حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)القاب و آداب کے آئینے میں

اسلامی تاریخ میں اولیائے کرام نے دینِ متین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ ان میں سب سے نمایاں اور عظیم المرتبت بزرگ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہیں دنیائے اسلام "غوث الاعظم" کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کی شخصیت علم و عرفان، زہد و تقویٰ، تصوف و روحانیت اور خدمتِ دین کا مرقع تھی۔ آپ کے اوصاف و کمالات نے اہلِ دل کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ آپ کے بلند مقام کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کے لیے عظیم الشان القاب اور مخصوص آداب مقرر کریں۔ اس مضمون میں آپ کے القاب و آداب کو تاریخی اور علمی تناظر میں مدلل انداز سے بیان کیا جا رہا ہے ، جو اہل علم کے لئے معلومات کا سبب اور عشاقِ غوثِ اعظم کے لئے فرحت و مسرت کا باعث بنے گا چونکہ اہلِ عقیدت اپنے امور کی تکمیل کے لئے حضرتِ غوثِ پاک رضی اللہ عنہ سے فریاد رس ہوتے ہیں اور ان کی فریاد اس وسیلہ عظمی کے طفیل اللہ سبحانہ تعالٰی کے ہاں سنی بھی جاتی ہے ۔ دنیاۓ اہل سنت کے ایک مؤقر عالمِ دین مناظرِ اسلام رئیس القلم حضرت علامہ مولانا ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ حضرتِ غوث پاک رضی اللہ عنہ سے یوں فریاد رس ہیں ۔

ہاتھ پکڑا ہے تو تا حشر نبھانا یا غوث

اب کسی حال میں دامن نہ چھڑانا یا غوث

اپنے ہی کوچے میں سرشارِ تمنا رکھنا

اپنے محتاج کو در در نہ پھرانا یا غوث

دوست خوش ہوں میرے دشمن کو پشیمانی ہو

کام بگڑے ہوئے اس طرح بنانا یا غوث

  1. حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور القاب

(الف) غوث الاعظم :"غوث" لغوی طور پر فریاد رس کو کہا جاتا ہے، اور "اعظم" کا مطلب ہے سب سے بڑا۔ صوفیائے کرام نے آپ کو "غوث الاعظم" اس لیے کہا کہ آپ حاجت مندوں کی فریاد کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے پورا کرنے والے اور اہلِ زمانہ کے سب سے بڑے مددگار تھے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"قطبیتِ کبریٰ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کو عطا کی گئی اور تمام اولیاء نے آپ کی غوثیت کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔"

(القول الجلی، ص 78)

ہمارے امام ، مجددین و ملت ، قاطعِ شرک و بدعت ، عاشقِ رسول حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ یوں نغمہ سنج ہیں۔

تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع

جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا

(ب) محی الدین : یہ لقب بھی نہایت معنی خیز ہے۔ "محی" کا مطلب زندہ کرنے والا اور "الدین" سے مراد دینِ اسلام ہے ۔ آپ نے اپنے وعظ و نصیحت، اصلاحی خدمات اور روحانی فیضان کے ذریعے دینِ مصطفوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان کو زندہ فرمایا، اسی نسبت سے آپ "محی الدین" کہلائے۔

ہمارے امام فاضلِ بریلوی رحمۃاللہ علیہ خوب فرماتے ہیں ۔

تو حسینی حسنی کیوں نہ محی الدیں ہو

اے خضر مجمعِ بحرین ہے چشمہ تیرا

(ج) بازُ الاشہب : "بازُ الاشہب" کا مطلب ہے سفید باز۔ صوفیاء نے آپ کو یہ لقب اس لیے دیا کہ آپ کی روحانی پرواز شاہین سے بھی بلند تھی اور آپ نے باطل و طاغوتی طاقتوں کو اپنی قوتِ ایمانی سے زیر کیا۔ اسی لئے

    ہر وَلی نے یہی پکارا ہے

 واہ کیا بات غوثِ اعظم کی

ملاء اعلی میں جن کو باز اشھب کے نام سے یاد کیا جاتاہے ، جن کی ولایت کا سورج تاابد چمکتا دمکتا رہے گا جس کا اظہار قصیدہ غوثیہ میں یوں کیاگیا :

   أنا البـازيُّ أشهـب كُلّ شيخِ

ومـن ذا فى الملا أعطى مثـالي

 ترجمہ : میں وہ سفید باز ہوں جو ہر شیخ پر برتری رکھتا ہوں ،

اور بھلا کون ہے جو اس محفل میں میری مثال پا سکے؟

(د) قطبِ ربانی : "قطب" کا مطلب ہے وہ ہستی جس پر نظامِ روحانیات قائم ہو۔ "قطبِ ربانی" کا لقب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص ولایت کے حامل اور روحانی دنیا کے مرکز تھے۔

ہمارے امام فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

سارے اقطابِ جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف

کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا

(ہ) تاج الاولیاء : آپ کو "تاج الاولیاء" بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ولایت کی صفوں میں آپ سب سے نمایاں اور سب سے بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔ ہمارے امام فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

ورفعنالک ذکرک کا ہے سایا تجھ پر

بول بالا ہے ترا ، ذکر ہے اونچا تیرا

  1. آپ کے آداب اور ان کی تعظیم

اہلِ تصوف و معرفت نے حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے ذکر و نام میں آداب کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور آپ کو نہایت ادب و تعظیم سے یاد کیا ۔

(الف) تعظیم کے ساتھ نام لینا

علماء اور صوفیاء ہمیشہ آپ کے نام کے ساتھ "غوث الاعظم"، "سیدنا" یا "شیخنا" جیسے القاب استعمال کرتے رہے ہیں ۔ یہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ آپ کا مقام محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ ایک مرجعِ کائنات کا ہے بلکہ بفضلِ الٰہی ہر شے پر آپ کا حکم نافذ ہے اور ہر ولی آپ کا احترام بجالاتے ہیں ۔

حکم نافذ ہے ترا ، خامہ ترا ، سیف تری

دم میں جو چاہے کرے دَور ہے شاہاتیرا

(ب) محفلِ غوثیہ کے آداب : جب آپ کی محفل یا ذکر کا اہتمام کیا جاتا ہے تو ادب کا خاص ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ زبان کو پاکیزگی ، دل کو اخلاص اور مجلس کو خشوع و خضوع سے سجایا جاتا ہے اہلِ محبت و عقیدت کا ہمیشہ سے یہی طرۂ امتیاز رہا ہے ۔

(ج) ایصالِ ثواب اور نذرانۂ عقیدت : اولیائے کرام کے ہاں معمول رہا ہے کہ آپ کے عرس کے موقع پر ایصالِ ثواب، فاتحہ خوانی اور نیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سب آداب دراصل آپ کے فیضان کا اعتراف اور محبت کا اظہار ہیں۔

(د) آپ کے اقوال و ملفوظات کی عظمت : آپ کی کتب جیسے ' فتوح الغیب ' اور 'الفتح الربانی ' کو ہمیشہ تعظیم اور ادب کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ صوفیاء ان کتب کو روحانی تربیت کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔

  1. القاب و آداب کی شرعی حیثیت: قرآن و حدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی عظمت و تعظیم کا حکم دیا ہے:

قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے ۔

"اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ" (یونس: 62)

یعنی بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہیں ۔

حدیث شریف ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَآءِ"

(ابوداؤد، حدیث 3641)

یعنی علماء (اور اولیاء) انبیاء کے وارث ہیں۔

یہ نصوص اس بات کی دلیل ہیں کہ اولیائے کرام کی عظمت تسلیم کرنا اور ان کا ادب بجا لانا عینِ ایمان ہے۔

4.حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو جو القاب دئیے گئے، وہ آپ کے علم و عمل، زہد و تقویٰ اور ولایتِ کبریٰ کے روشن آئینے ہیں۔ "غوث الاعظم"، "محی الدین"، "بازُ الاشہب"، "قطبِ ربانی" اور "تاج الاولیاء" جیسے القاب محض الفاظ نہیں بلکہ آپ کی روحانی عظمت کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ آپ کی تعظیم و ادب دراصل ولایت کی عظمت کا اعتراف اور دینِ اسلام کی توقیر ہے۔ یقیناً حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ اولیاء اللہ کے درمیان سب سے بلند ہے اور ان کے القاب و آداب ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ اللہ کے ولیوں کی قدر کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے مترادف ہے۔

 مراجع و مصادر:

ابن کثیر، البدایہ والنہایہ

شاہ ولی اللہ دہلوی، القول الجلی فی ذکر سیدنا عبد القادر الجیلی

امام شعرانی، الطبقات الکبریٰ

شیخ عبد القادر جیلانی، فتوح الغیب، الفتح الربانی

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter