امیرالمومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عظمت و بصیرت: دانشورانِ مغرب کے اعترافات
سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کے پاکیزہ گروہ کی خود تربیت فرمائی۔ صحابۂ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے دین کو مکمل احتیاط اور اخلاص سے جہان بھر میں پہنچایا۔کفر و شرک کو سرنگوں کیا۔ سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد خلیفۂ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منہاجِ نبوی کے مطابق اسلامی مملکت کے نظام کو چلایا۔ آپ کے عہد میں کئی کئی محاذ درپیش آئے، فتنے سر اُبھارے، یہود و نصاریٰ کی سازشوں نے نئے نئے محاذ تیار کیے، آپ نے جس حکمت و دانش، فکر و تدبر اور فہم و فراست کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے انھیں پسپا کیا وہ ایثار بے مثال ہے، جس پر آج بھی اربابِ تحقیق و دانش محوِ حیرت ہیں۔ مؤرخین تعجب کرتے ہیں اور اغیار آپ کی حکمت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ کے عہدِ مبارک میں متعدد فتوحات ہوئیں اور مملکتِ اسلامیہ کی توسیع ہوئی۔ آپ نے اسلام کے دعوتی نظام کو بہ حسن و خوبی آگے بڑھایا اور کافی تعداد میں بنجر دل اسلام کی خوشبو سے باغ و بہار ہو گئے۔ تحریکِ ارتداد کا خاتمہ، ایامِ عسرت میں مال سے اسلام کی مدد، اور بے پناہ سیاسی تدبر جس کی بنیاد مومنانہ فراست پر تھی؛ یہ آپ کے وہ کارنامے ہیں جن کی بنیاد پر بیگانے بھی اعتراف پر مجبور ہیں۔
اس مختصر تحریر میں راقم شانِ صدیقی کے ان جلوؤں کو واضح کرے گا جو اعتراف کے ذیل میں آتے ہیں، اپنے تو آپ کی شان و عظمت، وجاھت و علم، فہم و فراست کے قائل ہیں ہی اور بیگانے بھی اعتراف پر مجبور ہیں، ان میں مستشرقین بھی ہیں، مغربی مصنفین اور متعصب مؤرخین بھی، اغیار کے تاثرات کی ایک جھلک دیکھیں:
(۱) سر ولیم میور: یہ بڑا متعصب مؤرخ گزرا ہے، اپنی کتاب The Caliphate its Rise, Decline and Fall میں لکھتا ہے: ’’(حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے قلب و ذہن میں شخصی جاہ و حشمت کا خیال تک نہ تھا، حالاں کہ وہ شاہانہ اختیارات کے مالک تھے اور کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھے۔ انھوں نے اپنی ساری طاقت صرف خدمتِ اسلام اور اس کی ترقی و برتری میں صرف کی تاکہ ملتِ اسلامیہ کو فائدہ ہو۔ (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی کام یابی کا سب سے بڑا راز (حضرت) محمد (مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر کامل ایمان و ایقان تھا۔‘‘… اقبالؔ کے الفاظ میں یہ عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھا جس نے شانِ صدیقی کو بلند کیا ؎
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشقِ تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب
(۲) لین پول: مسٹر لین پول اپنی کتاب Studies in a Mosque میں لکھتا ہے: ’’(حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فیصلہ کرتے وقت متین اور عادل ہوتے تھے، وہ دل کے نرم اور کریم النفس تھے، اور خدمت اسلام کے بے لاگ جذبے سے سرشار۔‘‘
(۳) ایڈورڈ گبن: یہ مصنف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قناعت و فیاضی کے باب میں اپنی کتاب History of the Saracensمیں لکھتا ہے: ’’(حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اپنا وظیفہ تین درہم، اس قدر غذا اور دیگر ضروریات کو کافی سمجھا جس سے وہ ایک اونٹ اور حبشی غلام کی پرورش کر سکیں، آپ ہر ہفتے جمعۃالمبارک کو بہت مستحق اور مفلس مسلمانوں میں اپنی اور بیت المال کی رقم تقسیم فرماتے۔ (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے وصال پر جب آپ کے جانشین (حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو صرف موٹے کپڑے کا ایک جوڑا ورثے میں ملا تو انھوں نے بڑی مسرت کے ساتھ فرمایا: ایسی شان دار مثال سے بہتر اور بڑھ کر مثال قائم کرنا نا ممکن ہے۔‘‘
(۴) ڈاکٹر ویل: ڈاکٹر موصوف اپنی کتاب A History of the Islamic peopleمیں لکھتے ہیں: ’’(حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی نجی زندگی اور عہد حکومت ایسا گزرا ہے جس پر … انگشت نمائی نا ممکن ہے… (حضرت) ابوبکر (صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نرم دل، سادہ مزاج اور متقی و پرہیز گار تھے۔‘‘
ایسے تاثرات اگر یک جا کیے جائیں تو دفتر پُر ہو جائیں… سچ ہے شانِ صدیقی ایسی پاکیزہ و مثالی ہے کہ دُشمن بھی آپ کی صداقت و عظمت کی گواہی دینے پر مجبور ہے؛ الفضل ما شھدت بہ الاعداء... اور یہ بھی صحیح ہے ’’مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری‘‘… اور ہمیں اپنے اس عظیم پیشوا اور صداقت و سچائی کے پیکر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں امام احمد رضاؔقادری بریلوی کے الفاظ میں یوں نذر پیش کرنا چاہیے ؎
سایۂ مصطفی مایۂ اصطفیٰ
عزّونازِ خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعدالرسل
ثانی اثنینِ ہجرت پہ لاکھوں سلام
٭٭٭
استفادہ : ماہنامہ ضیاء حرم لاہور، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نمبر