔ اور اس نے ڈرائیور سے کہا کہ انجن کوگاڑی سے کاٹ کر دیکھو۔ آیا چلتا ہے، یا نہیں؟ چنانچہ، اس نے ایسا ہی کیا۔ انجن کو گاڑی سے کاٹ کر جب چلایا، تو بخوبی پوری رفتارسے چلا۔ کوئی بھی خرابی اس میں نظر نہ آئی- مگرجب ریل کے ڈبوں کے ساتھ جوڑ کر اسی انجن کو چلایاگیا، تو وہ پھر اسی طرح جام ہو گیا، اور ایک انچ بھی آگے کو نہ چلا۔ ریل کا ڈرائیور اور سب لوگ بڑے حیران وپریشان کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے کہ: انجن، ریل کے ساتھ جُڑ کر آگے کو نہیں جاتا؟ اسٹیشن ماسٹرنے گارڈ سے پوچھا، جو نمازیوں کے قریب ہی کھڑا تھا کہ: یہ کیا بات ہے کہ انجن الگ کرو، توچلنے لگتا ہے اور ڈبوں کے ساتھ جوڑو تو بالکل پٹری پر جام ہو کر رہ جاتاہے؟ وہ گارڈ مسلمان تھا۔ اس کے ذہن میں بات آگئی، اس نے اسٹیشن ماسٹرکو بتایاکہ: سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ بزرگ جو نماز پڑھا رہے ہیں، کوئی بہت بڑے ولی اللہ معلوم ہوتے ہیں، یقیناً اس کے علاوہ اور کوئی ٹیکنیکل وجہ نہیں۔ اب جب تک کہ یہ بزرگ اور ان کی جماعت، نماز ادا نہیں کر لیتی، یہ گاڑی مشکل ہے کہ چلے۔ یہ خداے تعالیٰ کی طرف سے ان ولی اللہ کی کرامت معلوم ہوتی ہے۔ بس اب ان کے نماز ادا کرنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اسٹیشن ماسٹر کو یہ بات سمجھ میں آگئی اور وہ کہنے لگا کہ بلاشبہہ، یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ نمازیوں کی جماعت کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ نماز میں اعلیٰ حضرت و مریدین کا استغراقِ عبادت اور خشوع و خضوع کا روح پرور منظر دیکھ کر وہ بے حد متاثر ہوا۔ انگریزی اس کی مادری زبان تھی، مگر وہ بے تکلف اردو میں کلام کرتا تھا۔ گارڈ کے ساتھ اس کی ساری گفتگو اردو ہی میں تھی۔ غرض اعلیٰ حضرت نے سلام پھیرا اور بآوازِ بلند درود شریف پڑھ کر دُعا میں مصروف ہو گئے۔ دُعا سے فارغ ہوئے تو آگے بڑھ کر نہایت ادب کے ساتھ اسٹیشن ماسٹر (انگریز) نے اردو ہی میں عرض کیا کہ : حضرت! ذرا جلدی فرمائیں۔ یہ گاڑی آپ ہی کی مصروفیتِ عبادت کے سبب چل نہیں رہی ہے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ:
بس ابھی نماز پڑھ کر ہم لوگ تھوڑی دیر میں فارغ ہوں گے اور اِنْ شَاءَ اللہ پھرگاڑی چلے گی۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ نماز کا وقت ہے۔ کوئی بھی سچا مسلمان نماز قضانہیں کر سکتا۔ نماز ہر مسلمان پر فرض ہے۔ گاڑی اِنْ شَاءَ اللہ نہیں جائے گی، جب تک ہم لوگ اطمینان کے ساتھ نماز ادا نہیں کرلیتے۔ اسٹیشن ماسٹر پر اسلام کی روحانی ہیبت طاری ہوگئی۔
اعلیٰ حضرت اور مریدین نے سکون کے ساتھ، جب نماز پورے طور پر ادا کر لی اور دُعا پڑھ کر فارغ ہوئے تو اعلیٰ حضرت نے پاس ہی کھڑے ہوئے انگریز اسٹیشن ماسٹر سے فرمایا کہ: اِنْ شَاءَ اللہ اب گاڑی چلے گی۔ یہ کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی نے سیٹی دی اور چلنے لگی۔ اسٹیشن ماسٹر نے اپنے انداز میں سلام کیا اور آداب بجا لایا۔ مگر اس واقعۂ کرامت کا ،اس کے ذہن اور دل پر بڑا گہرا اثر پڑا۔
بہر کیف! گاڑی کے ساتھ اعلیٰ حضرت اور ان کے یہ چند مریدین تو اجمیر شریف روانہ ہوگئے، مگر اسٹیشن ماسٹر سوچ میں پڑ گیا۔ رات بھر وہ اسی غور و فکر میں رہا، اس کو نیند نہ آئی۔ صبح اُٹھا تو چارج اپنے ڈپٹی کے حوالہ کر کے اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ حاضری کے لیے اجمیر شریف کو چل پڑا، تا کہ وہاں درگاہِ خواجہ غریب نواز میں حاضر ہو کر اعلیٰ حضرت کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرے۔ جب اجمیر شریف پہنچا تو دیکھا کہ: درگاہ شریف کی شاہجہانی مسجد میں اعلیٰ حضرت کا ایمان افروز وعظ ہو رہا ہے۔ وہ وعظ میں شریک ہوا۔ بیان سنا اور جب وعظ ختم ہوا تو قریب پہنچ کر اس نے اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے، اور عرض کیا کہ: جب سے آپ پُھلیرہ اسٹیشن سے ادھر روانہ ہوئے ہیں میں اس قدر بے چین ہوں کہ مجھے سکون نہیں آتا۔ آخر اپنے افرادِ خاندان کے ہمراہ، یہاں حاضر ہو گیا ہوں اور اب آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔آپ کی یہ روحانی کرامت دیکھ کر مجھے اسلام کی آسمانی صداقت کا یقینِ کامل ہو گیا ہے۔اور مجھے پتہ چل گیا ہے کہ بس اسلام ہی خداے تعالیٰ کا سچا دین ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد نے ہزارہا زائرینِ دربارِ خواجہ غریب نواز کے سامنے اس انگریز کو اور اس کے نو افرادِ خاندان کو وہیں کلمہ پڑھایا اور مسلمان کیا، اور خود اس کا اسلامی نام بھی غوثِ پاک کے نام پر ’عبدالقادر‘ رکھا، اس کا انگریزی نام رابرٹ تھا۔ اور وہ رابرٹ صاحب کے نام سے مشہور تھا۔ آپ نے اس کو مسلمان کرنے کے بعد سلسلۂ قادریہ میں مرید بھی کیا اور پھر ہدایت فرمائی کہ:
ہمیشہ اِتِّباعِ سنَّت کا خیال رکھنا۔ نماز کسی وقت نہ چھوڑنا، نماز روزہ کی پابندی بہت ضروری ہے۔ جب موقع ملے تو حج پہ بھی ضرور جانا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور ہمیشہ خدمتِ دین کاخیال رکھنا؛ اسلام کا پھیلانا بھی قرآن پاک نے ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ اپنے وطن بھی جب جاؤ تو وہاں بھی دین کو پھیلانے کی خدمت انجام دینا۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اب خود بھی قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کرو اور اپنے تمام افرادِ خاندان کو بھی قرآنِ پاک کی تعلیم دلواؤ۔ غرض آپ نے اسلام اس کے دل میں اُتار دیا اور اپنی عارفانہ جنبشِ نگاہ سے اس کے شیشۂ دل کو عشقِ رسول پاک (ﷺ) کے عطر سے بھر کر، اس کی روح کو مہکا دیا۔ وہ اسلام کا شیدا اور وارفتہ ہو گیا۔ اس انگریز کے اس قبولِ اسلام کا یہ واقعہ، اس وقت کا ایک اہم واقعہ تھا۔ اس لیے کہ یہ انگریز کوئی معمولی درجہ کا انگریز نہ تھا، بلکہ ایسے گھرانے کا فرد تھا، جس کے بہت سے افراد ہند اور انگلستان میں مناصب جلیلہ پر فائز تھے۔ اہلِ علم اور باوقار لوگ تھے؛ اور عیسائی مشن کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ اس انگریز کے مع افرادِ خاندان مسلمان ہو جانے کے اس واقعہ سے عیسائی مشنریوں کے جرگہ میں ہل چل پڑگئی۔ ان کے پادری بوکھلا گئے۔ یہ کیا کم انقلابی واقعہ تھا؟
پھر اس نَومسلم انگریز نے جیسا کہ بزرگوں نے بتایا زندگی بھر اسلام کی بڑی خدمت کی۔ وہ قرآنِ کریم ختم کرنے کے بعد ہندوستان سے وطن واپس لوٹ گیا، اور وہاں جا کر اسلام کی خدمت کے لیے وقف ہو گیا۔ اعلیٰ حضرت کی روحانی کرامت اور عارفانہ جنبشِ نگاہ نے اس کی ساری کایا پلٹ دی۔ اسے آشنائے عشقِ رسول (ﷺ ) کر کے کام کا آدمی بنا دیا۔ منزل پر پہنچا دیا۔"(ملخصاً؛سالنامہ معارفِ رضا کراچی، ص۱۵۷ تا ۱۶۱، ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۳ء، بقلم علامہ نور احمد قادری، بروایت حاجی عبدالنبی قادری)
قبولِ اسلام کے ایسے کتنے ہی نظارے آسمانِ ہند نے دیکھے۔ بلاشبہہ یہ نسبت خواجہ غریب نواز کی برکتیں ہیں جس کا ظہور اللہ کے ولی اعلیٰ حضرت کے توسط سے ہوا اور اسلام کی پاکیزہ نعمت سے دامن اُمید بھر بھر گئے۔