تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ

تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان اوحدالدین حضور سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی بافیض اور بابرکت شخصیت علم وحکمت اور تصوف و روحانیت کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں، سرکارِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ گوناگوں فضائل و کمالات، اوصاف و محاسن کے جامع کامل تھے، سرکارِ سمناں کی بات میں عملی عبقریت، ادبی وجاہت، دینی منزلت، عملی جامعیت اور فقر و سلطنت کے مختلف گوشے یکجا تھے، سرکارِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ صرف روحانی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ علمی اور ادبی میدان میں بھی منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتے تھے- سرکارِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے جس طرح تبلیغِ اسلام کے سلسلے میں اپنی روحانیت کے ذریعے اہم کردار ادا کیا، وہیں علمی اور ادبی لحاظ سے بھی عظیم خدمات انجام دیں-

حضرتِ سرکار مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کے فکری احاطے میں علم و فن کے سارے گوشے جمع تھے، یہی وجہ ہے کہ سرکارِ سمناں رضی الله تعالیٰ عنہ کے یہاں تدریس، تحریر اور تقریر علم کی سبھی بہاریں دیکھنے کو ملتی ہیں، ان تینوں میدان کے آپ سلطان تھے اور ان میں آپ کو اعلیٰ کمال حاصل تھا- سرکارِ سمناں رضی الله تعالیٰ عنہ جہاں درسیات پر عبور رکھنے والے باصلاحیت مدرس اور ماہر معلم تھے وہیں اپنے اثرانگیز وعظ و نصیحت سے ہزاروں گم گشتگان راہ کو صراطِ مستقیم پر لاکر کھڑا کردینے والے ایک لاجواب اور باعمل داعئی اسلام بھی، اور اپنے نوک قلم سے درجنوں قیمتی کتب و رسائل کا علمی ذخیرہ چھوڑنے والے ایک مایہ ناز اور بلند پایہ ادیب بھی، غرض کہ ایک علمی شخصیت میں جو اوصاف و کمالات اور خصوصیات ہونی چاہیے وہ سب آپ کی ذاتِ مبارکہ میں بدرجہ اتم موجود تھیں- آپ بیک وقت مدرس، مصنف، مؤلف، مترجم، مفسر، مفکر، مقرر، حافظ قرآن اور قرآت سبعہ کے قاری تھے- اپنے زمانے کے اکابر علما میں شمار کیے جاتے تھے، آپ کو مختلف علوم و فنون پر دسترس و مہارت حاصل تھی، مطالعہ بڑا وسیع تھا، آپ کا طرزِ استدلال بڑا عالمانہ تھا، مشکل سوالات و اشکالات کی عقدہ کشائی آپ بڑے عالمانہ و احسن انداز میں کرتے تھے، آپ کے عصر میں بڑے بڑے مفکر، منطقی مناظر، فلسفی، آپ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کیا کرتے تھے، اپنے دور کے علما و مشائخ سے آپ کا علمی و روحانی رشتہ بڑا مضبوط و مستحکم تھا- علما سے آپ کے علمی مباحثے بھی ہوئے، آپ نے ان کے اعتراضات کا اطمینان بخش جواب بھی دیا-

     ولادتِ باسعادت: 

حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی ولادت بھی اپنی جگہ ایک کرامت ہے- شہر سمناں میں ایک صاحبِ حال مجذوب شیخ ابراہیم علیہ الرحمہ نامی رہا کرتے تھے، ایک روز سلطان سید ابراہیم اور ان کی اہلیہ محترمہ شاہی محل کے حرم میں تشریف فرما تھے کہ اچانک شیخ ابراہیم مجذوب اس جگہ پر وارد ہوئے، تو سلطان اور ملکہ عالیہ نے ان مجذوب بزرگ کی حد درجہ تعظیم کی اور نہایت احترام سے اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود ان کے سامنے ادب سے کھڑے ہو گئے، مجذوب نے پوچھا! ابراہیم کیا تو الله رب العزت سے بیٹا مانگتا ہے؟ یہ سن کر سلطان اور ملکہ بہت خوش ہوئے، کیوں کہ اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں بہت ملول رہتے تھے اور اکثر بارگاہِ خداوندی میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے، اب مجذوب کی زبان سے اچانک یہ سنا تو دونوں کے چہرے پر خوشی اور مسرت کی لہریں دوڑ گئیں، سلطان نے ادب سے عرض کی آپ بزرگ ہیں دعا فرما دیں، مجذوب بزرگ نے اولادِ نرینہ کی دعا فرمائی اور اٹھ کھڑے ہوئے، چند روز بعد سلطان ابراہیم نے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو خواب میں دیکھا کہ حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اے ابراہیم! تجھ کو الله رب العزت دو فرزند عطا کرے گا، بڑے کا نام اشرف اور چھوٹے کا نام اعراف رکھنا، اشرف الله کا ولی ہوگا اور مقرب بارگاہِ ایزدی ہوگا اس کی پرورش اور تربیت بھی خاص طریقے سے کرنا-

حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی ولادت سے تین ماہ قبل اہل سمنان نے ایک مجذوب کو دیکھا جو شہر کے گلی کوچوں میں نہایت بلند آواز میں یہ صدا لگا رہا تھا ،، با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں،، اس مجذوب کو سب سے پہلے اس سپاہی نے دیکھا جو شہر سمناں کی فصیل پر پہرا دے رہا تھا، کیونکہ رات کو شہر کے دروازے بند کردیے جاتےتھے، تاکہ ڈاکو و لٹیرے اندر داخل نہ ہوسکیں، رات کے سنّاٹے کو چیرتی ہوئی یہ آواز جب اس کے کانوں میں پہنچی تو بڑا حیران ہوا، لیکن اس کی حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب اس نے مجذوب کو فصیل کے اندر پایا، کیونکہ فصیل اتنی بلند تھی کہ بغیر کسی ذریعے کے اس کو عبور کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں تھا، اب سپاہی پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ حیرت سے مجذوب کی جانب دیکھ رہا تھا جسکی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی اور وہ مسلسل یہی صدا لگا رہا تھا،، با ادب با ملاحظہ ہوشیار جہانگیر زماں اشرف دوراں تشریف لاتے ہیں،، اس آواز سے شہر سمناں کے در و دیوار گونج رہے تھے، لوگ حیران تھے کہ یہ دیوانہ کون اور کس کے آنے کی خبر دے رہا ہے؟ یہ وہی شیخ ابراہیم مجذوب تھے جنہوں نے سلطان سید ابراہیم کو فرزند سعید کی بشارت دی تھی، اور اب ان کی ولادت سے تین ماہ قبل یہ خبر پورے شہر سمناں میں پھیلا دی تھی، آخر مجذوب کی دعا اور حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بشارت پوری ہوئی اور 807/ ہجری کو حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی ولادتِ باسعادت ہوئی- ( حیات غوث العالم)

     تعلیم و تربیت:

سلطانِ خراسان، سلطان سید ابراہیم نے اپنے فرزند کی تعلیم حفظ قرآن سے شروع کروائی- اور تربیت پر بطورِ خاص توجہ دی، سات سال کی عمر میں حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے بفضلِ خدا قرآن مجید مع سات قرآت کے حفظ کیا- اور چودہ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کرلیا، حضرتِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کمسنی ہی میں حضرتِ شیخ رکن الدین علاء الدولہ سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے، حضرتِ رکن الدین کی خصوصی توجہ اور اپنے جذبہ صادق کی وجہ سے حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ تیزی سے راہِ سلوک پر گامزن ہو گئے، جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد سلطان سید ابراہیم وصال فرما گئے- اس طرح اس کم عمری میں سلطنتِ سمناں کی ذمہ داری کا بارگراں آپ کے کندھوں پر آگیا، لیکن آپ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسا بہترین نظام چلایا کہ لوگ حیران رہ گئے، آپ نے 722/ ہجری سے 733/ ہجری تک دس سال نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی، اسی دوران حضرتِ خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے آپ کو ،،اسم ذات،، بغیر مدد زبان ورد کرنے کی مشق کرائی اور اس کے ورد کرنے کا حکم دیا، آپ نے اس کے ورد کی مشق مسلسل دوسال کی، اس مشق کے بعد اشغال اویسیہ کی جانب رجوع ہوئے تو خواب میں حضرتِ سیدنا اویسِ قرنی رضی الله تعالیٰ عنہ کی زیارت ہوئی جنہوں نے براہِ راست آپ کو اشغال اویسیہ کی تعلیم دی اور اجازت شغل مرحمت فرمائی-

     سیاحت و دین تبلیغ:
حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ اپنے پیر و مرشد حضرتِ علاؤ الدین گنج نبات رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کے حکم پر تبلیغ دین کے لیے روانہ ہو گئے، آپ نے پوری دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہِ ہدایت دکھائی، تبلیغ کے سلسلے میں بڑی بڑی رکاوٹیں آئیں، اور بہت ہی خطرناک جادو گروں سے مقابلے ہوئے لیکن کوئی بھی آپ کے سامنے نہ ٹھہر سکا، آپ نے اس سلسلے میں تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا، آپ نے 31/ کتابیں تصنیف فرمائیں جو مرو ایام کے ساتھ ساتھ ناپید ہوگئیں، لیکن اب بھی الحمد لله دس کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں- اور عالم اسلام کے مختلف جامعات میں محفوظ ہیں- اکثر کتابیں فارسی میں تھیں، بعد میں آپ نے ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا، جس طرح ایک کتاب ،،فواید العقاید،، تھی یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا- آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبد الرزاق نور العین فرماتے ہیں کہ جب آپ ملک عرب میں تشریف لے گیے تو بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے،، فواید العقاید،، کا عربی زبان میں ترجمہ کیا- آپ کی تصنیفات میں لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرا و رموز بیان فرمائے ہیں- طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ حاصل کیا ہے- یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ کراچی کی لائیبریری میں بھی محفوظ ہے- اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوچکاہے-

حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ اردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں- چناچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اُردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا رسالہ اردو نثر میں ،، اخلاق تصوف،، بھی تھا- پروفیسر حامد حسن قادری رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اُردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف حضرتِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کا رسالہ اخلاق و تصوف ہے جو 758/ ہجری مطابق 1308/ عیسوی میں تصنیف کیا گیا، یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر محمول ہے- اس کے 28/ صفحات ہیں، قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اُردو زبان کی پہلی کتاب ہے- اور داستان تاریخ اردو میں لکھے ہیں- اُردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محقیقین کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ اردو نثر کے پہلے ادیب و مصنف ہیں-

      تصانیف:
1. رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین 2. رسالہ غوثیہ 3. بشارت الاخوان 4. ارشاد الاخوان 5. فواید الاشرف 6. اشرف الفوائد 7. رسالہ بحث وحدت الوجود 8. تحقیقات عشق 9. مکتوباتِ اشرفی 10. اشرف الانساب 11. مناقب السادات 12. فتویٰ اشرفی 13. دیوانِ اشرف 14. رسالہ تصوف و اخلاق 15. رسالہ حجتہ الذاکرین 16. بشارت المریدین 17. کنز الاسرار 18. لطائف اشرفی 19. شرح سکندر نامہ 20. سر الاسرار 21. شرح عوارف المعارف 22. شرح فصول الحکم 23. قواعد العقائد 24. تنبیہ الاخوان 25. مستالیحہ تصوّف 26. تفسیرِ نور بخشیہ 27. رسالہ در تجویز طعنہ یزید 28. بحر الحقائق 29. نحو اشرفیہ 30. حاشیہ برحواشی مبارک 31. شرح ہدایہ 32. مرقومات اشرفی-
       کرامات:
حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی کرامات اور خوارق عادات اس قدر ہیں کہ بیان نہیں کیا جاسکتا، یہاں چند کرامتوں کا ذکر کیا جاتا ہے-

. جب پیر علی بیگ حضرت کی دعا سے ایک مہم کو فتح کر کے واپس آئے، تو اس کے لشکر میں ایک بوڑھا شخص تھا جو سالہا سال سے گھاس لایا کرتا تھا، اس نے نہایت حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ آج یومِ عرفہ ہے حاجی اپنے کعبہ مقصود کو پہنچے ہوں گے اچھا ہوتا کہ میں بھی اس دولت سے سرفراز ہوتا؟ حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کیا تم حج کرنا چاہتے ہو؟ اس نے عرض کیا اگر یہ دولت نصیب ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا- 
حضرت نے فرمایا آؤ.....
وہ شخص آیا......
حضرت نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا اور فرمایا جاؤ-
فورن اس فرمان کے وہ کعبہ شریف پہنچ گیا اور مناسکِ حج ادا کئے اور تین روز تک کعبہ شریف میں رہا، اس کو خیال ہوا کہ کوئی شخص مجھ کو میرے وطن پہنچا دیتا، اس خیال کے آتے ہی اس نے حضرت محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ کو وہاں دیکھا، قدموں پر گر پڑا، سر اُٹھایا تو اپنے وطن موجود تھا، سبحان الله کیا تصرف علی الحقیقت ہے- ( لطائف اشرفی)
. حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ جب احمد آباد گجرات میں تشریف رکھتے تھے، آپ کے اصحاب ہمراہی تفریحا سیر کو چلے گئے، ایک باغ میں گذر ہوا اس میں حسین معشوقوں کا مجمع تھا، اس جماعت میں ایک فقیر نہایت حسین مہ جبین کو دیکھا گیا حضرت کے ہمراہی اس فقیر کو دیکھنے لگے-
ایک شخص نے کہا کہ ذرا بت خانے کے اندر جاکر دیکھو جو نگار خانہ جبین سے ایک ایک حسین تصویر پتھر کی تراش کر بنائی ہے-

سب لوگ بت خانے میں دیکھنے گئے مولانا گلخنی بھی اس جماعت میں تھے جب بت خانے میں گئے، ایک عورت کی تصویر حسین مہ جبین پتھر کی تراشی ہوئی نظر آئی، دیکھتے ہی ہزار جان سے اس پر عاشق ہوگئے، بت کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ اٹھ چل-

           عاشق  بیدار است  از زاری دل
           نیست بیماری چوں بیماری دل

حضرتِ عشق نے جب اپنا اثر دکھایا، صبر و قرار، ہوش وحواس، شرم و حیا، سب کو کنارہ کش کردیا- چند روز بے آب و دانہ اس بت نازنین کا ہاتھ پکڑے ہوئے کھڑے رہے، جب اس حالت میں ایک عرصہ گزر گیا تو حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ان کی حالت عرض کی گئی-
فرمایا خود جاؤں گا اور اس کو دیکھوں گا جب تشریف لے گئے بہت سے لوگ حضرت کے ہمراہ چلے، جب آپ کی نظر مبارک مولانا گلخنی پر پڑی عجیب حالت بے خودی میں دیکھا کہ کسی آدمی پر ایسی مصیبت صدمہ عشق نہ ہو، مولانا گلخنی کی یہ حالت دیکھ کر حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ رو پڑے، اور فرمایا کہ کیا خوب ہوتا کہ اس صورتِ سنگین میں روح سما جاتی اور زندہ ہوجاتی-
زبان مبارک سے یہ فرمانا تھا کہ اس صورت میں جان آگئی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی جتنے لوگ اس مجمع میں حاضر تھے سب نے شور سبحان الله سبحان الله بلند کیا اور کہا کہ مردوں کو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام جلا دیتے تھے، حضرت کی یہ کرامت اعجازِ عیسوی کا مظہر ہے-

حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے مولانا گلخنی کا نکاح اس بت نازنین سے کردیا اور ولایتِ گجرات ان کے سپرد کر کے وہیں ٹہرا دیا-
حضرتِ نظام الدین یمنی جامع ملفوظ لطائف اشرفی میں فرماتے ہیں کہ اس بت سنگین سے جو اولاد پیدا ہوتی تھی اس کے ہاتھ کی چھنگلیاں میں ایک گروہ پتھر کی پیدائشی ہوتی تھی، یہ علامت نسل مادری بچوں میں ہوتی تھی- (لطائف اشرفی)
. حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ دارا السلطنت روم میں عرصہ تک قیام فرماتے تھے اور ہمراہیوں کے لئے ایک خانقاہ بنائی تھی اور اس کے پہلو میں ایک خلوت خانہ تیار کردیا تھا، وہاں خود آرام فرماتے تھے- ایک سلطان کے صاحب زادے نے جو حضرتِ مولانا رُومی کے سجّادہ نشین تھے حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی دعوت کی اور بہت سے مشائخ کو بھی اس دعوت میں بلایا، شیخ الاسلام جو بڑے عالم و فاضل تھے اور کسی قدر حضرت کی بارے میں نقطہ چینی دل میں رکھتے تھے دل میں ٹھان لیا کہ جب حضرتِ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اس مجلس میں تشریف لائیں گے تو وہ مشکل مسئلہ ان سے پوچھوں گا جس کے جواب سے وہ عاجز ہوں-
جب حضرتِ سمناں کے قدم مبارک نے محفل میں جانے کی راہ اختیار کی اور جب تک حضرت دروازے پر پہنچے ناگاہ شیخ الاسلام کی نظر میں ایسا آیا کہ ایک صورت حضرت کی شکل میں حضرت کی جسم سے باہر نکلی اور ایک صورت سے دوسری پیدا ہوئی، اسی مثل کی سو شکلیں شیخ الاسلام کی نظر میں ظاہر ہوئیں-
مخدوم زادہ رومی استقبال کے لیے دروازے پر آئے اور بڑی عزت سے آپ کو لیا اور سب سے بلند تخت پر آپ کو بٹھایا-

شیخ الاسلام کی طرف رخ کر کے حضرتِ محبوبِ یزدانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان میں سے کس صورت سے مسئلہ پوچھتے ہو؟ اس بات کے سنتے ہی ان میں اس قدر ہیبت کا غلبہ ہوا کہ گویا آسمان وزمین ٹکر کھا گئے-
شیخ الاسلام بے اختیار اٹھے اور حضرتِ مخدوم زادہ رومی کو اپنا مددگار اور شفیع بنایا، اور حضرت کے قدموں پر سر ڈال دیا اور عرض کیا کہ عذر خواہ ہوں تقصیر معاف فرمائیے- فرمایا چونکہ مخدوم رومی کو درمیان میں لائے ہو تو اب نہ ڈرو ورنہ تمہیں بتا دیا جاتا، لیکن اس کے بعد کسی شخص کو اس گروہ کے اور کسی درجہ کے صوفی کو بھی نظر انکار سے نہ دیکھنا- ( لطائف اشرفی)

      وصالِ مبارک:
حضرتِ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنی پوری زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری، اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگانِ دین سے فیض حاصل کیا- سن 808/ ہجری میں ہندوستان میں ہندوؤں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب پہنچے اور کچھو چھ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی- محرم الحرام کا چاند دیکھ کر آپ نے بڑی طمانیت کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: کاش جد مکرم حضرتِ سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی موافقت جلد نصیب ہوتی، اس کے بعد آپ کی طبیعت ناساز ہو گئی اور آپ بستر علالت پر دراز ہوگئے، اور آپ نے مریدین کو بلاکر ارشاد فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ میری قبر میری زندگی میں تیار ہو جائے- حسب الحکم لحد مبارک تیار کی گئی اور اس وقت نصف محرم گزر چکا تھا، آپ ایک قلم اور کاغذ لے کر قبر میں تشریف لے گئے اور وہاں بیٹھ کر مریدین کے لیے ہدایت نامہ تحریر فرمایا جس میں اپنے عقیدے اور مسلک کی وضاحت فرمائی، اور مریدین کو راہ سلوک طے کرنے، دین کے احکام پر پوری استقامت کے ساتھ عمل کرنے اور شریعت و طریقت پر عمل کرنے کی سخت تاکید فرمائی یہ ہدایت نامہ رسالہ قبریہ  کے نام سے مشہور ہے-

آپ نے اپنے حجرہ خاص میں مریدین اور خلفا کی موجودگی میں حضرت سید عبد الرزاق نور العین کو طلب فرمایا اور ان کو خرقہ مبارک، تاج اشرفی اور تبرکات خاندانی عطا فرما کر اپنا جانشین مقرر فرمایا- ظہر کے وقت آپ نے نور العین کو امامت کا حکم دیا اور خود ان کی اقتدا میں نماز پڑھی- نماز کے بعد آپ خانقاہ میں رونق افروز ہوگئے- اور سماع کا حکم فرمایا قوالوں نے شیخ سعدی کے اشعار پڑھے، ایک شعر پر آپ کو کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وجد کی کیفیت میں آپ خالق حقیقی کے دربار اقدس میں پہنچ گئے- آپکا مزار پر انوار کچھو چھ شریف ضلع فیض آباد یوپی میں مرجع خلائق ہے-

حضرتِ شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنی کتاب الاخبار الاخیار میں فرماتے ہیں کہ آپ کا مزار کچھو چھ شریف میں ہے یہ بڑا فیض کا مقام ہے اس علاقے میں جنات کو دور کرنے کے لیے آپ کا نام لینا تیر بہدف ہے-

آپ کا مزار مبارک کچھو چھ شریف میں آج بھی مرجع خلائق ہے اگرچہ سرکار مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی الله تعالیٰ عنہ کے وصال مبارک کو چھ سو سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے، لیکن آج بھی آپ کی یاد لوگوں کے دلوں میں موجود ہے- آپ کا عرس مبارک ہر سال 26/ تا 28/ محرم الحرام کو کچھو چھ شریف میں نہایت شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے- جس میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، اور نیپال کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی لوگ وہاں جاکر شرکت کرتے ہیں-

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter