حضور حافظ ملت: ایک عہد ساز شخصیت

اس عالمِ رنگ و بو میں بے شمار افراد انسانی وجود پذیر ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پیوند خاک ہوگیے- کتنی ہستیاں صفحہ ہستی پر نمودار ہوئیں اور پردہ عدم میں روپوش ہوگئیں- از آدم تا ایں دم لاتعداد انسانوں نے جنم لیا اور اس دارفانی کو خیر آباد کہہ کر رخصت ہوگیے- روز مرہ آمد و رفت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامِ قیامت جاری رہے گا-

 لیکن کتنے مؤقر لوگوں کو اس دنیا نے یاد رکھا؟ اور کتنے عظیم افراد کو تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ رکھا؟ ایسے نفوسِ قدسیہ اور جامع کمالات اشخاص کی تعداد ہر دور میں قلیل ہی رہی ہے جنہوں نے گم گشتگان راہ منزل کی صحیح رہنمائی فرمائی، نور توحید سے تاریک قلوب کو مجلی و مصفی فرمایا، عشقِ رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سرشار کیا اور سینوں میں محبت رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جوت جگائی- عظمت رسول صلی الله علیہ وسلم سے آشنا کیا اور بے شمار اوصافِ حمیدہ و فضائل حسنہ کا خوگر بناکر لاتعداد محاسن جلیلہ اور شمائل حمیدہ کے آبدار موتیوں سے ظاہر و باطن کو مزین فرمایا-

 آئیے ہم آپ کو ایسی ہی ہستی سے متعارف کرائیں جس کے افعال و اقوال، کردار و اعمال اور شب و روز کے معمولات ہمارے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہیں- جس نے نصف صدی تک دین و ملت کی حفاظت و پاسبانی کا فریضہ بحسن خوبی انجام دیا جس کی بدولت آج دنیا ان کو حافظ ملت کے نام سے پہچانتی ہے- 

حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان درس و تدریس سے پورے طور پر منسلک تھے وہیں آپ تقریر و خطابت میں بھی ملکہ رکھتے تھے- ان کی تقریر حکمت اور موعظت حسنہ سے بھرپور ہوا کرتی تھی- سننے والا ان کی تقریر سے ضرور متاثر ہوتا تھا- اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کی بات دل سے نکلتی تھی نہ صرف زبان سے- آپ کی تقریر کی اثر انگیزی کا ایک واقعہ نذر قارئین ہے:

 1973/ عیسوی میں رائے پور چھتیس گڑھ میں عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسلم کے جلسے میں آپ تشریف لے گئے- جسلے میں پڑھے لکھے لوگوں کا خاصہ مجمع تھا- کئی غیر مسلم اسکالرز بھی تھے- آپ نے مذہب اسلام کی صداقت قرآن مجید کی حقانیت اور قدیم و جدید علوم کے نفع و نقصان پر نہایت پر مغز خطاب فرمایا- تقریر کے بعد سارا مجمع آپ کی دست بوسی پر ٹوٹ پڑا- اس وقت کچھ غیر مسلم بھی کنارے کھڑے حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان کا دیدار کر رہے تھے- ان میں ،،شری واستو جی،، نام کے ایک شخص بھی تھے- وہ غالباً کسی کالج کے پروفیسر تھے- انہوں نے تنہائی میں جاکر کسی سے پوچھا کہ یہ جو آپ کے گرو جی ہیں ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں- یہ تو مجھے ودیا ساگر دکھائی دیتے ہیں- کیا ہم کو ان سے ملنے کے لیے وقت مل سکتا ہے؟ اس شخص نے حضرت سے ملنے کا وقت اور مکمل پتہ بتا دیا- شری واستو جی نے حضرت کے پاس پہنچ کر بہت سارے سوالات کئے- جن کو آپ نے نہایت متانت و سنجیدگی سے حل کردیا- شری واستو جی اس سے بہت متاثر ہوئے اور فورن آپ کے ہاتھوں پر توبہ کرکے دولت ایمان سے مالا مال ہوگئے- ان کے ساتھی ،،گنیش جی،، نے بھی اپنے گھر کے تمام افراد کے ساتھ اسلام قبول کر لیا- حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان نے ان کا نام ،،بلال،، اور شری واستو جی کا نام ،،نور محمد،، رکھا- 
      ( حافظ ملت کا فیضانِ نظر، صفحہ نمبر/ 37)

 کسی کو اس کی شرعی چوک پر اصلاح کی نیت سے تنبیہ کرنا امر باالمعروف کا ایک حصہ ہے- ایسے مواقع پر عوام تو اصلاح قبول کر لیا کرتے ہیں مگر خواص کو اصلاح کی نیت سے کچھ کہنا بڑا دشوار امر ہے- جبکہ خواص کو اس کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ اصلاح کو بلا چوں چرا تسلیم کرلیں تاکہ عوام ان کی پیروی کرکے راہ راست پر آسکے-
     حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان  کی موجودگی میں ایک مقرر سے عقائد کے کسی مسئلے کے بیان میں غلطی ہوگئی تھی- حضور حافظ ملت اپنے وقت پر جب کرسی پر تشریف فرما ہوئے تو خطبہ مسنونہ کے بعد تلاوت کردہ آیت کی تشریح کے بعد فرمایا: آدمی سے اگر غلطی کا صدور خفیہ اور پوشیدگی میں ہوتو اس کی توبہ بھی خفیہ اور پوشیدگی میں ہوگی اور اگر انسان سے غلطی کا صدور علانیہ ہوتو اس کی توبہ علانیہ ضرور ہے تاکہ علانیہ غلطی سے جو لوگ غلطی کا شکار ہوگئے ان کی اصلاح ہو جائے- اس کے بعد مقرر صاحب کے بیان کردہ مسئلہ کی غلطی کو واضح کرکے مسئلہ کی صحیح صورت سے آگاہ فرمایا اور کئی کتابوں کے حوالے سے مسئلہ کو مبر ہن کر کے مقرر صاحب کو مائک پر آکر اپنے بیان کردہ مسئلے سے رجوع کرنے کا حکم دیا- 
       ( معارف حافظ ملت، صفحہ نمبر/ 42)

بحر العلوم حضرتِ علامہ مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ کے دولت کدہ پر محفلِ میلاد شریف میں حضرت مولانا اسلم عزیزی کی ابتدائی تقریر ہوئی داران تقریر ،، مومن کامل ،، بول گئے- اس پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان نے اپنی تقریر میں ایمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان کامل اور ناقص نہیں ہوتا بلکہ کمال، نقصان مومن کی صفت ہے-
                ( معارفِ حافظ ملت، صفحہ نمبر 42/)

باب علم میں غلطی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں اور نہیں کچھ عیب البتہ غلطی پر مصر کرنا اور اصلاح قبول نہ کرنا بڑی غلطی ہے- نام و نمود اور شہرت کے خواہاں لوگوں کی طرف سے ایسے مواقع پر جو رد عمل دیکھا جاتاہے اس کے پیشِ نظر اصلاح سے چشم پوشی میں عافیت محسوس کی جاتی ہے- اس خصوص میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان کو دیکھا جائے تو آپ کی ذات ایک مثالی شخصیت کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہے- آپ اصلاح کے انجام سے مستغنی ہوکر بلا خوف لوم لائم مسئلہ بیان فرما دیتے- توبہ کی ترغیب بھی دلاتے- خفیہ اور علانیہ ہوتو علانیہ توبہ کی ترغیب دلاتے-

 ایک مرتبہ گورکھپور کے کسی جلسے میں مدعو تھے مگر عین تاریخ پر طبیعت اتنی علیل ہوگئی کہ سفر مشکل ہوگیا لیکن جذبہ صادق القولی کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب آپ بخار سے تپتے ہوئے بدن کے ساتھ شریکِ اجلاس ہوئے- حالانکہ لوگوں نے منع کیا لیکن حضور حافظ ملت پھر بھی نہ مانے- یہ حضور حافظ ملت کی قومی ہمدردی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں رک جانا چاہیے مگر میں نے وعدہ کرلیا ہے نہیں پہنچوں گا تو غریبوں کا دل ٹوٹ جائے گا- مذہب کا نقصان ہوگا-
حضور حافظ ملت افکار و کارنامے، صفحہ نمبر/ 101)

 آپ جب کسی کو کوئی خلافِ شرع کام کرتا دیکھتے تو فورن اس میں اصلاح کی کوشش کرتے- جیسا کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ جمعہ کا دن تھا اور جامع مسجد راجہ مبارک شاہ میں نماز جمعہ میں آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا، استنجا کی جگہ کم تھی اور حاجت مندوں کی تعداد زیادہ، نتیجہ یہ کہ دو آدمی استنجے کے لیے بیٹھے تھے اور متعدد اشخاص لوٹا لیے کھڑے انتظار میں تھے- طہارت کے لیے بیٹھنے والوں کی رانیں کھلی ہوئی تھیں حضور حافظ ملت جن کے لیے جامع مسجد راجہ مبارک شاہ کا پر شکوہ ممبر منتظر تھا، صدر دروازے سے داخل ہوئے اور اتفاقاً حضرت کی نگاہ گھٹنا کھولے استنجا کرتے شخص پر پڑ گئی- مسجد میں پہنچ کر ممبر سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور آڈھا گھنٹہ تک غیظ و غضب میں ڈوبی ہوئی تقریر فرمائی- ستر پوشی سے متعلق رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے بے حیائی پر وعیدیں اور طہارت کے احکام و آداب آپ کی تقریر کا عنوان تھا-

 حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان نے اصلاح امت کی خاطر کتابیں بھی تصنیف فرمائیں- اگرچہ ان کتابوں کی تعداد بہت کم ہے- آپ کو بھی اس کا قلق ہمیشہ رہا- آپ آخری زمانے میں اظہارِ افسوس کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

 مجھے لوگوں نے کسی کام کا نہ رکھا- غیر اہم اور غیر ضروری کاموں میں مجھے ایسا الجھا دیا کہ لکھنے کا خاطر خواہ کام نہ ہوسکا جس کا مجھے افسوس ہے- حالانکہ اوائل عمر میں میرا قلم نہایت برق رفتار تھا اور اب نہ تو وہ قوت دماغ ہے اور نہ ہی فرصت- اس لیے اب میرا مطمح نظر اور میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف جامعہ اشرفیہ کی تکمیل ہے-
( حافظ ملت نمبر، ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور، صفحہ نمبر 412)

 حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان کے چند کتابوں کے نمونے:

 ارشاد القرآن:

 آپ نے یہ رسالہ 1997/ عیسوی کے ہنگامہ ترک وطن کے وقت تحریر فرمایا جب مسلمانان ہند بغیر سوچے سمجھے ترک وطن کرکے نوزائیدہ پڑوسی ملک پاکستان جا رہے تھے- بروقت یہ رسالہ آپ نے شائع اور مفت تقسیم کرا کے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی جس کے جلوے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
     مسلمانوں تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضریٰ ہے- تمہارے مقصود وہی تاجدارِ مدینہ صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں، تمہاری مشکلات کا حل انہیں کی نظر کرم اور اشارہ ابرو پر موقوف ہے- تمہارے مقاصد کا حصول انہیں کی تعلیم پر ہے جس کو مسلمان اپنی بد نصیبی سے فراموش کر چکے ہیں- 
               ( ارشاد القرآن، صفحہ نمبر، 05)

 حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان قوم مسلم کی بد حالی اور ان کی بد اعمالیوں کو دیکھ کر تڑپ جاتے اور حتی الامکان ان کی اصلاح کی کوشش کرتے- چناچہ آپ کے درد دل اور سوز دروں کا اندازہ اس تحریر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

 مسلمانو! جاگو اور خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ تمہاری اصلاح و فلاح اسی میں مضمر ہے کہ سچے اور پکے مسلمان بن جاؤ- تمہاری کامیابی اسی پر موقوف ہے کہ تمہاری زندگی اسلامی اور موت اسلامی ہو- تمہارا ظاہر بھی اسلامی ہو اور تمہارا باطن بھی اسلامی ہو، تمہارے عقائد بھی اسلامی ہوں اور اعمال بھی اسلامی ہوں- تمہارے جذبات اسلامی جذبات ہوں اور تمہارے خیالات بھی اسلامی خیالات ہوں، تمہارا سینہ اسلامی ایمانی انوار سے منور ہو اور تمہارا جسم اعمال صالحہ سے مزین، مصیبت پر صبر اور نعمت پر شکر تمہاری عادت ہو، الله رب العزت پر توکل و اعتماد تمہاری سرشت ہو، قرآنی تعلیمات پر عمل تمہاری طبیعت ثانیہ بن جائے- 
           ( ارشاد القرآن، صفحہ نمبر، 09)

 ارشاد القرآن کا عام مسلمانوں پر جو اثر ہوا اس کے متعلق حضرتِ علامہ بدر القادری صاحب فرماتے ہیں 1947/ عیسوی کے ہنگامہ ترک وطن میں مبارک پور میں ارشاد القرآن مفت تقسیم کی گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بھی مسلمان نے ترک وطن نہ کیا- یہ تھا خلوص دینی و ملی درد میں ڈوبی ہوئی تحریر کا اثر- 
              (حیات حافظ ملت، صفحہ نمبر، 433)

معارف حدیث:

 یہ اصل میں سلسلہ وار مضامین حدیث کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ پاسبان میں چھپتے رہے- جس میں احادیث کی روشنی میں اعمال صالحہ اور عقائد حقہ کی تلقین کی گئی ہے- خطیبِ مشرق حضرتِ علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمتہ والرضوان اس کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ سمندر کو کوزے میں بھرنے کی کہاوت سنی تھی لیکن معارف حدیث اس کی جیتی جاگتی مثال ہے- حدیث کے ترجمے کے ساتھ اس پر عالمانہ و عارفانہ نکتہ آفرینی، یہ صرف استاذ العلما جیسی بلند شخصیت کا کام ہے-
                  (حیات حافظ ملت، صفحہ نمبر، 434)

              کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت یوپی
                  iftikharahmadquadri@gmail.com

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter